اولادسعاتمندہو تو ایسی ہو ۔۔۔شمس جیلانی

ایک خبر ہے کہ نواز شریف صاحب کی والدہ صاحبہ لندن تشریف لے گئیں! اس سلسلہ میں قارئین کو یہ بات ذہین میں رکھنی چا ہیئے کہ جب نواز شریف صاحب کی راج ہٹ کہیں اڑ جاتی ہے تو وہ کسی کی نہیں مانتے ہیں اگر مانتے ہیں تو والدہ صاحبہ کی،پہلے والد صاحب کی مانتے تھے ممکن ہے کہ دونوں کی مانتے ہوں اور اس کے ساتھ ہی اللہ کی بھی مانتے ہوں اور اس کا نتیجہ یہ ہواللہ تعالیٰ نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچادیا ہو مگر اس سلسلہ میں ان کے یہاں کوئی مثال نہیں ملتی جیسے کہ کچھ لوگ مال حرام میں اللہ کے نام پر لنگر کھولے بیٹھے ہیں کہ دونوں کام ساتھ ہی چلتے رہیں کہ اللہ بھی خوش بندے بھی خوش رہیں!لیکن ہم سب نے دیکھا کہ والدہ صاحبہ کی گزشتہ ایام میں کئی مرتبہ ضرورت پڑی اور وہ کام آئیں۔ جیسے کہ جب انہوں نے اسپتال چھوڑنے سے انکار کردیا تووالدہ صاحبہ کی خدمات حاصل کی گئیں اورانہوں نے اچھے بچوں کی طرح انکی بات مان لی تھی۔ لہذا اس ضعیفی میں لندن روانگی پر قیاس آرائیاں تو ہونا تھیں جو ہو رہی ہیں؟ مگر ہمیں تشویش اس پرہورہی ہے کہ تبصرے بہت کم ہوئے بلکہ یوں کہہ لیں کہ ان کی روانگی کوکوئی اہمیت ہی نہیں دی گئی آخر یہ سرد مہری کیوں؟ یہ بات نہ جانے کیوں ہمیں بالکل ہضم نہیں ہوئی؟۔ دیکھئے اس کے پیچھے کوئی ہوگا راز ہوگاضرور جو وقت بتا ئے گا۔ ع۔بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ کچھ تو ہے،جس کی پردہ داری ہے۔لیکن ہم اس طرف وصولی والوں کی توجہ ضرور مبذول کرا نا چا ہیں گے کہ وہ بھی اگر ان خدمات سے فائیدہ اٹھا ئیں شاید انکا کام بن جائے اور حکومت پاکستان کا بار کچھ ہلکا ہوجا ئے۔ کیونکہ ابھی تک جو بھی آیا اس نے بار بڑھایا ہے؟ کچھ نے مجبوراً ملک کودیوالیہ ہو نے سے بچانے کے لیئے کچھ نے اپنے محلات بنانے اور بنے بنا ئے خرید نے کے لیئے۔
ویسے آجکل کوئی کتنا ہی بوجھ بھجکڑ ہو اس کے لیئے کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ کہ عموماً اس دور میں قیاس آرا ئیاں کام نہیں دیتیں ہیں کہ جو تجربے کی بنا پر ہو نا چا ہیئے مگر ہو کچھ اور جاتا ہے۔ لہذا ہمارا مشورہ ہے سارے دانشوروں کو کہ وہ کچھ ہونے کے بعد قیاس آرائی کیا کریں اگر اپنی ساکھ خراب نہیں کرناہے۔ کیونکہ اس دور میں سب کچھ ہو نا ممکن ہے۔ کسی کوکچھ مال واپس دینے کا معاملہ جبکہ اربوں اور کھربوں کا ہوتو بہتر یہ ہے۔ کہ تھوڑے پیسے ثبوت ضائع کرنے سے کام اگر ہو جا ئے تو بہتر ہے اور یہ کلیہ بڑا کامیاب ثابت ہواہے۔لہذا نتائج جب تک سامنے نہ آجا ئیں اس وقت تک حتمی پیش گوئیاں کرنے کے بعد اپنی ساکھ بچا ئے رکھنا بہت مشکل بس یوں سمجھ لیں کہ ً میر ؔ صاحب زمانہ نازک ہے دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار یہ میر صاحب بہت پہلے نصیحت کر گئے ہیں۔ گرہ میں باندھ لیں تو اچھا ہے۔ مثلا ً کبھی کسی نے سوچا تھا کہ افغانستان میں ٹرمپ صاحب کو پاکستان کی ضرورت پڑیگی اور وہ کہیں گے آپ ہماری طالبان سے صلح کرا نے میں مدد کریں۔ اگر آپ کو تحقیق کاشوق ہے تو آپ انہیں کالموں میں تلاش کر لیں ہم نے امریکہ کے ایک جانے صدر کو اور آنے والے ابنِ صدر کو مشورہ دیا تھا کہ افغانستان میں نہ کودیں، کیونکہ اس میں جو کود تا ہے اور بعد میں نوبت یہ آجاتی ہے کہ ابا کہتے ہیں کہ ًبیٹا توکمبل کو چھوڑ دے اور دریا سے باہر آجا تو وہ بے بسی سے جواب دیتا ہے کہ ابا میں تو چھوڑ دوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا ہے ً مگر لوگ یہ بھول جا تے ہیں کہ ایک طاقت اور بھی ہے۔ علامہ اقبال ؒ فرما گئے ہیں کہ۔ اٹھاساقیا پردہ اس راز سے لڑادے ممولے کو شہباز سے۔ یہ ہستی وہ ہے جو جب چاہے مملولے سے شہباز کو پٹوادیتی ہے۔ مگر ہر شخص اپنی طاقت کی نشہ میں بھول جا تا ہے کہ اسے ایک دن ایسا بھی دیکھنا پڑے گا؟
کل پرسوں کی تازہ خبر پڑھ لیں کہ اسلامی ملکوں کے بانی جنکی عمرچورانوے سال ہے۔ اور ایک ملک کر تا دھرتا ہیں۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں اپنے ایک ساتھی کو بری طرح کچلا اور اپنے خیال میں اسے ختم کردیا؟ ہمیں تو اس ملک میں جانے کا اتفاق نہیں ہوا مگر ہمیں ہمارے ایک انتہائی متقی دوست نے ہمیں اسوقت بتا یا تھا جبکہ وہ وہاں ملازمت کے سلسلہ میں مقیم تھے۔ کہ اس پرغلط الزمات اس لیئے لگا ئے گئے ہیں۔ (کہ وہ پکا مسلمان ہے) حتیٰ کہ اسے پانچ سال کے لیئے انہوں نے جیل بھجوادیا؟ پھر کیا ہوا کہ حالا ت ایسے پیدا ہوگئے کہ انہیں اسی کے ساتھ مرتبہ ملکر الیکشن لڑنا پڑا اور یہ معاہدہ بھی کرنا پڑاکہ پہلے دوسال وزیر اعظم رہیں گے جبکہ اس کی بیوی نائب وزیر اعظم رہے گی۔ آجکل یہ صورت ِ حال ہے کہ اسکے اب اس باری ہے جسے جیل بھیجا تھا۔ اوران سے کہا جا رہا کہ آپ اب کرسی خالی کیجئے۔ مگر وہ آڑ لے رہے ہیں ہونے والی کانفرنس کی،کہ میں اپنا عہدہ چھوڑدونگا مگر کانفرنس سے پہلے نہیں۔
تاریخ ان واقعات سے بھری ہوئی ہے ان میں سے ہم نے یہاں یہ چند مثالیں پیش کی ہیں تا کہ یہ ثابت کر یں کہ ایسا بھی ہوتا؟ اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نظام کو چلانے والا کوئی اور ہے۔ شاید کہ اتر جا ئے ترے دل میں میری بات ۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ دنیا میں جو کچھ ہونے جارہا ہے۔ نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے ہندوستاں والو تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ اس لیئے کہ مظلوم کی فریاد آسمان تک پہنچ جاتی ہے۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ ً اگر اپنی حکومت کو ئی طول دینا چاہتا ہے تو اسے چاہیئے کہ ظلم سے بچے۔ اور ہر صاحبِ اقتدار ظلم خود کرے یا ساتھیوں کے ظلم پر خاموش رہے۔ اللہ کے یہاں جواب دہ وہی ہوگا۔ اس لیئے کہ رب نگاہ میں ً صحافی کو تھپڑ مارنے والا اور کسی شریف کی پگڑی اچھالنا دونوں ہی ظالم ہیں ً

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.