بہت سے لوگ آج اس بات سے واقف بھی نہیں ہونگے کہ دہلی جب دارالحکومت تھا اسی کے اطراف میں ایک قبیلہ آباد تھا جس کا عرف عام میں مشہور نام میوتھا اور وہ سارا علاقہ میوات کہلا تا تھا جہاں وہ لوگ قیام پذیر تھے۔ اور تعداد بھی لاکھوں میں تھی اور وہ اتنا طاقتور تھا کہ جب چاہتا تھا دہلی پر قبضہ کر لیتا تھا۔ وہ کہلاتے تو مسلمان تھے مگر ان کی اکثریت کلمہ تک نہیں جانتی تھی ان کا عقیدہ یہ تھا کہ کچھ کرو یا نہ کرو سال میں گا ئے کا گوشت ایک مرتبہ پکا کر کھالو اس سے ایمان تا زہ ہو جا تا ہے؟اللہ سبحانہ تعالیٰ جس سے جو چا ہے کام لے کہ کسی طرح حضرت مولانا الیاس کاندھیلوی ؒ، مظفر نگر سے وہاں تشریف لے آئے اور ان کو عملی مسلمان بنا نے کی کوشش شروع کردی۔وہ صبح کو راستے پر جا کر کھڑے ہو جاتے اور ان میں سے جو مزدوری کے لیئے جاتے نظر آتے ان سے پوچھتے کہ تم کہاں جارہے ہو؟تو وہ جواب دیتے کہ مزدوری کی تلاش میں، وہ فرماتے آج کی مزدوری جو ہو گی وہ میں دے دونگا تم کام کرنے کے بجا ئے نماز پڑھو! وہ اسی طرح انہیں مسلمان بنا تے رہے اور اچھی خاصی تعداد میں وہ مسلمان بنا نے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ وہ دور تھا کہ 1857ء میں مسلمان جنگ آزادی ہار چکے تھے۔ شروع میں انگریز انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے اور نگرانی بھی کرتے رہے چونکہ ان کا انداز سب سے الگ تھا کہ وہ جہاد کی بات با لکل نہیں کرتے تھے,جس سے انگریز ہمیشہ سے الرجک تھے؟ لہذا وہ ان کی راہ میں مزاحم نہیں ہوئے۔ اس طرح ایک چھوٹی سی جماعت کو پورے ہندوستان میں وہ مقبول بنا نے میں کامیاب ہوگئے اور بعد میں ان کے نائبین نے اسے بین الاقوامی جماعت کی شکل دیدی۔ اور وہ بھی خود کفیل کہ زادِ راہ بھی اپنا خرچ کرے اور مسلمانوں کو اسلام سے روشناس کرا ئے جس کی اس وقت سخت ضرورت تھی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی؟ کیونکہ مسلمانوں میں یہ سلسلہ شروع سے ہی جاری تھا کہ ایک فرد کہیں سے اچانک نمودار ہوتا جوکہ عملی مسلمان ہوتا اور اپنے کردار سے لوگوں میں کشش کا باعث بن جاتا؟ جب خلافت راشدہ کے بعد خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو گئی تو حکمراں انہیں بھی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے اور ان کی مقبولیت سے خائف رہنے لگے؟ کیونکہ یہ اس کے قائل تھے کہ؟“ تبلیغ اس طرح کرو کہ خود دوسروں سے الگ نظر آؤ،دوسری خصوصیت ان کی یہ تھی کہ محبت سب سے، نفرت کسی سے نہیں“اس لیئے وہ جہاں بھی جاتے قیام پذیر ہوتے ہی بہت جلد مقبولیت حاصل کر لیتے اور باد شاہوں کو چونکہ ان کی مقبولیت ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی وہ انہیں بھی اپنے اقتدار کے لیئے خطرہ سمجھتے تھے۔حالانکہ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہیں حضور ﷺ نے اپنی عترت کے طور پر پہلے ہی روشناس کروادیا تھا اور ان میں دوسرے وہ صحابہ کرامؓ کثرت سے تھے۔ جوکہ حضور ﷺ کے آخری خطبہ حج لوداع کے موقعہ پر حکم کی تعمیل میں اس راہ پر عامل ہوگئے تھے۔ اور یہ حکم انہوں نے خود سنا تھاکہ“تم ان کو میرا یہ پیغام پہنچا دینا جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ پھر وہ انکو پہنچا دیں جو میرے بعد آئیں گے اور بعد میں آنے والے دوسروں کو پہنچا دیں“یہ ایسا لا منتا ہی سلسلہ تھا جو دنیا بھر میں سب سے پہلے پھیلا اور ان میں زیادہ تر صحابہ کرامؓ تھے۔ چونکہ وہ حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ پر قائم تھے لہذاحضور ﷺ کی طرح دنیا دار بھی تھے، متقی اور پر ہیز گار بھی، وہ خود کو مسلمان کہتے ہوئے شرماتے نہیں تھے،اسلام ان کا اوڑھنا بچونا تھا۔ لیکن جیسا کہ اوپر ہم بیان کر چکے ہیں کہ خلا فت جب ملوکیت میں تبد یل ہو گئی تو ان کے وار ثوں نے تبلیغ توجاری رکھی کہ حکم تھا، مگر وہ ٹکرا ؤ سے بچنے کے لیئے سیاست سے لا تعلق ہو گئے تاکہ ان کے شر سے بچ سکیں۔ اس لیئے کہ انہیں اپنی بقا ء کے لئے یہ ہی ایک صورت نظر آئی۔اور بعد میں اس وجہ سے ولایت وراثت میں تبدیل ہو گئی۔ چونکہ اب انکے جانشینوں کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا تو وہ نذرانوں پر نظر رکھنے لگے اور ایک ایک گدی میں مریدوں کی تعداد لاکھوں تک چلی گئی، مگر ان کاجو اصل کام تھا وہ قطعی بھول گئے۔ ظاہر تھا کہ ایک آدمی لاکھوں مریدوں کو تجزیہ نفس کیسے کرا سکتا تھا۔ جوکہ پہلے حضور ﷺ کی ذمہ داری تھی اور بعد میں کوئی نبی ؑ نہیں آنا تھا لہذا اللہ سبحانہ تعالیٰ کے حکم کے ذریعہ کہ“تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونا چاہیئے جو لوگوں کو اچھی باتوں کی تلقین کرے اور برے کاموں سے روکے(آل عمران 104) جبکہ اس کے علاوہ تبلیغ عامہ کی ذمہ داری ہر مسلمان کو سونپی گئی،جس پر بہت سی آیتیں ہیں (سب سے جامع اور مختصر سورۃ العصر کی آیت نمبر 3ملاحظہ فرمالیجئے)۔ بعد میں انکے وارث بھی سیاست میں آگئے اور اپنی اہمیت کھو بیٹھے؟ یہ ہے وہ مختصر سی کہانی جو اگر آپ سمجھ لیں، تو میری بات سمجھنے میں آپ کو آسانی ہو گی جو میں آپ کو سمجھانا چا ہتا ہوں؟کہ ایک مخلص مسلمان نے اتنی بڑی جماعت بغیر کسی با قاعدہ تنظیم کے دنیا کو عطا کر دی اور وہ لوگ جن کا کام کچھ اور تھا انہیں ایک نیک کام پر لگا دیا اور یہ تحریک ایک قبائلی دائرے سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئی۔ جبکہ تقسیم ہند کے بعد اب وہ قبیلہ وہاں تلاش کرنے کے با وجود نہیں ملتا ہے۔جو بچا تھا وہ 1947 ء کے فسادات کے نذرہو گیا۔ اور بعد میں پاکستان میں جاکر گم ہو گیا۔ میں آپکو یہ سمجھانا چا ہتا ہوں کہ ایک فرد واحد اور مخلص انسان کی کوشش سے کیا نتا ئج مرتب ہو ئے کہ وہ تحریک پوری دنیا میں پھیل گئی۔ اور وہی تحریک آج کے دور میں حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ سے رہنمائی نہ لینے کی وجہ سے اورقر آن کے ایک حکم پر عمل نہ کر نے کی بنا پر دنیا کی نظروں میں آگئی کہ آج اس کا اپنا ہیڈ کوارٹر جوبستی نظام الدین اولیا ء (دہلی) میں ہے خطرے میں پڑگیا ہے۔ اگر حکم کے مطابق وہ اللہ اور رسول ﷺ طرف رجوع کرتے تو وہاں سے رہنمائی مل جاتی کہ وبائی صورت حال میں انہوں ﷺ نے کیا ہدایات امت کو عطا فر مائیں تھیں اور بارش میں وہ نماز کے سلسلہ میں کیا طریقہ کار اختیار فرماتے تھے۔ دوسرے سب جگہ آزادی کے بعد مسلمان یہ سبق بھی بھول گئے کہ حضو ر ﷺ کی پہلی مسجد مدینہ منورہ میں جو بنا ئی گئی تھی اس کی قیمت ادا کیئے بغیر اہلِ مدینہ کی پیش کش کے با وجود حضورﷺ نے بلا قیمت زمین قبول نہیں فرمائی کیونکہ وہ مثال بن جاتی۔ جبکہ انڈو پاکستان میں سب جگہ ایک ہی طریقہ کار قبضہ گروپ نے اختیارکیا کہ پہلے مسجد بنا ؤ اور پھر اس سے ملحقہ زمین پر قبضہ کرلو یہ مت پوچھو کہ مالک کون ہے اور انہوں نے قبرستان تک نہیں چھوڑے؟ یہاں بھی وجہ یہ ہی حال ہے کہ اس زمین پر مسجد اور مدرسہ بنا نے کے لیئے قانونی تقاضے پورے نہیں کیئے گئے اور پہلے دو منزلیں وہاں بنیں، اس کے بعد اسے سات منزلہ بنا لیا گیا؟ جبکہ وہاں کی شدت پسند حکومت کو یہ جماعت پہلے ہی کھٹک رہی ہوگی اور قیادت کو پہلے ہی محتاط رہنا تھا بجا ئے ضد کرنے کہ۔ اب اس کو منہدم کرنے کہ احکامات حکومتِ وقت سے جاری ہو چکے ہیں۔ آگے کیا ہوگا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ کیونکہ یہ نتیجہ ہے حضوﷺ کی اتباع نہ کرنیکا؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے