یہ تو آپ سب ہی جانتے ہیں کہ ماہ رمضان ا لمبارک تزکیہ نفس کا مہینہ ہے۔ جس کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے خود اپنا مہینہ فرمایا ہے۔ اور توہم سب ہی جانتے ہیں کہ کوئی حکومت کسی دن یا مہینے کوجب کسی کام کیلئے مخصوص کرتی ہے تو اسے اپنی رعیت کو یاتو کچھ دینا مقصود ہو تا ہے ،نوازنا مقصود ہو تا تاکہ وہ خوش ہو جا ئے یا پھر اس دن،مہینے اور سال کی اہمیت کا احساس دلانا مقصود ہوتا ہے۔ اسی پر قیاس کر لیجئے کہ جب ب شہنشا ہوں کاشہنشاہ کوئی دن منا رہا ہو اور“ رب اسے یوم اجرت “ قرار دے تو وہ کیاکچھ نہیں عطا فر مائے گا! وہ بھی وہ جس کے خزانوں میں سے دن ورات بانٹنے کے با وجود نہ کبھی کمی واقع ہو ئی، نہ آئندہ ہوگی نہ اس کاامکان ہے کیونکہ اس کے صرف ارادہ کرنے سے سونےاور جواہرات کے پہاڑ بن سکتے ہیں۔ البتہ بندے کو یہ نہیں معلوم ہے کہ وہ آئندہ سال اس سے فا ئیدہ اٹھانے کے لیئے دنیا میں مو جود ہوگایا نہیں۔ تو عقلمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے ہر لمحہ کو آخری لمحہ اور ہر ایک دن کو آخری دن اور اس رمضان کو آخری رمضان المبارک سمجھنا چا ہیئے، نماز کو آخری نماز اور ہر سجدے کو آخری سجدہ سمجھنا چا ہیئے اگر وہ مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو۔ اور اس کوخود کو اس طرح بنا نا چا ہیئے کہ عید والے دن انعام لینے پہنچے تو وہ ہر طرح کے نیک اعمال سے مالا مال ہو تا کہ عید کے دن یا یوم جزا میں مایوسی نہ ہو؟
پھر وہ ضرور اس ماہ کے ہر لمحہ اور تین عشروں میں تقسیم سے پوراپورا فا ئدہ اٹھائے گا جن کے نام اوردعا ئیں تک الگ ہیں۔ چونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کوئی کام حکمت سے خالی نہیں کرتا اس نے تین عشروں میں جوتقسیم فرما یا ہے غور کریں تو اس کی وجہ سمجھ میں آجا ئے گی! اور اسی حساب سے بندہ عمل کرے گا مختصراً آپ یوں سمجھ لیجئے کہ پہلے عشرے میں بندہ کو اس کی رحمت سے مستفیض ہو نا ہے ،پھر مغفرت حاصل کرنا ہے اور آخری عشرہ عشرہ نجات ہے (جہنم سے)۔ اب جب بندہ عید کو رب کے سامنے پہنچے گا تو وہ تزکیہ نفس میں ڈاکٹریٹ کرچکا ہوگا صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اپنے دربارمیں بلاکر صرف ڈگری عطا کرنا ہوگی؟ کہ جب وہ حضرت عباسؓ والی طویل حدیث جوکہ شب عیدالفطر سے لیکر نماز عید تک محیط ہے کے مطابق فرشتوں سے پوچھے گا کہ اس مزدور کیا اجرت ہے جو اپنا کام پورا کرے؟ یہ ان کا جواب یہ ہوگاوہ عرض کریں گے کہ “ اے ہمارے معبود اے ہمارے آقا! اس مزدور کو پوری پوری اجرت دی جا ئے“۔ پھررب جلیل ارشاد فرماتا ہے “ میرے فرشتو! میں تم کو گواہ بناتا ہوں میں نے ان کے روزوں، نماز اور شب کا اجر خوشنودی اور گناہوں کی مغفرت بنا دیا “ یہ سن کر بندے خوش ہو جا ئیں گے۔ پھر بندوں سے فر ما ئے گا کہ“ مانگو آج جو کچھ بھی مانگنا ہے میں آخرت تو دونگا ہی دنیا پر بھی غور کرونگا“ کیونکہ وہ ذاتی طور پر جانتا ہے کہ کون بندہ سارے مراحل طے کر کے آیا ہے اور کون سا نہیں آیا۔۔ اسی لیئے روزے کا ثواب اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ رکھا ہے یہ صرف بندے یا اللہ کے علم میں ہی ہے کہ بندہ نے کیا کیا ہے اور اس نے اسی حدیث میں اپنے بندوں کی عیب پوشی کا بھی وعدہ کیا ہو ا ہے اور بھی بہت کچھ ہے؟ جبکہ ان میں اکثریت پہلے مرحلے میں فیل ہو چکی ہوگی۔ کیونکہ عشرہ رحمت میں داخل ہونے کی شرط ایمان کامل اوروہ بھی خلوص کے ساتھ ہے، پھر سچ بولنا ہے حلال کھانا اور بہت کچھ ہے وہ حدیث اور قر آن میں پڑھ لیجئے۔ یہ بھی ایک حدیث ہے جو میں نے ابھی آپکے سامنے بیان کی اب دوسری حدیث سن لیجئے وہ اس طرح ہے کہ ایک دن حضورﷺ نے تین مرتبہ فرمایا آمین؟ صحابہ کرامؓ نے پو چھا کہ کس بات پرآپﷺ آمین فرما رہے تو فرمایا کہ “ یہ جبریل ؑ تھے۔ انہوں نے کہا کہ “ کہیں آپکاﷺ نام آیا اس نے درود نہیں پڑھی تو تو وہ ہلاک ہوا ! میں نے کہا آمین۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ جس شخص کووالدین میں سے دونو ں یا ایک ملا اور اس نے ان سے مغفرت نہیں کرالی وہ ہلاک ہوا میںﷺ نے کہا، آمین۔ پھر فرمایاجس نے رمضان کا آخری عشرہ پایا اور جہنم سے نجات نہیں حاصل کی وہ ہلاک ہوا! میںﷺ نے کہا آمین۔ اب غور کریں کہ ان میں سے کسی نے یہ موقع گنوادیا تو اس نے کتنا بڑا اپنا نقصان کیا۔ اور جس نے تینو ں مواقع گنوادیئے تو اس کے پاس کیا بچا، کیونکہ کسی کی ہلاکت پر آمین کہنا وہ بھی حضور ﷺ کا تو پھر شفیع محشر کے سامنے ایسے گنا ہ گار جا ئیں گے کیا منہ لیکر؟ میرا مشورہ ہے کہ جس کسی نے یہ موقع بھی کھودیا ہے تو ابھی بھی وقت ہے کہ وہ توبے کر لے ورنہ روز محشر وہاں اس کے کام کون آئے گا۔ آجکل ایک فیشن نکل آیا ہے لوگ یہ کہہ کر اس تنبیہ کو بھی سر جھٹک کر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بقول ان کے “ ساری حدیثوں تو مستند نہیں ہوتی ہیں۔“ان سے قرآن کی بات کرو تو آیات متشابہات کو درمیان میں لے آتے ہیں اور اپنی کم علمی کی وجہ سے اپنی مرضی کے معنی خود پہنا لیتے ہیں جن کے معنی سوائے اللہ سبحانہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں معلوم ہیں۔ اگر یہ ہی ہمارے لیل نہار رہے اور ہم اپنی مرضی کے وہ معنی نکالتے رہے جو کہ کچھ نام و نہاد اسکالر نے بیان فرما دیئے ہیں تو وہاں ایسے بندوں کا مددگار کون ہوگا؟ کیونکہ وہ صاحب خود کہیں اور ہونگے وہ ان کو کہیں ڈھونڈے نہیں مل رہے ہونگے گے۔ اس نقشہ کو اگر دیکھنا ہے تو حضرت علی ؓ کے اس مکالمے سے سبق حاصل کریں۔ کہ “کسی نے پوچھا کہ آخرت اور اس متعلقہ چیزیں اس دن نہ ہوئیں تو کیا ہوگا؟ ان کا جواب تھا کہ اگر ہوئیں تو تو پھر کیا کریگا؟ یہ کہنے والے کا سوال تو جاہلانہ کا تھا، جس کا عاقلانہ جواب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے عطا فرمایا کہ حشر تو برپا ہونا ہی ہے تو اس وقت اچھے اعمال کہاں سے لا ئے گا؟ ورنہ آخرت پر یقین رکھنا تو ہر مومن کا فرض ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کو یزید پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہی تھا کہ“ میں ایک ایسے شخص سے بیعت کیسے کرلوں جو آخرت پر ہی یقین نہیں رکھتا۔ اور یہ الفاظ انہوں نے اس مو قع پر فرما ئے تھے کہ جب شمر نے کہا تھا کہ “ اے ابو عبد اللہ آپ کے لیئے سب کچھ ابھی بھی حاضر ہے، آپ اپنے عمزاد کے ہاتھ پر بیعت کیوں نہیں کرلیتے اس سے کیا چیز آپ کو مانع ہے۔ یہ ابن کثیر نے النہایہ والبدا یہ میں لکھا وہاں پڑھ لیجئے۔ اب آخری سوال باقی بچا ہے جوکہ آج کا عنوان بھی ہے کہ اللہ رمضان کی بھٹی سے تپ کر نکلنے بعد اپنے بندے کو کیسا دیکھنا چا ہتا ہے۔کہ تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ یہ مہینہ مومنوں کو گناہوں سے پاک کردیتا ہے۔ اور اس پر میں محکم آیت کا حوالہ دیتا ہوں اس کی بھی تفسیر ابن کثیر کی تفسیر ہی میں پڑھ لیں۔ وہ آیات ہے سورہ الانعام کی 162 ۔ وہ ایساہونا چا ہیئے جس کا جینااور مرنا اللہ سبحانہ تعالیٰ کے لیئے ہو۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے