بلندی ہو تو ایسی ہو۔۔۔ شمس جیلانی

ہم انہیں کالموں میں بار بار لکھ چکے ہیں کہ ہم ویسے ہی رہتے جیسا کہ حضور ﷺ کی آمد کے بعد ان کے مقرب صحابہ کرام ؓ بن گئے تھے۔ تو دنیا کی تاریخ کچھ اور ہی ہوتی؟ لیکن ہم نے بجا ئے اس کے یہ کیا کہ ہم واپس ًحماس “بن گئے جیسے دور ِ جاہلیہ میں عرب تھے۔ اور افسوس ہے کہ ان میں وہ سب سے آگے تھے جو رہنما ئی کر سکتے تھے یعنی علمائے کرام۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام تیزی سے بڑھتے بڑھتے ایک دم رک گیا؟ کیونکہ دنیا میں اپنا مذہب چھوڑنا سب سے مشکل کام ہے چا ہے وہ کتنا ہی غیر فطری کیونہ ہو۔ اس لیئے کہ ہمیشہ معاشرے کے لیئے اپنو ں کا حاصل شدہ تحفظ سب سے اہم چیز ہے؟ جو رد عمل کے طور پر سب چھٹ جا تے ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو دنیا اسلام جیسے مذہب کو فوراً تسلیم کر لیتی۔ کیونکہ آپ جس مذہب کھنگا لیں تو بہت سی مقدس ہستیوں میں ایک ہستی ایسی ضرور ملے گی جو ان سب کی بڑی ہو! جیسے کہ نہ ماننے والے گروہوں میں “مدر نیچر“ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کوئی بھی نبی ؑ آئے انہو نے یہ ہی تعلیم دی کہ قابل عبادت وہی ایک ذات ہے۔ جیسا کہ بہت سوں کے بارے میں قرآن میں ذکر بھی آیا ہے البتہ یہ اور بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ بعد میں اس کے شریک بنا لیئے گئے۔
مگر مسائل جب پیدا ہوئے کہ جب ہم انہیں وہ مقام دینے کو تیار نہیں ہو ئے جو اسلام نے آکر سکھا یا تھا کہ صرف کلمہ پڑھتے ہی ان کو تمام حقوق حاصل ہو جاتے تھے جو کہ ان سے پہلے ایمان لانے و الوں کو حاصل تھے۔ بلکہ ان سے بھی افضل ہو جا تے تھے۔جو پہلے سے مسلمان تھے اس کے بعد کوئی انہیں اسکروٹنی کی چھلنی میں سے نہیں گزارتا تھا۔ نہ کسی کو حق تھا حاصل تھا کہ ان کے منہ پر یا ان کے پیٹ پیچھے انکا ماضی یاد دلا ئے یا زیر بحث لا ئے۔ اگر حضور ﷺ کی یہ تعلیمات نہ ہوتیں تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ لوگ جو کٹر اسلام کے دشمن تھے وہ بعد میں جانثار بن کر دوستوں میں شامل ہو گئے۔جس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ میں اگران کو گنا ؤنگا تو لوگ حیرت میں رہ جا ئیں گے۔ لیکن ہم حضور ﷺکے وصال کے بعد بدل گئے اور ویسے ہی ہو گئے جیسے کہ پہلے تھے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ اسلام پھیلتے پھیلتے ایک دم رک گیا۔ ورنہ سارے حقیقت پسند ابتک اسلام قبول کر چکے ہوتے۔ جیسے ہندؤں کا ہندوستان میں ایک بڑا طبقہ؟ جنہیں گاندھی جی نے ہندوستان آکر اور چھوت چھات مٹاکر انہیں بدل دیا اور وہ ان کا حصہ بن گئے جنہوں نے انہیں غلام بنا کرکبھی پستی میں ڈھکیلا تھا جبکہ بھارت کے اصل باشندے وہ ہی تھے۔ آپ ممکن ہے کہ سوال کریں کہ آپ یہ داستان آج کیوں لے بیٹھے یہ تو ماضی ہے اس کو چھیڑنے سے کیا فائدہ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قومیں ماضی کی غلطیوں سے سیکھتی ہیں؟جو نہیں سیکھتی ہیں وہ گھا ٹے میں رہتی ہیں۔ دوسرے یہ موضوع چند دن پہلے ہماری انتہائی قابل احترامِ بہن جو کہ بہت کم لکھتی ہیں لیکن اگر لکھتی ہیں تو دنیا ان کی تحریر پر دھیان دیتی ہے وہ ہیں ہمارے انتہائی قابل ِ احترام عزیزدوست جناب صفدر ھمدانی کی شریک حیات محترمہ ماہ پارہ صفدر جنہوں اپنی عمر بی بی سی لندن میں گزاری انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کی سابقہ شریک ِ حیات محترمہ جمائمہ کے ٹیوئٹ ذ کر تھا اپنے ایک کالم میں جسکا عنوان ہے “ زخم پھر ہرے ہوگئے لیکن کیوں “ جس میں انہوں نے پاکستانیوں کے اس سلوک کا ذکر کیا تھا جبکہ انہوں نے پاکستانی معاشرہ پوری طرح اپنا لیا اور اپنی یادگاروں میں واپس جاتے ہو ئے ایک کینسر اسپتال بھی چھوڑا تھا۔جو کہ انہیں ایک شاہی جوڑے کے اپنا شاہی رکھ رکھاؤ چھوڑنے اور کنیڈا میں آکر آباد ہوتے وقت دوبارہ یاد آیا۔جبکہ عمران خان کے ساتھ شادی کرنے سے پہلے وہ ایمان بھی لے آئیں تھی مگر ہمارے لوگوں نے جن میں ایک مولوی صاحب اور دوسرے کچھ لیڈرانِ کرام شامل ان کا پاکستان میں جینا مشکل کردیا تھا اور انہیں اپنے دوبچوں کو لیکر اور نا چاہتے ہوئے شوہر چھوڑ کر واپس اسی معاشرے میں آنا پڑا ، جس معاشرے کو وہ چھوڑ کر گئیں تھیں۔ مگر اللہ کی لاٹھی بے آواز نہیں ہوتی چند اس کی چوٹیں سہہ رہے ہیں، کچھ کا ابھی نمبر نہیں آیا ہے۔ مگر میرا یقین ہے کہ آئے گا ضرور کیونکہ وہ شیطان کے ساتھی بنے جس کے بارے میں ایک حدیث ہے “ اسوقت سب سے زیادہ وہ خوش ہوتا ہے اور اپنے اس شاگرد کی پیٹ ٹھونکتا ہے جس نے میاں بیوی میں آپس میں لڑائی کراکر جدا ئی کرا ئی ہوتی ہے۔ جب سے وہ پھر زیر ِ بحث ہیں اور مجھ سے میرے دوست اکثر پوچھا کرتے تھے کہ آپ ان دونوں کے بارے میں کچھ بتا ئیں مگر میں یہ کہہ معذرت کر لیتا تھا کہ مجھے علم نہیں ہے کیونکہ میں اس سے پہلے وہاں سے چلا آیا تھا۔ مگر ان کے کردار سے متاثر ضرور تھا کہ وہ کتنی عظیم خاتون ہیں جنہوں نے کبھی طلاق کے بعد اپنے شوہر کی برا ئی نہیں کی، اور سابقہ شوہر کے سیاسی کریر کو وہ منی ٹریل دے کر بچا لیا۔ جو انہیں اس کی قیمت طور پر ادا کی تھی جو جائیدادانکی ملکیت تھی اورعمر ان خان نے ان سے خریدا تھا۔ حالانکہ وہ بلا کچھ دیئے اور لوگوں طرح ہضم کرسکتے جیسے کہ لوگ وہاں روازانہ کرتے رہتے ہیں جبکہ وہاں ایسی مثالیں عام ہیں۔کیا اس کردار کی عظیم ہستی اسی سلوک کی مستحق تھی جو ان کے ساتھ کیا گیا؟اگر ہم نے یہ سلوک نہ بدلا تو کون یہ خطرہ مو ل لے گا اور ہمارے ساتھ اچھا سلوک کریگا یا ہماری سفارش کریگا؟جواب آپ پر چھوڑتا ہوں۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.