حکمرانوں کو کبھی دین راس نہیں آیا۔۔۔۔ شمس جیلانی

اگر آپ پاکستان کی تاریخ کو دیکھیں تو آپ کو یہ ہر قدم پر واضح ہو تا جا ئے گا کہ“ الف“ سے لیکر“ ی“تک جتنے بھی رہنما آئے جب بھی اس مقصد کی طرف آگے بڑھے جس کے لیئے بر صغیر کے مسلمانوں نے ایک زمین کا تکڑا مانگا تھااور وہ انہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ترس کھا کر عطا فر مادیا تھا۔ جبکہ وہ مسلسل نا فرمانیوں کے باوجوداس ملک پر رحمتوں کی بارش پر بارش کرتا رہا۔ مگر ہمیشہ ہوا یہ کہ رہنما یا تو وہ مقاصد سامنے لانے کے ارادے سے دستبردار ہوگئے اور کسی نے اپنی جرات مردانہ جاری رکھی تو دنیا کی تمام طاغوتی طاقتیں اس کے آڑے آئیں اور ہمیشہ کی طرح یہ مسئلہ التوا میں چلا گیا؟ یا پھر حکمرانِ وقت کو جانا پڑا۔ حالانکہ ابتک جو بھی آیا وہ یہ ہی نعرہ لگا کر آیا کہ میں آکر اسلام کی نشاۃ ِ ثانیہ کے لیئے کام کرونگا، مگر کر کوئی بھی نہیں کر سکا۔ چونکہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا قوم بھی ان طفل تسلیوں سے کب تک بہلتی جبکہ کہ وہ دیکھ کچھ رہے تھے اور ہو کچھ رہا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی بہتی گنگا میں غوطے لگانے لگے؟ اور وہ قوم جو اپنے کردار میں 27 رمضان المبارک (14 اگست 1947) کو اپنی انتہائی بلندی پر تھی آہستہ،آہستہ نچلی سیڑھی کی طرف جا تی گئی۔ پھر یہ ہوا کہ ملک کو قحط الرجال نے آلیا؟ اور ہر مرتبہ کی طرح نئے نعرے کی ضرورت پڑی تو قر عہ فال ” مدینے جیسی ریاست بنا نے کے نام پر نکلا” جوکہ مدینہ جیسی انتظامی مشینری یعنی صحابہ کرام ؓ جیسے انسانوں کے بغیر بنانا ناممکن تھا۔اس مرتبہ بھی ہمیشہ کی طرح آنے والے حکمراں پہلی دفعہ تو پا پیادہ ہوائی اڈے سے لیکر حضور ﷺ کے روضہ مبارک تک پیدل اور ننگے پا ؤں چل کر گئے۔ مگر دوبارہ وہ نوبت پھر کبھی نہیں آئی۔ کیونکہ وہاں والے خود اُن دنوں الٹی گنتی گنتے دیکھے۔ تواس سے انکی ہمت شکنی ہوئی کہ اس انقلابی دور میں انہیں کون اس راہ پر چلنے دیگا؟ لہذا نہوں نے بھی رجعت قہقری اختیار کرلی یعنی جس طرح بہت سے عقیدت مند احتراماً مقدس مقامات سے الٹے پیروں اند ر سے واپس آتے ہیں وہی راہ انہوں بھی اپنالی۔ ہا ئے رے انسان کی مجبوریاں؟
اسی دوران یہ کرونا وائرس کا عذاب دنیا کو لاحق ہوگیا۔ انہوں نے بھی بجا ئے ریاست مدینہ کے حکمرانوں جیسا رویہ اختیار کرنے کہ بہت ہی فخر سے جو نعرہ اپنایا وہ وہی تھا جو جو دنیا کی واحد سپر پاور کا نعرہ تھا۔ کہ“ کرونا سے ڈرنا نہیں بلکہ لڑنا ہے“ حالانکہ مدنی ریاست کے کسی حکمراں نے ایسا رویہ کبھی اختیار نہیں فرمایا کیونکہ ان میں ہر ایک بہت زیادہ اللہ سے ڈرنے والا تھا اور اتنے متقی ہونے کا با وجود سر جھکا کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ ایک واقعہ اس سلسلہ میں حضرت عمرؓ کے دور میں پیش آیا کہ اس سال مدینہ منورہ میں بارش نہیں ہوئی۔ تو انہوں نے صلاۃ الاستسقا ء کے اعلان کاحکم دیا۔ ابھی نماز پڑھ کر اور دعا مانگ کر وہ فارغ نہیں ہوئے تھے کہ بادل آگئے اور برسنے لگے اور چاروں طرف جل تھل ہوگیا۔ سب نے چین کا سانس لیااور اپنے اپنے باغات کا رخ کیا۔ یہ دراصل ہمارے لیئے سبق تھا کہ جب بھی ایسا کوئی وقت آئے تو تم بھی یہ ہی کرنا؟ بجا ئے یہ کہنے کہ“ ہم خشک سالی کے عذاب سے لڑیں گے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قرآن میں فر مان یہ ہے کہ“ میں کسی متکبر اور اترانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن پہلے پاکستان میں جو متاثرین کی تعداد انتیس تھی وہ بڑھ کر سیکڑوں میں چلی گئی۔ نہ بڑا بول بولتے نہ وہ پردہ اٹھا تا، جو بھی جس سے کوتاہی ہوئی تھی وہ ہمیشہ کی طرح پردہ پوشی کرتا ہے۔مگر کرتے کیسے نہیں؟نہ کرتے تو دنیا میں دقیانوسی خیالات کے حامل سمجھے جاتے۔ جبکہ یہ وائرس بھی عجیب ہے کہ جو ملک جتنے زیادہ ترقی یافتہ تھے ان کو اسی حساب سے اپنی میزبانی کی زحمت دے رہا ہے۔ حالانکہ اس طرف کنیڈا ہے جو بہت کم متاثر ہوا اور دوسری طرف امریکہ ہے۔ لیکن دونوں کے کلچر میں بہت فرق ہے جسے یہ ملک پڑوسی ہونے کہ با وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔؟ یہ اپنی راہ پر ہے وہ اپنی راہ پر ہے۔ دوسرا ملک جو ابھی تک بالکل متاثر نہیں ہوا وہ چین کا وہ جزیرہ ہے جو پہلے چین کا کبھی حصہ ہوتا تھا اور اب تائیوان کہلاتا ہے۔ کیونکہ وہ پہلے سے ایک دفعہ کا ڈرا ہوا تھا۔ اس لیئے اس کے انتظامات بہت اچھے تھے۔ ہم بھی جانے کہاں سے کہاں نکل جا تے ہیں۔
بات کہاں سے چلی تھی اور پہنچ گئے کہیں اور؟ چلیئے وہیں چلتے ہیں اور آپ کو بھی لیئے چلتے ہیں۔ حضورﷺ نے فرما یا کہ ً اللہ کی راہ میں چلتے ہو ئے کسی کی ملامت سے مت ڈرو۔ مگر اس راہ میں بندے کو آسانی پیدا کر نے کے لیئے یہ راز بھی بتا دیا ہے کہ یہ وہی کر سکتا جو سوائے اللہ کے کسی سے نہ ڈرے؟ مگر اب یہ رواج ہی الٹ گیا ہے کہ مسلمان سب سے ڈرتے ہیں، سوائے اللہ سے ڈرنے کہ؟ ہم کان لگا کرٹی وی پر خبریں سنتے سنتے تھک گئے کہ شاید کو ئی“اللہ“ کا بھی ذکر ے؟ بڑی مشکل سے ہم اس میں کامیاب ہو سکے کہ پاکستان کے ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ نے اپنی تقریر کے آخر میں تمام تدابیر کے ساتھ ساتھ چند جملے یہ بھی ارشاد فرمائے کہ“نمازیں پڑھو اللہ سے دعا کرو کہ اللہ بلا کو ٹالدے“ لیکن شام میں جب یہ خبر دہرا ئی گئی تو ان کے بیان سے یہ جملے غائب تھے۔ ایسا کیوں ہوا، ہم تو نہیں سمجھ سکے؟ شاید کوئی دانشور ہمیں سمجھا دے تو ہم اس کے انتہا ئی شکر گزار ہونگے؟ آگے کیا ہوگا وہ ہم بھی انتظار کرتے ہیں آپ بھی انتظار فرما ئیں۔ کیونکہ ہر ایک کو اپنے کیئے کی سزا بھگتنا ہے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.