کون سنتا ہے وہاں بات اک سودائی کی۔۔۔ شمس جیلانی

مومنیں اور مومنات عید مبارک۔ ہم نے اپنے گزشتہ مضمون میں یہ بتا یا تھا کہ اللہ اپنے بندوں کو عید الفطر پر کیسا دیکھنا چاہتا ہے۔ مگراس میں ہم ایک ایسے زیاں کا احساس دلانا چا ہتے ہیں کہ ہم صدیوں سے یہ نقصان اٹھاتے چلے آر ہے ہیں مگر ہمیں اس کا احساس تک بھی نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے ہماری حالت یہ ہے کہ ہم برا ئیوں کو چھوڑنا تو چا ہتے ہیں مگر ماحول ہمیں نہیں چھوڑ نے دیتاہے۔ اور یہ تذ بذ ب کیسے فروغ پایا ہے۔ وہ میں آج کے مضمون میں پیش کررہا ہوں؟
صدیاں گزر گئیں اس مسئلہ پر ہمیں گمراہ ہوتے ہو ئے کہ دین کا دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے دنیا الگ ہے دین الگ ہے مگر ہم نہ گمراہ کرنے والوں کو پہچان سکے نہ ہی اس کا تدارک کر سکے؟ حالانکہ اس کے بارے میں ایک نہیں تین قر آنی آیتیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن میں نازل کرکے ہمیں پہلے ہی خبر دار کر دیا تھا اور وہ ہیں النسا ء کی آیت نمبر144, سورہ المائدہ کی51 اور آل عمران کی 28 جنکا مفہوم یہ کہ“ اہل ِ کتاب آپس میں ایک دوسرے کہ جگری دوست ہیں یہ تمہارے دوست جبھی بن سکتے ہیں کہ تمہیں بھی وہ اپنا جیسا بنا لیں البتہ رواداری کی بات دوسری ہے“ اس کے علاوہ کچھ بزرگ بھی ہمارے لئے عربی فا رسی اور اردو میں کافی سرمایہ چھوڑ گئے ہیں اس میں بھی یہ مقولہ شامل ہے کہ“ کند ہم جنس با ہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر باز باز“ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک ہی قسم کہ پرندے ایک ساتھ پرواز کر سکتے ہیں قسم قسم کے پرندے نہیں، کیونکہ کوئی تو تیز رفتار ہوتاہے کوئی سست، کوئی فضا کی انتہائی بلندیوں پر اڑنے والا ہے تو کوئی بہت ہی نیچی پرواز کا حامل ہے۔ لیکن ہم نے ان تمام با توں کو نظر انداز کرتے ہو ئے وہ عمل جا ری رکھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اغیار کو موقع ملااور ہماری نئی نسلوں کو پرائمری سے لیکر یوینورسٹی تک وہ یہ ہی سبق پڑھا تے رہے کہ“ دین الگ ہے اور دنیا ا لگ ہے اور اب ہماری آنے والی نسلوں کا یہ عقیدہ ایمان بن چکا ہے اور ہر زبان پر یہ جاری ہے اور ذہنوں پر چھا یاہوا ہے اور یہ جملہ ان سے عام طور پر سننے کو ملنے لگا ہے کہ (i am not religious person)کہ میں مذہبی آدمی نہیں ہو؟ جو کہ اسلامی تعلیمات کا الٹ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسلام کے سوا باقی کے یہاں تو یہ تفریق ہے مگر اس کے بر عکس اسلامی تعلیمات میں مذہب انجن کی حیثیت رکھتا ہے؟ جو نظریہ حیات ہمیں اسلام عطا کرتا ہے اس میں ہر معاملہ میں ہمارا دین ہی تمام معاملات کو کنٹرول کرتا ہے۔ اور ہمیں یہاں تک بتاتا گیا ہے کہ پانی کیسے پینا ہے، کھانا کیسے کھانا ہے،لیٹنا کیسے ہے اٹھنا اور بیٹھانا کیسے ہے،ہماری خارجہ پالیسی کیا ہو گی، حالت ِ جنگ میں کیا ہوگی، اورحالت امن کیا ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ پوری تاریخ دیکھ جا ئیے کہ خلفائے راشدؓ اور حضرت عمر ؒبن عبد العزیز کے دور کے سوا کبھی کسی مسلم حکمراں کو اسلام پسند نہیں آیاکیونکہ اسلام انہیں مادر پدر آزاد ہونے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ حالانکہ پہلے دن سے یہ ہی صورت حال تھی کہ سب کچھ دین کے تحت چلا آرہا تھا مثلا ً حضرت آدم ؑ نبی بھی تھی اور حکمراں بھی تھے۔ لازمی طور پر ماننا پڑیگا کہ جتنے بھی الہامی مذاہب آئے وہ شروع میں ایک ہی تھے یعنی توحید پر ہی قائم تھے وقت کے ساتھ ان میں شرک شامل ہو تاگیا۔ جو کہ حکمراں،اور علماء اور مشائخ نے ادیان میں ترمیم کرکے اسے اپنے مفادات کے تحت بنا یا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پرانے مذاہب میں کوئی بھی آج اپنی اصلی حالت میں باقی نہیں ہے۔ ہمارے یہاں بھی اسی طبقے نے دین میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کی مگر وہ نا کام اس لیئے ہوئے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہماری کتاب کی حفاظت کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے قر آن میں یہ فرما کر کہ“ یہ کتاب میں نے نازل کی ہے اور میں ہی اس کا محافظ ہوں“ کیونکہ دنیا کے آخری نبی ﷺ کے آنے پر دین مکمل ہو گیا تھا ہے اب اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہی نہیں رہی تھی البتہ روز مرہ کے کام چلانے کے لئے اسوہ حسنہ ﷺ کی پیر وی کرتے ہوئے نئے ضابطے بنا نے ک اجازت ہے؟ اس سے پہلے کیونکہ دنیا ہر میدان میں تعمیری مرا حل سے گزر رہی تھی، اس لئے پہلے آنے والے کسی نبی ؑ نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ دین مکمل ہوگیا ہے۔ اس لئے کہ معاشرہ ابھی تک تعمیری مرا حل میں تھا۔ ایسا دعویٰ کیا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ یہ تھے وہ حقائق جس سے اسلام بھی دوچار ہو ا؟ اور حکمرانوں نے اپنے لیئے راہ نکا لنا چا ہی جس پر بہت سے اللہ والوں نے سخت مخالفت کی اور اپنی جانیں بھی قربان کیں اور دین کی راہ بھی دکھا ئی مگر ہوس زر اتنی طاقتور ہوچکی تھی کہ ان کے اپنے تک بک گئے یا ان کے خلاف چلنے کے لئیے مجبور ہوگئے۔ مگر جیسے اور لوگ ہمیشہ کے لیئے خاموش ہو گئے یہ اس طرح خاموش نہیں ہو ئے اور اسلامی نظام کا مطالبہ کرتے رہے؟ نتیجہ یہ ہوا کہ جو بھی آیا وہ یہ ہی نعرہ لگا تا آیا کہ میں اسلامی نظام لا ؤنگا، لیکن کوئی ایسا کر نہیں سکا؟ جبکہ اسلام میں اس کا توڑ قناعت وصبر تھا۔ ان کی تعداد گھٹتے گھٹتے اب صفر کے قریب پہنچ چکی ہے اللہ کے بندے موجود ہیں دین پر عامل بھی ہیں جن کی وجہ سے عذاب اس طرح سے نہیں آیا جس طرح سابقہ قوموں پر، مگر جو با عمل ہیں ان کے لیئے زندگی گزارنا بہت مشکل ہے۔ اس گروہ کے سب سے بڑے عامل حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ اچھے لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی کیا اللہ کا عذاب آ سکتا ہے تو حضور ﷺ نےفرمایا ہاں! اگر برا ئیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو وہ سرزنش کے لیئے عذاب بھیج سکتا ہے۔ اب ہم اسی صورت ِحال سے گزر رہے ہیں ایک مصیبت جا تی نہیں ہے کہ دوسری آجاتی ہے۔ برا ئیوں کو مسلمان چھوڑ نا چا ہتے ہیں اور یہ جذبہ بار بار عود بھی کر آتا ہے۔ مگر اب تک کی تاریخ یہ ہے دھوکے پر دھوکا کھا ر ہے ہیں۔ کیونکہ خلوص نام کی کوئی چیز اب مسلمانوں میں باقی نہیں ہے اور اس“ کارونا“ نے وہ کام کیا ہے جو کبھی دنیا کی تاریخ میں نہیں ہوا۔ کہ قیامت جیسی نفسا نفسی کا پورا نمونہ ہمارے سامنے موجودہے۔اپنے اپنو ں سے ملنے کے روا دار نہیں رہے ایک معمولی جرثومے کو بھیج کر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بڑے بڑے فنے خان بننے والوں کی قلعی کھول دی۔ اب سب کہہ رہے ہیں کہ اس کے بعد جو لہر آئیگی، وہ نئی دنیا ہوگی۔ کیونکہ اسوقت تمام گروہ بندیا ں فیل ہو چکی ہیں جو جتھے بنے تھے کیونکہ سب اپنی افادیت کھوبیٹھے ہیں۔ اس کا کوئی حل کسی کو ئی دکھا ئی نہیں دے رہا ہے۔ مسلمانوں کے پاس صرف اور صرف ایک حل ہے کہ سب ملکر اجتمائی تو بہ کرلیں؟ تو شاید اسے رحم آجا ئے اور وہی صرف اس پر قادر ہے کہ اس غیر یقینی صورت ِ حال کو یقین سے بد ل دے۔ اس کے لئے یہ عید بہترین موقع ہے۔ اگر یہ بھی کھودیا جس کی ہماری افتداد طبع کے مطابق ہمیں امید ِقوی ہے۔ پھر تو دنیا کااللہ ہی حافظ ہے۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.