کاش شیخ عبد اللہ دور اندیش ہوتے۔۔۔شمس جیلانی

توپانچ فروری کو جو یوم کشمیر دنیا میں منایا گیا اس کی نوبت کبھی نہ آتی، نہ ہی وہ خود اپنے ہی دوست پنڈت نہرو کے ہاتھوں جن کی محبت میں گرفتار ہوکرجیل کی صعوبت برداشت کرتے اور نہ ہی کئی عشروں سے کشمیری جو دکھ برادشت کرتے رہے ہیں اس سے کشمیری دوچار ہوتے اور نہ ہی چھ مہینے سے ان کی قوم کر فیو برداشت کر رہی ہوتی۔ یہ سب ان کی قوم کو کیوں بھگتنا پڑا کہ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ قرآن کہہ رہا ہے کہ یہ تمہارے“ ولی“اس وقت تک نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم ان جیسے نہ بن جا ؤ؟ کیوں اس کیوں کا جواب یہ ہے کہ بہت ہی مشہور فارسی کی مثل ہے کہ“ کبوتر با کبوتر باز با باز۔ کند ہمجنس با ہمجنس پرواز (اردو میں اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ایک ہی قسم کے پرندے با عافیت ایک دوسرے کے ساتھ مل کر پرواز کر سکتے ہیں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ مختلف قسم کے پرند ایک ساتھ اڑ سکیں؟ کیوں کہ ان میں کوئی تیز پرواز رکھتا ہے اور کوئی آہستہ اڑتا ہے کسی کی برواز بلند ہے کسی کی درمیانی ہے لہذا ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ ایک زمانے میں ہمیں بھی یہ خبط سوار ہوا تھا کہ تمام فرقے اور مذاہب میں اتحاد ہونا چا ہیئے اور کوشش بھی بہت کی،مگر وہ بات پیدا نہ ہوسکی جو ہم خیال لوگوں سے ہم توقع رکھتے تھے حالانکہ بین المذاہب طبقوں میں ہمیں بہت محبت اور احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ مگر ہمیں ایک ایسے تیوہار سے واسطہ پڑگیا جو بت پرستوں کا تھا۔ ہم جب بتوں کے سامنے سے گزرے تو پجاری جوکہ ہمارا بے تکلف دوست تھا کہنے لگا کہ آج آپ بھی متھا ٹیک لیں؟ جوکہ اس کے لئے اس کے اپنے عقیدے کے مطابق بہت بڑے اعزاز کی بات تھی جو اس نے ہمیں پیش کش کی، جبکہ وہی ہمارے اس عقیدے کے لیئے زہر تھی کہ“ اللہ سبحانہ تعالیٰ شرک کو کسی حالت میں بھی معاف نہیں کرتا ہے۔ اور جو ایسا کرے گا اس کا دائمی ٹھکانا جہنم ہے۔ اس خلاف ورزی پر کسی کی شفارش کسی کی شفاعت بھی کام نہیں آئے گی؟ہم نے اس کی بات نہیں مانی اور دوستی ختم ہوگئی۔ اگر ہم نے یہ آیت پہلے غور سے پڑھ کر اس پہ تدبر کرلیا ہوتا تو ہم پہلے ہی وہاں نہ جا تے اور ہمارے علماء اس سلسلہ میں بالکل صحیح فتویٰ دیتے ہیں کہ اپنے بہترین اخلاق سے دوسرے مذا ہب کے لوگوں سے برتاؤ تو اچھے طرح کرو، مگر ان کی خالصتاً مذہبی تقریبات میں مت جاؤ۔مگر وہ دوسری انتہا(ایکسٹریم) پر چلے جا تے ہیں کہ عربی کے لفظ“ولی“ کا دوستی کی شکل میں غلط ترجمہ دوست کردیتے ہیں؟ جبکہ“ ولی“ کی اسلام میں کوئی اور ہی تعریف ہے اور وہ مختلف مفہوم رکھتی ہے۔ اس لیئے وہ ولی بنانے کو بھی منع کرتے ہیں۔ جبکہ اسلام دوست بنانے کو منع نہیں کرتا ہے۔ چونکہ ہم قرآن کو اٹھا کر ہی نہیں دیکھتے تو اس پر تدبر کرنا اور غور کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ جس کا ہمیں حکم دیا گیاہے۔ اگر دنیا میں کسی قانون کی خلاف ورزی کریں تو فوراً سزا یا جرمانہ ہو جاتاہے؟ کیونکہ بغیر عمل کے کوئی نظام نہیں چلتا؟ ہمارے یہاں اللہ کے حدود کو توڑنا معمولی سمجھتے ہیں جب کے اس کے ساتھ ہی اس کو حاکم ِ اعلیٰ بھی مانتے یہ وہ تضاد ہے جو کہ ابھی تک بار بار تجربہ کرنے کے با وجود چلا آرہا ہے۔ اس میں ہمارے علماء بھی بعض اوقات صحیح رہنمائی کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں جیسا کہ تحریک پاکستان کے سلسلہ میں ہوا کہ وہ اس آیت کو نظر انداز کر گئے اور ابھی تک کیئے ہوئے ہیں۔ اس لیئے نہ پچھلی قوموں پر آئے ہوئے عذابوں سے کچھ سیکھا نہ اپنے بزرگوں کی،کی ہوئی غلطیوں سے۔اور جس ﷺ ہستی کو ہمارے لیئے نمونہ بتا یا گیا تھا اس ﷺ ان کا اتباع ہم ضروری نہیں سمجھتے اگر ضروری سمجھتے ہوتے جس کاکے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ “ اگر تمہیں کہیں سے رہنما ئی نہ ملے تو اللہ اور رسولﷺ سے رجوع کرو؟ با الفاظ دیگر رسول ﷺ کے اسوہ حسنہ میں تلاش کرو؟جب ہندوستان میں تحریک آزادی چل رہی تھی اگر اسوہ حسنہ ﷺ سے رہنمائی چا ہی ہوتی تو، نہ کوئی کشمیری گاندھی ہوتا، نہ سرحدی گاندھی ہو تا اور نہ ہی بلوچی گاندھی ہوتا اور نہ ہی ان کی اولاد کو آج شرمندہ ہونا پڑتا؟ وہ تو خدا کا شکر ادا کریں کہ اگر اللہ تعالیٰ 1905 میں مشرقی بنگال کو مغربی بنگال سے نہ الگ کراکر اور سندھ کو بمبئی میں شامل کرا کر نہ مسلمانوں کو یہ تجربہ کرادیتا کہ کیا ہوگا اگر ایسا ہوا؟ تو مسلمان تو اپنی کوئی جماعت بھی اسوقت تک نہیں بنا سکے تھے۔ یہ تھا وہ نظریہ ضرورت جوکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے تجربہ کروادیا؟ کہ ایسا ہوگا تو کیا ہوگا اور ویسا ہوگا تو کیا ہوگا۔ جس کا نتیجہ آج پاکستان کی شکل میں موجود ہے۔ یہاں اگر اس کلیہ پر بھی غور کرلیا جاتاکہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ “ جو کچھ کوئی کرتا ہے وہ اپنے لیئے کرتا ہے “ لہذا اللہ سبحانہ تعالیٰ کی باتوں پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ ہم میں اتحاد ہے نہ اخوت ہے اور نہ ہی ایثار ہے جوکہ اسلام کی پہچان ہے۔ اور ہم اس کے برعکس دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ ہمیں بچا لیں گے۔ جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اگر میں نہ چاہوں تو کوئی فائیدہ نہیں پہنچا سکتا اور میں نہ چاہوں تو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچا سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن سمجھنے کی تو فیق عطا فرما ئے۔(آمین)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized and tagged , . Bookmark the permalink.