ہمارا بچپنا تھا ہم یوپی کے ضلع پیلی بھیت میں رہتے تھے جس کا زیادہ تر حصہ جنگلات پر مشتمل تھاسب سے پہلے ہمارا “ایڈوارہ فا رسٹ اور اس سے ملحقہ ایک وسیع قظہ آراضی تھا اور اس کے بعد گورنمنٹ کے جنگلات تھے۔ پھر نیپال کے جنگلات تھے۔ سرکاری جنگلات کی دیکھ بھال ایک ڈویژنل فار سٹ آفیسر تھے جوکہ لندن پلٹ تھے۔ وہ دادا کے دوست بن گئے اور انہیں مشورہ دیدیا کہ کانگریس کے منشور میں چونکہ زمینداری جاگیر داری کا خاتمہ شامل ہے وہ ایک دن ہوکر رہے گا؟ بہتر یہ ہے آپ اپنی ساری زمینیں کاشتکاروں کو نکال کر خود کاشت میں لے لیں اور بچوں کو پڑھنے کے لئے باہر بھیجدیں ۔پھر انہیں مزید مشورہ یہ دیا کہ باقاعدہ پورے علاقے میں سڑکوں کا جال بچھا دیا کہ آمد رفت کی سہولت ہو ۔یہ وہ دور تھا کہ اسوقت کسی قسم کی کوئی مشنری نام کی چیز نہیں تھی پروجیکٹ کو فیل ہونا ہی تھا۔ خالی زمین پر پر گنا کاشت کر نے کا مشورہ دیا تو اس کی خبر ہاتھیوں کو ہوگئی وہ جب چاہتے غول کے غول جنگل سے ٹہلتے ہوئے تشریف لے آتے، جنکی ان دنوں بہتات تھی نتیجہ یہ ہوا کہ گنا جوان ہونے سےپہلےہی ہاتھیوں کو پیارا ہوگیا۔ جو جمع جتھاپاس تھی پلوں اور سڑکو ں پر خرچ ہو گئی باقی نتیجہ آپ خوداخذ کرلیجئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کاشت کاروں پر ظلم کا نتیجہ تھا۔ چونکہ یہ ہما را اپنا آنکھو دیکھا حال ہے لہذا بیان کردیا کہ لوگ عبرت پکڑیں کہ ظلم کبھی پھلتا پھولتا نہیں ہے۔
اس تمہید بعد ہم اب آج کی بات کی طرف آتے ہیں۔انگریزوں کو یہ بات کبھی پسند نہیں آئی کہ سلطنت عثمانیہ ہمیشہ جرمنی کا ساتھ کیوں دیتی تھی، بجا ئے انگریزوں کا ساتھ دینے کے! انہوں نے کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھا کہ سب سے زیادہ جنگیں مسلمانوں کے خلاف انگریزوں لڑیں یا کسے اور نے؟ اس لئے انہوں نے سازشیں کیں اور ان کو مسلمانوں میں سے ہی غدار بھی مل گئے۔ جو ان کے ہاتھوں استعمال ہوئےاور نتیجہ کےطور ہر عزرائیل نام کی ریاست عالم وجود میں آگئی۔ جس کو اس وقت سے سات خون معاف تھے اور وہ ابھی تک چلے آرہے ہیں۔ جبکہ حکومت بر طانیہ کی بھی نہیں رہی وہ سکڑ کر اپنے جزیرے میں واپس آگئی۔ اس کی جگہ امریکہ نے لی چونکہ امریکہ نے غلامی کے دن دیکھے تھے دنیا کو بہت سی امیدیں اس سے وابستہ تھیں۔ شروع میں اس نے ایسا ہی کردار ادا بھی کیا۔مگر اس کو بھی ورثے میں عزرائیل کی سرپرستی ملی تھی لہذا اس نے بھی پوری سر پرستی کرنے میں کوئی کمی نہیں کی ۔اور مشرقِ وسطیٰ ایک صدی سے میدان کارزار بنا ہوا ہے۔جوکہ ٹرمپ صاحب کے آنے کے بعد اور زیادہ شدت اختیار کر گئی۔ اب اسلام دشمنی نے پوری دنیا کو شدت پسند کردیا ہے۔ کہتے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ مینڈکی کو بھی زکام ہوگیا یعنی امریکہ بھی وہی نسخے استعمال کرنے لگا، جو کہ عزرائیل کامیابی سے استعمال کر رہا تھا۔ جبکہ مودی جی بھی وہی نسخہ سیکھ گئے جو کہ وہ استعمال کر رہا تھا ۔ اورانہیں دنیا کا تیسرا ملک بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی۔ کشمیر کے متنازعہ علاقہ کو اپنا حصہ بنا کر ایک کروڑ کشمیریوں کو آٹھ دس مہینے سے قید کیئے ہوئے ہیں؟ جبکہ دنیا کی بے حسی عالم یہ ہے کہ کسی غیر مسلم یا مسلم ریاست کو کشمیری مسلمانوں کی حمایت کرنے کی جرائت نہیں ہوئی کہ انڈیا ناراض نہ ہو جا ئے۔
لیکن یہ سب بھول گئے۔کہ ایک طاقت اور بھی ہے ؟جو کہ اس کائنات کی مالک ہے وہ ہے اللہ سبحانہ تعالیٰ جو فرماتا ہے سب زیادہ تیزی سے جو چیز مجھ تک پہونچتی ہے وہ مظلوم کی فر یاد ہے لہذآ ظلم سےبچو! اب وہ پہنچ چکی ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ سب سے پہلے “کارونا“ آیا جس نے امریکہ کو خود جنازے پر جنازے اٹھانے پر مجبور کریا ، اور وہ اٹھاکر تھک گیا ہے؟ اس کے بعد وہاں اب فسادات پھوٹ پڑے ہیں جس کی وجہ ایک سیاہ فام کی موت بنی ۔ ایسا کیوں ہواکہ سرمایہ دارانہ نظام کی خوبی ہی یہ ہے کہ وہ لوگوں کی مجبوریوں سے فائیدہ اٹھاتا ہے۔ جو سیاہ فام پہلے غلام ہونے کی وجہ سے کم از کم روٹی اور سر پر چھت کے حقدار مالک کی طرف سے تھے وہ بھی نہیں رہے۔ جبکہ انہیں بڑی مشکل سے غلامی سے تو آزادی نصیب ملی تھی، مگر ان کی آبادکاری کی طرف کبھی بھی دنیا کے مالدار ترین ملک امریکہ نے کوئی توجہ نہیں دی۔اگر وہ ملک کو فلاحی ریاست بنا دیتے تو آج صورت ِ حال مختلف ہوتی؟ یہ نہیں کہ سیاہ فام صرف تیرہ فیصد ہیں جبکہ ان میں باروز گار بہت تھوڑے ہیں۔ اور وہ ہی نہیں ہم نےبہت سے سفید فام بوڑھےدیکھے ہیں۔ کہ ٹھٹرتی سردی کی راتوں میں کسی پارک میں پھٹا ہوا کمفرٹر اوڑھے لیٹے ہیں اور شراب کی بوتل سرہانے رکھی ہوئی ہے۔ امریکہ کے برابر میں کینیڈا ہے جو کہ فلاحی ریاست ہے اور قطعی مختف ہے۔ ہر مجرد بوڑھے کو چودہ پندرہ سو ڈالرملتے ہیں اور مکان نہ ہو تو مکان کی سہولت یا کرایہ میں رعایت ملتی ہے، مگر جو شراب کے شوقین ہیں وہ مہینے کے شروع میں پنشن خرچ لیتے ہیں اور پھر سڑک پر آجاتے ہیں تو پولس ان کو رات کو ہوٹلوں میں لےجاکر ٹھہراتی ہے۔ جبکہ صبح کو وہ سڑک پر آکر بھیکتے مانگتے نظر آتے ہیں؟ یہ ہی وہ بری عادتیں ہیں جوان سے یہ کام کراتی ہیں ورنہ کنیڈا میں کوئی بھوکا نہیں مرتا۔ اس لیئے کہ ہر چیز کے لیئے حکومت ذمہ دار ہے۔
دنیانے بہت سے تجربے کیئے سب نظام فیل ہوچکے ہیں۔صرف ایک نظام ہے وہ ہے اسلام مگر وہ کہیں بھی نافذ نہیں ہے جس کی کاپی کرکے ویلفیر نظام کی شکل میں دنیا نے اپنائی ہوئی ہے اور کسی زمانے میں عدل و مساوات بھی یورپی ملکوں میں رائج تھا جو اسلام سے لیاتھا۔ اب بھی یہاں ہے مگر وہ بات نہیں ہے جوکہ پہلی تھی اور جو بھی نظام ہیں وہ اللہ کے تصور کے بغیر ہیں ان میں خامی یہ ہے کہ تنہائی میں برائی سے کوئی نہیں روکتا۔ جبکہ اسلام خوف خدا ہونے کے باعث اس سے مالا مال ہے۔ یہ تھی دنیا کی صورتِ حال جو میں نے پیش کی، آثار بتا رہے ہیں کہ یہ جو قدرتی بریک ڈٓاؤن ہوا ہے۔یہ اپنے آثار چھوڑے بغیر نہیں جا ئے گا۔
بظاہر ملک چین ابھرتا نظر آرہا ہے۔ مگر اس کا طرز حکومت ابھی تک واضح نہیں کیونکہ کمیونزم ازم تو فیل چکا ہے۔ اب ان کے یہاں نہ سرمایہ داری ہےنہ کمیونزم پوری طرح ہے۔ اگر وہ اپنی پالیسی اسلامی پالیسی میں تبدیل کر لیں اور خدا کا تصور اپنا لیں تو وہ پوری دنیا کی قیادت کرسکتا ہے۔ کیونکہ جن علاقوں میں مسلمان آباد ہیں ان میں قیاد ت درست نہیں ہے۔ اس خلا کو بھی وہ پر کرسکتاہے کیونکہ مسلم ہونے کے بعد ہر شخص کو وہی حقوق حاصل ہو جاتے ہیں جو کہ کسی پیدا ئشی مسلمان کو حاصل ہیں۔ اس کی مثال ترکان ِعثمانیہ کی عالم ِ اسلام پر سکڑوں سال تک بہت ہی کامیاب حکومت ہے۔ دیکھئے اور انتظار کیجئے کہ پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے