دنیا کے دانشوروں سے درمندانہ اپیل۔۔۔شمس جیلانی

کبھی اسلام دین اخوت ہوا کرتاتھا کو ئی مسئلہ بھی ہوتا،تو سب مسلمان متحد نظر آتے تھے اور فوراً ایک دوسرے کی مدد کو دوڑ پڑتے تھے یہ سوچے بغیر کہ نتائج کیا ہونگے؟ وجہ یہ تھی کہ دین کو پوری ملت اسلامیہ ایک جسم سمجھتی تھی اور کسی کو کانٹا بھی چبھتا تھا تو پورا عالم اسلام درد محسوس کرتا تھا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ پہلے اس چھتے میں ہاتھ ڈالتے ہو ئے ہر کوئی گھبراتا تھا۔مگر اب ہر ایک اپنی دنیا میں مگن ہے ان میں مذہب سے بھی زیادہ طاقتور دولت بڑھانے کا بخار ہے اور سب یہ بھو لے ہوئے ہیں کہ انہیں ایک دن مرنا بھی ہے۔لہذا سب اس کے قائل ہوگئے ہیں کہ“ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست؛ (جس کا مفہوم یہ ہے کہ بابر!عیش کرلو کہ یہ دنیا دوبارہ نہیں ملے گی)بس یوں سمجھ لیجئے کہ اس ایک جملہ نے اسلام کی تمام تعلیمات کو دبارکھا ہے۔ جبکہ اسلام کا اصل عقیدہ اس کے قطعی برعکس ہے اور وہ ہے آخرت، احتساب اور روز محشر جی اٹھنے پر یقین رکھنا جوکہ ہر مسلمان کے لیئے لازمی ہے جس کی وجہہ سے بلند اخلاقی پیدا ہوتی ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ چاروں طرف دنیا میں آگ لگی ہو ئی ہے تمام مسلمان ملکوں میں تو ہے ہی ہے۔ کیونکہ اس کے پیچھے وہ تحریک تھی جنہوں نے اپنی نا سمجھی میں اس جن کو بوتل سے رہا کردیا تھا جو کہ خارجیت کی شکل میں پہلے ہی لاکھوں جانیں لے چکا تھااور کسی کے قابو میں سات سو سال تک نہیں آیا؟ جب تک اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس کو ختم کرنے کے لئے چنگیز خان جیسے ظالم اور جابر کو نہیں بھیجا اور اس کے بیٹے ہلاکو نے اس کو جڑ سے نہیں اکھاڑپھینکا۔ جبسے دنیا ،بلا خوف پھر جینے لگی۔ اس جن کو آزاد کرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ کچھ نادانوں کو یہ برا لگا کہ سلطنت عثما نیہ ہمیشہ ان ممالک کے گروہ کے ساتھ کیوں رہتی ہے جو نسل پرستی پر یقین رکھتے ہیں؟ لہذا طے پایا کہ اس کے تکڑے تکڑے کر دیئے جا ئیں۔ جبکہ وہ اس گروپ کے ساتھ اس لیئے رہتی تھی کہ وہ گروپ اس سے کبھی نہیں لڑا، دوسری طرف وہ ملک اور اس کے اتحادی ہمیشہ اس سے لڑتے رہے۔ اس مشن کو کامیاب کرنے کے لیئے ہر جگہ ایسے لوگ تیار کیئے گئے کہ ان میں جو اخوّت ہے وہ ختم کرنے میں معاون ثابت ہوں۔ تاکہ یہ آپس میں لڑنا شروع کردیں اس سلسلہ میں اسی ملک میں ایک یونیورسٹی جنگل میں قائم کی گئی جو کہ تربیت دیکر یورپین علاقے میں اپنے علماء بھیجتی رہی اور انکے ایجنٹ افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور عرب اور عجم میں پہنچتے رہے؟ اور اس طرح بہت سے مقامی علماء سلطنت عثمانیہ میں سے بھی تیار کیئے گئے۔ اور ان کے اس کام کو بڑا خوبصورت نام دیا گیا وہ یہ تھا کہ اسلام کو“بدعت“سے پاک کرکے ہمیں اصل اسلام لانا ہے۔ان کے علم میں یہ جن بھی تھا جو کہ چنگیز خان نے بوتل میں قید کردیا تھا اور ابھی تک قید چلا آرہا تھا۔ جس کا نظریہ تھا کہ صرف ہم ہی راہ راست پر ہیں باقی سب گمراہ ہیں؟ اس سوچ نے اسلامی اخوّت کودنیا سے دیس نکالا دیدیا، نتیجہ کے طور پر سلطنت عثمانیہ ختم ہوگئی اور ایک صدی تک یہ تحریک چلتی رہی نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان پہلے کی طرح تکڑیوں میں بٹ کر ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے اپنوں کے علاوہ غیروں میں سے بھی کچھ لپیٹ میں آگئے وہ بھی اس تحریک میں کام آئے۔ اس طرح اسلام بدنام ہوا جو کہ انتشار پسندوں کے فائدے میں تھا اور مسلم اکثر یت جوکہ امن پسند تھی وہ لاتعلق رہی۔ اب صورت ِ حال یہ ہے کہ دنیا کو اس سے تو دلچسپی ہے کہ جانوروں اور پرندوں کی نسلیں کہیں نا پید نہ ہو جائیں۔اس کے لیئے فنڈ بھی قائم ہیں آرگنا ئزیش بھی بنی ہوئی ہیں؟ مگر ان مظلوم انسانوں کے لیئے جوکہ کل آبادی کا پانچواں حصہ ہیں،دنیا کو ان کے ساتھ کوئی ہمدری نہیں ہے جوکہ خود کو مسلمان کہلاتے ہیں۔جبکہ اب عالم یہ ہے کہ اس تحریک محرک سب ملکر کمبل کو چھوڑنا بھی چا ہیں تو کمبل نہیں چھوڑ رہا ہے۔اور جنھیں انتشار پسند وں نے سلطنت عثمانیہ کی جگہ کبھی وارث بنایا تھاوہ بھی اپنی جگہ پریشان ہیں اور ان کا بھی یہ ہی عالم ہے کہ انہیں بھی کمبل نہیں چھوڑ رہا ہے۔ جبکہ دنیا کاعالم یہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ایک جرثومے کو بھی بھیجدے جیسا آجکل بھیجا ہوا تو سب ملکر اسے نہیں روک سکتے ہیں در اصل یہ اس کی نادیدہ فوج کا ایک ادنیٰ سپاہی ہے۔ کیونکہ اسے لڑنے کے لیئے جیسا کہ اس نے باربارقر آن میں فرمایا ہے کہ اسے فوج نہیں بھیجنا پڑتی ہے، وہ کبھی ابراہہ کی ہاتھیوں کی فوج کو ایک معمولی پرندے کے ہاتھوں اور وہ بھی صرف کنکریوں سے تباہ کردیتا ہے۔اور کبھی صرف ایک زبردست چیخ ہی کافی ہوتی ہے۔ جنکا قر آن اور دوسری آسمانی کتابوں میں بھی ذکر موجود ہے۔ جبکہ جو نہیں جانتے ہیں اور مسلمان کہلاتے ہیں، وہ اپنے علماء سے پو چھ لیں کہ کیا پہلے ہوتا رہا ہے اور جو اب ہورہا وہ کیوں ہو رہا ہے؟کیونکہ آج کے دور میں وہ سارے کام ہورہے ہیں جن میں سے کوئی ایک کرنے پر پہلے ہمیشہ عذاب آتا رہا ہے؟اب وہی سارے کام پوری دنیابلا امتیازِ مذہب وملت کر رہی اور اسے برا بھی نہیں سمجھتی ہے۔ ہر دانشور خود ہی سوچ لے کہ دنیا کس انجام کی طرف بڑھ رہی ہے؟
جبکہ دنیا کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ کشمیر میں دو سو سے زیادہ دن سے کر فیو لگا ہوا ہے۔ کسی کے کان پرجوں نہیں رینگی جبکہ وہ متنازع معاملہ ہے اور یو این او کے ایجنڈے پر ہے۔ ستر سال سے ہندوستان اور پاکستان دو نوں کے در میان کشیدگی کا باعث ہے۔ مودی حکومت ہندوستان میں جب سے آئی ہے روزانہ سیزفائر لا ئین کی خلاف ورزی کرتی رہتی ہے اور دونوں ممالک ایٹمی پاور بھی ہیں، کسی وقت بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے اور اس کے نتائج کیا ہو نگے اللہ ہی جانتا ہے۔ اکیلا پاکستان چلّا رہا چونکہ وہ خود ایک فریق ہے اس لیئے اس کی بات وہ اہمیت حاصل نہیں کرپارہی جو کہ اس مسئلے کے حل کے لیئے پیدا ہونا ضروری ہے۔ اسی انسانیت کی خاموشی کی وجہ سے اس کی ہمت اور بڑھی اور اس نے اپنی مسلم ریایا کی بھی نسل کشی شروع کردی؟ یہ ہی صورتِ حال دوسری جنگ عظیم سے پہلے بھی تھی۔ ایسا ہی ایک غیر موثر ادارہ اس وقت بھی موجود تھا جب یو این او کے بجا ئے دوسری بین الاقوامی آرگنا ئزیش موجود تھی، کیا اس نے جنگ اور اس سے پیدا ہونے والی انسانیت کی تباہی روک لی تھی؟ آپ سب کا جواب ہوگا کہ نہیں۔ تو آپ جانتے ہیں۔ کہ جب کوئی طوفان آتا ہے تو سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔جب آگ لگتی ہے تو گیلا سوکھا سب جل جا تا ہے۔ وقت کا تقاضہ یہ ہی کہ کم ازکم دانشوروں کو اس طوفان کو انسانیت کی بقا کے لیئے روکنا چا ہیئے۔ انہیں تو خاموش رہنا اس حالت میں زیب نہیں دیتا۔ آنے والی نسلیں انہیں کبھی معاف نہیں کریں گی، اگر وہ خاموش رہے۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.