یہ ایک ایسا سوال ہے جو کہ آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا۔ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہمیں سب کچھ بتادیا ہے کہ کیا حرام ہے کیا حلال ہے۔بہت سے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں تو اس نے کچھ نہیں بتایا ہمیں تو جو کچھ بھی پہنچا نبیوں ؑکے ذریعہ پہنچا ہے ۔ حالانکہ ان کا یہ کہنا غلط ہے۔ آج کے دور میں جو دور تھے ان تک بھی سب کچھ پہنچ گیاہے؟ یہ جواز گذشتہ قوموں کے لئے تو ہوسکتا تھا۔ مگر ہمارے لئے ایساکہنا قابل عذر نہیں ہے اس لیئے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنا دین جب مکمل کرنے کا اعلان فر ما دیا تو صورتِ حال قطعی مختلف ہوگئی۔ جبکہ پہلے ہر شہر کے لئے اور ہر قوم کی طرف نبی ؑ بھیجے جاتے تھے ۔مگر خاتم النبینﷺ کو پورے عالم کے لیئے ہی نہیں بلکہ عالمین کے لئے رحمت اللعالمین (ص) بنا کر بھیجا گیا تھا۔ اب کسی کو یہ کہنے کی گنجا ئش نہیں ہے کہ ہمارے پاس پیغام نہیں پہنچا کیونکہ آج میڈیا اتنی ترقی کر چکا ہے کہ اس نے جنگل اور بیابانوں تک میں بھی یہ خبر پہنچادی ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ سب کا ہے اور آخری رسول محمد مصطفٰیﷺہیں۔ اس میں جو کثر رہ گئی تھی وہ اسلام مخالف لوگوں نے اسلام کے خلاف پراپیگنڈہ کر کے پوری کردی کہ دنیا کو دنیا کواسلام کے بارے میںاتنا تجسس پیدا ہوا کہ جس کو نہیں بھی پتہ وہ بھی اسلام سے روشناس ہوگیا۔ اگر مخالف اتنا احسان نہیں کرتے تو شاید اتنی بیداری نہیں پیدا ہوتی، مگر اللہ سبحانہ تعالیٰ جس سے جو کام لینا چاہے وہ لے لیتا ہے۔ جبکہ مسلمانوں نے اپنی ذمہ داری اس طرح پوری نہیں کی جس طرح کہ انہیں کرنا چا ہیئے تھی۔ کہ اب رسالت تو باقی نہیں رہی تھی مگر کاررسالت باقی تھا اور کام امت کو منتقل ہوچکا تھا۔ اس کو انہوں نےاتنی ہی تندہی سے انجام دینا تھا جیسی ذمہ داری انہیں سونپی گئی تھی۔ جن لوگوں نے اس سلسلہ میں کوتاہی برتی قیامت کے دن ضرور انہیں جوابدہی کرنا پڑیگی۔ اس لئے اس کا جواب انہیں یہاں سے ہی سوچ کرجانا چاہیئے۔ کیونکہ برا ئیوں کا رو کنا حق کہنا برا ئی کو برا ئی سمجھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے، جو خود کو مسلمان کہلاتے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ دنیا ایسے لوگوں سے اب خالی ہوچکی ہے مگر چند دن پہلے ہمیں اپنے اس نظریہ سے رجوع کرنا پڑااور یہ ماننا پڑا کہ کچھ ذمہ دار لوگ دنیا میں ابھی تک باقی ہیں جو کام کر رہے۔ ہوا یہ کہ ہم حسب عادت ٹی وی گردی کر رہے تھے، کسی خبر کی تلاش میں کہ ایک جگہ اردو میں نیو اور انگریزی میں نیوز لکھا دیکھا۔ اور جب اسے کھولا تو ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ یہ تھا جناب نصراللہ ملک کا شو جوکہ 21 جون کو براڈکاسٹ ہوا تھا اس میں جو مہمان تھے وہ وہی لوگ تھے جو زیادہ تر اسی ٹی وی سے وابستہ تھے اور خود کاروناکا شکار رہ کر واپس آئے تھے جن میں نصراللہ ملک صاحب خودبھی شامل تھے۔ اور وہ ڈاکٹر بھی تھے جو بجا ئے مریضوں کی جیب کاٹنے کہ انہوں نے ان کی رہنمائی کی اور بطور معالج انکی خدمات انجام دیںان میں ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی تھے۔ان کے منہ سے ہم نے بہت سی کام کی با تیں سنیں۔اور ساتھ میں یہ اعتراف بھی کہ یہ وبا ہمارے اعمالوں کی سزا ہے وہ کونسا برا کام ایسا ہے جو ہم نہیں کر رہے ہیں، بات یہ ہے کہ ہم نے حضور(ص) کی سنت چھوڑدی ہے۔اس لیئے ہم سے اللہ سبحانہ تعالیٰ ناراض ہے دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ سب سے زیادہ ہم حقوق العباد کو نظر انداز کیئے ہوئے ہیں جس کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے معاف کرنے کا وعدہ بھی نہیں کیا ہے۔ یہ وہ سبق تھا جو کہ ہم دنیا کو تمام زندگی پڑھا تے رہے ہیں اسے سن کر ہمارے دونوں کان کھڑے ہوگئے۔آفرین ہے ان لوگوں کو کہ انہیں یہ احساس ہوا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے ہم سے ناراض ہے۔ جبکہ پاکستان کے حکمراں اللہ سے وعدے کرنے اور کہہ مکرنے کی سنت پر قائم اور دائم بہتر سال سے چلے آرہے تھے اور وہ کارونا کےظاہر ہوتے ٹرمپ صاحب کے اتباع میں اس سے مستقل جنگ کرنے کی باتیں کر رہے وہ بھی آج پارلیمان میں آج یہ کہتے ہوئے سنے گئے ۔ کہ اللہ کا کرم ہے کہ ہم کارونا پرقابو پانے میں کامیاب ہورہے اور عوام نے اگر احتیاط برتی تو انشاء اللہ ہم جلد ہی کامیابی حاصل کر لیں گے جس سے یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ انہیں بھی احساس ہوگیا ہے کہ اللہ ہم سے ناراض ہے۔ حالانکہ کہ وہ تو بہت ہی سمجھ دار شہری ہیں، شیر خوار بچے بھی ماں اور باپ کے رویہ سے فوراً جان جا تے ہیں کہ یہ ہم سے راضی ہیں یا نہیں ہیں۔ اب ہمیں بھی یقین ہوچلا ہے کہ اچھے دن آنے والے ہیں اگر وہ ان وعدوں پر قائم رہے جو انیوںنے میدینے جیسے ریاست بنا نے کے سلسلے میں کیئےتھے۔ کیونکہ رب کا ارشاد گرامی ہے قرآن میں کہ میں کسی کوسزا دیکر خوش نہیں۔ اگر اللہ سبحانہ تعالیٰ کے سب لوگ پہلے سے رمز شناس ہوتے تو جیسے کہ یونس ؑ کی قوم اور اس کے سردار عذاب کی گھٹائیں دیکھ کر گھروں سے باہر توبہ کرنے کے لیئے نکل آئے ہے یہ بھی پہلے ہی نکل آتے۔اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان سے عذاب ہٹادیتا اور سب ہنسی خوشی اپنے اپنے گھروں کو پہلے دن ہی چلے گئے تھے۔اسی طرح پاکستان کے عوام اورخواص بھی چلے گئے ہوتے۔ مملکت ِ خداد اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی ذلت کاباعث نہ بنتے جیسے کہ گزشتہ کئی ماہ سے بنے ہوئے ہیں۔اسی پروگرام میں ان مریضوں نے یہ بھی بتا یا کہ جہاں جعلی پلازمہ کی ایک بوتل ایک لاکھ روپئےمیں فروخت ہورہی ہے۔ وہیں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جوکہ چپ چاپ مریضوں کو ساتھ لیکر نجی اسپتالوں میںلے جاتے ہیں اور مریضوں کے علاج اوردواؤں کے بل خود ادا کرتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ وہ فوٹو سیشن کی ضروت بھی محسوص نہیں کرتے جوکہ وہا ں ہر مخیر کو مخیر کہلانے کے لئے لازمی سمجھا جاتاے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ اسی طرح ہم سب کو ہدایت دے۔( آمین)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے