اس بات پر کسی مومن کی تو دو را ئیں نہیں ہو سکتیں کہ یہ جرثومہ مامورِ من اللہ ہے اور کب جا ئے گا یہ بھی اسی کو معلوم ہے۔ اور یہ بھی کہ ہم میں سے اس کی روزی جس جس کی ناک میں رکھی گئی ہے وہ ختم کر کے جا ئے گا کیونکہ اس کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ذخیرہ اندوزی کی صلا حیت ہی نہیں عطا فرمائی۔ ورنہ یہ بھی انسان، چوہے اور چیونٹی طرح ذخیرہ اندوزی کر کے اپنا پیٹ بھر لیتا۔ یہ راز ہمیں ہمارے ایک عزیز دوست جناب منور حسین صاحب نے بڑی تحقیق کے بعد بتایا جو کہ قرآن پر بہت عبور رکھتے ہیں اور یہ تفسیر مظہری کی آیت 60 میں بیان ہوا ہے۔ دراصل یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ہماری شامت اعمال ہے اور اس کی وجہ وہ ہماری خوئے نا فرمانی ہے کہ نہ ہم اللہ سبحانہ تعالیٰ کی بات مانتے ہیں، نہ رسول ﷺ اللہ کی بات مانتے ہیں۔ نہ ہی اس سلسلہ کاوہ تیسرا حکم مانتے ہیں “جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قر آن ِ پاک میں فرما یا کہ“ میری اطا عت کرو۔میرے رسولﷺ کی اطاعت کرو اور ان کی بھی اطا عت کرو جو تم میں سے صاحب اختیار ہیں“ ـ دوسری جگہ یہ بھی فرمادیا کہ ہیر پھیر نہیں، ٹال مٹول نہیں تمہارا رویہ یہ ہونا چا ہیئے کہ “ حکم سنا اور عمل کیا “؟ لیکن اس سلسلہ میں ہمارا وطیرہ یہ ہے کہ الحمد للہ ہم مومن تو ہیں مگر ہم سے عمل کر نے کو کوئی نہ کہے ،نہ ہی ہم عمل کریں گے؟ اس سلسلہ میں ہم سے پہلے والی قو موں کا بھی رویہ یہ ہی تھا ان کا انجام کیا ہوا؟ وہ قرآن میں بار بار دہرایا گیا۔اگر فرصت ہو تو ریشمیں جذدان سے قرآن ِ پاک کو نکا ل کر، پڑھ لیں، اگر عربی نہیں آتی تو اردو میں معنی اور تفسیر پڑھ لیں، پھر انشاء اللہ آپ بھی مجھ سے متفق ہوجا ئیں گے، رہا مومن ہونے کا زعم وہ انہیں بھی ایسا ہی تھا جیساہمیں ہے لیکن نبیوں ؑ کی اولاد ہونے کا تھا۔ جبکہ ہمیں حضور ﷺ کی امت ہونے کا زعم ہے کہ ہمیں کچھ نہیں ہوگا کیونکہ اللہ کی نصرت غیر مشروط پر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی “حضور ﷺ کی امت جو ہو ئے۔ اس سلسلہ میری بات نہ مانیں مگر سورہ الشورہ کی آیت نمبر30 پڑھ لیں۔اگر پڑھنے کی فرصت بھی نہیں ہے تو میں اس کے معنی یہاں لکھدیتا ہوں وہاں جا کر جو میں نے یہاں لکھا اس کی تصدیق تو کرلیں؟ پھر شاید میری بات آپ کی سمجھ میں آجا ئے اور اللہ تو فیق دیدے تو میری طرح آپ بھی سمجھ کر دوسروں کو بھی سمجھانے لگیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ؟ “تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے(حالانکہ)وہ بہت سی باتوں سے درگزر فرمالیتاہے(30) یہ آیت کیا ہے مومنو! کے لیئے اس میں جہاں گناہوں کا ذکر کے اس میں ڈراوا ہے، وہیں بے انتہا خوشخبریاں حدیث کی شکل میں موجود ہیں اور ابن ِ کثیر ؒ نے وہاں جمع بھی کردی ہیں جو حضورﷺ نے بہت سی جگہ فرمائیں تھیں کہ“ بہت سی معمولی تکلیفات مومنوں کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں اور وہ اس طرح در گز فر ماتا رہتا ہے۔ اگر وہ ہر گناہ پر گرفت کرتا رہے تو اب تک پوری دنیا لاکھو ں کروڑوں بار تباہ ہو چکی ہوتی۔ اس آیت کے بارے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی یہ فرما یا ہے کہ یہ ہر مومن کو یاد رکھنا چا ہیئے۔
یہ اس کی رحمت ہے کہ جب سے یہ دنیا بنی ہے وہ اسی طرح نوازتا رہتا ہے۔ اور بات بات پر معاف کرتا رہتا ہے۔ برائی کرنے بعد توبہ کا موقع عطا فر ماتا رہاہے کہ شاید یہ توبہ کر لے اس کے بعد بھی اس کا حل یہ بتاتا ہے ایک نیکی کرلو؟ کیونکہ ایک نیکی پر دس گنا ثواب ہے جب کہ ہر برائی کا ایک ہی گنا ہ لکھا جاتا۔ اس کے با وجود بھی اگر کوئی مومن کہلانے والا گناہ اپنے ساتھ لیکر اس دن اس کے دربار میں پہنچے تو اس کی بد قسمتی میں کیا شبہ ہو سکتاہے؟ کہ وہ جوکہ ایک لمحے میں پوری دنیا کو تباہ کر نے پر قادر ہے۔ وہ بار بار انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ شاید یہ ابھی توبہ کرلے اور میں معاف کردوں؟ ایک دوسری جگہ فرما یا ہے کہ میں سال میں دو ایک مرتبہ بلا ئیں بھیج کر آزما تا ہوں کہ شاید بندے توبہ کرلیں پھر بھی یہ توبہ نہیں کرتے انہیں کیا ہوگیا ہے؟ اصل میں یہ بلا ئیں بھی مومنو! کے لئے اس کے نوازنے کا ذریعہ ہیں؟ جیسے وبائی بیماری کہ نتیجہ میں موت پر شہادت۔ اس سلسلہ میں جو تکلیف پہنچے اس پر بھی گنا ہوں کی معافی وغیرہ۔ مگر یہ فرما کر اس نے واضح کردیا ہے کہ“ اس کے لئیے مومن اور وہ بھی با عمل ہونا چا ہیے۔ کسی قسم کا شرک نہ کرتا ہو۔ منافق نہ ہو، فاسق نہ ہو۔ تب اس کے لیئے ہر بلا رحمت ہی رحمت ہے۔ بلا،با عث زحمت مشرک، منا فق اور فاسقوں کے لئے ہے۔ ان تمام انعامات کے بعد اگر کوئی اس کی نعمتوں سے فا ئدہ نہ اٹھا سکے تووہ کتنا بد قسمت ہے۔ جبکہ مو قعے بھی وہ خود ہی فر اہم کرتا ہے۔ کہ کئی نبیوں ؑ “کودعائیں خود سکھا ئیں اور یہ بھی فرما دیا کہ اگر وہ ؑیہ دعا نہ کرتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے“ یہ ہی“ کارونا “کا حال ہے کہ اس میں بھی مومنوں کے لئے رحمتیں ہیں۔ کافروں کے لیئے، فاسقوں کے لئے زحمتیں ہیں۔ کیونکہ مشرکوں کا مقام تو جہنم ہے ہی لیکن فاسقوں کا مقام بھی جہنم کا نچلہ ترین درجہ ہے جبکہ منافقوں کا مقام درکِ اسفل ہے۔ یعنی جہنم کا نچلہ ترین درجہ ہے “ مشرک کو سب جانتے ہیں، جبکہ ان دونوں کی مختصر تعریف یہ ہے کہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں“۔ ایک دوسری آیت میں رب نے فرمایا کہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم(نعوذ باللہ) “اللہ سبحانہ تعالیٰ کو دھوکا دے رہے ہیں مگر وہ دراصل خود کو دھوکا دے رہے ہیں۔“اور ان کے لیئے اس نے یہ بھی فر ما دیا کہ “ قیامت کے دن میں انہیں نظر انداز کر دونگا، جس طرح انہوں مجھے وہاں بھلا یا ہوا تھا“ اگر آپ کو یہ دیکھنا ہے کہ اس سے ہمارے معاشرے کو کیا کیا فا ئدہ پہنچا ؟تو میں وہ گنا ہ اور ثواب گنا ئے دیتا ہوں جو میرےعلم میں ہیں جبکہ میرا علم بڑامحدود ہے۔ حتیٰ کہ میں یہ تک شمار نہیں کرسکتا کہ کون کون سی اس کی نعمتیں میں استعمال کر تا ہوں۔ تا کہ میں اس کا پوری طرح شکر اداکر کے زیادہ لے سکوں۔ اس لیئے کہ ہر انسان کی طرح میں بھی لالچی ہوں اور اس نے یہ وعدہ سورہ ابرا ہیم کی آیت نمبر7 میں کر رکھا ہے کہ “ اگر تم شکر کروگے تو میں تمہیں زیادہ دونگا اگر کفر کروگے تو میرا عذاب بھی شدید ہے “؟ ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا۔ کہ کرونا باعث رحمت بھی ہے کیونکہ ان چند مہینے میں مالک کے تطہیری عمل کی بنا پر بہت سے عقلمند فا ئدہ اٹھا گئے۔ مثلاً جن کی کسی قسم کی تقریبات اس دور میں ہونا تھیں وہ مفت میں ہوگئیں اس لئے کہ کوئی رسم نہیں ہوئی، بے شمار ڈھولکیاں ہوتے ہوتے رہ گئیں، کیونکہ شادی ہال بند تھے۔ فضول خرچی رکی رہی کہ دکانیں بند تھیں ۔حضور ﷺ نے فرمایا کہ“ سب سے بہترین شادی وہ ہے کہ جس میں کم سے خرچ ہو “اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے پہلے ہی فرمادیا کہ“ کھا ؤ پیئو لیکن فضول خرچی مت کرو“ اور فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور یہ کہ شیطان اللہ کا ناشکراہے“پھر اب لوگوں کا ایک دوسرے پر اعتماد اس حد تک اٹھ چکا ہے کہ وہ دوسروں کی مدد تو کیا کرتے ایک دوسرے سے بات کرنے کے بھی اس دوران روادار نہیں ہیں۔ جنھیں پہلے روزِ جزا پر یقین نہیں تھا وہ اب اپنے تجربے کی بنا پر دیکھ کر یقین کر چکے ہیں کہ روزِ قیامت نفسا نفسی کیسی ہوگی؟ آجکل شراب خانے بند ہیں، نائٹ کلب بند ہیں۔ شہروں کی صفائی ہوگئی ہے، پلوژن ختم ہوگیا کہ کارخانے بند ہیں ٹریفک بند ہے۔ یہ مدینہ کی ریاست بنانے کے دعویدار وں کے لئے بہترین موقعہ ہے اپنے وعدے وفا کرنے کا کہ وہ لہو لعب کو ہمیشہ کے لئے دفن کردیں۔ کہ اتنےدن سے سب اس کے بغیر جی رہے ہیں۔
موجودہ تجر بہ یافتہ لوگ آئندہ بھی اسی طرح جی لیں گے۔ البتہ خوئے نا فر مانی کی بنا پر عوام نے جس عمل کا مظاہرہ کیا وہ شاید ان کی نگاہ پسندیدہ ہو؟ مگر کیا وہ اللہ کی نگاہ مییں بھی پسندیدہ ہوگا یہ نکتہ غور طلب ہے؟ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ “ شیطان ان کے اعمالوں کو ان کے لیئے اچھے کرکے دکھا تا ہے“ اور اس سے زیادہ سچی کس کی بات ہوسکتی ہے۔ جبکہ ہر جگہ اس رویہ کی بنا پر بے عمل لوگوں نے اپنا ہی نقصان کیا۔ اور دیار غیر میں بھی اچھے سفیر ثابت نہ ہوسکے کہ“ مسجدیں آگے سے بند رہیں اور پچھلے دروازے کھلے رہے۔ رہا اس کارِ خیر کا ثواب اس کا فیصلہ رب کے ہاتھ ہے کہ “ وہ اس نا فرمانی پرخوش ہوا ہوگا یانا خوش ۔ اور جتنی جانیں اس لا پرواہی، سیاست آرائی کی بنا پر ضائع ہوئیں یا آئندہ ہونگی اس کا گناہ کن کے کھاتے میں لکھا جا ئے گا وہی جانتا ہے؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں اپنے غضب سے محفوظ رکھے (آمین)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے