عمران خان کی حکومت نے 14 اگست کواپنے دوسال پورے کرلیئے جبکہ حزب ِ اختلاف کہتی رہی کہ یہ حکومت صبح گئی اور شام گئی؟ ان کی شکا یت یہ ہے کہ یہ حکومت سلیکٹیڈ ہے الیکٹیڈ نہیں ہے۔ جبکہ پاکستان میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، حالانکہ جو کہہ رہے ہیں وہ بھی اسی ذریعہ سے آتے رہے ہیں اور خود کوالیکٹیڈ کہتے ر ہے ہیں۔ اس پر ہمیں ایک لطیفہ یاد آگیا کہ ایک کلاس ٹیچر نے بچے سے پوچھا کہ تمہا رے والد کیا کرتے ہیں؟ تو اس نے جواب دیاکہ سر!وہ گرمیوں میں آئی سی ایس ہوتے ہیں، سردیوں میں پی سی ایس۔ اس زمانے میں یہ اصطلا حات مرکزی اور صوبائی افسران کے لیئے استعمال ہوتی تھیں؟ ٹیچر کوبڑی حیرت ہوئی کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ اس نے بچے سے دوبارہ پوچھایہ کیسے ممکن ہے؟ اس نے عرض کیا گرمیوں میں وہ آئس کریم فروخت کرتے ہیں تو وہ خود کوآئی۔ سی۔ ایس یعنی آئس کریم سیلر کہتے ہیں اور سردیو ں میں وہ پٹیٹو چپس فروخت کرتے ہیں لہذا وہ خود کو پٹیٹوچپس سیلر کہتے ہیں۔ یہ ہی ہمارے یہاں کے سارے لیڈروں کا حال ہے کہ پہلے دن سے وہ حکومت میں کسی نہ کسی ذریعہ سےآرہے ہیں جیسے کہ سب آتے اور جاتے رہے ہیں؟ مگر خودکو وہ منتخب وزیر اعظم اور اپنی حکومت کو منتخب حکومت کہتے رہے ہیں۔ جبکہ وہ اسی طرح آکر اپنی حیثیت کوبھول جاتے ہیں تو پھر انہیں جانا پڑتا ہے۔اسی طرح ہماری تاریخ یہ بھی بتا تی ہے کہ وہاں جو بھی آیا مگر وہ آنے کے بعد اسلام کو ضرور بھول جاتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ تہتر سال گزر گئے مگر اسلام پاکستان کے دار الخلافہ میں داخل نہ ہوسکا۔ نہ جب جبکہ وہ کراچی میں تھا ؟ نہ ہی وہ اسلام آباد پہنچ گیا تب؟ البتہ ملک کے آئین میں جلی حروف میںملک کا نام ضرور اسلامی جمہوریہ پاکستان لکھاہوا ہے؟
ہم نے کچھ دنو ں پہلے دو انٹر ویو دیکھے ایک وزیر ِ منصوبہ بندی اسد عمر صاحب کا تھا، جس میں انہوں نے اپنی حکومت کی تین غلطیا ں بتا ئیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ ہم نے میڈیا کو جس کی سپورٹ پر ہم آئے تھے اپنا دشمن بنا لیا۔ دوسرے ہم بڑھتی ہوئی گرانی کو کنٹرول نہ کرسکے۔ اور تیسرے ہم احتساب نہ کر سکے؟ یہاں وہی مسئلہ ہے کہ وزیر بنا نے سے پہلے انکا طرز عمل ٹیسٹ کرالیتے تو اچھا ہوتا؟جیسے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں تقرری سے پہلے پولیس والوں کا ٹیسٹ لیتے ہیں، تو نہ ہی ہتھ چھٹ قسم کے وزیر آتے نہ ہی اینکرز کے منہ پر تھپڑ مارتے، نہ ہی یہ صورت ِ حال پیدا ہوتی۔ کیونکہ میڈیا کی دنیا میں شروع سے ہی اپنی ایک اہمیت تھی، جوکہ مسلم لیگ نے اس وقت سے ہی تسلیم کرلی تھی جب کہ 1906 میں وہ ڈھاکہ کے نواب سر سلیم اللہ حال میں بنی تھی اور نتیجہ کے طور پر مسلم لیگ نے اپنے کئی اخبار خود نکالنا شروع کر دیئے تھے۔ مسلم لیگ کی دیکھا دیکھی پھر کچھ مسلمانو ں نے بھی اخبار نکالنا شروع کردیئے؟ ان میں سے دو اخبار دہلی سے ہجرت کرکے پاکستان بھی آئے گئے تھے۔ ایک کانام “انجام “ کے مالک تجارت کے گر نہیں جا نتے تھے!وہ جلدی ہی اپنے منطقی انجام کوپہنچ گیا۔ دوسرے کا نام جنگ تھا اس کے مالک تجار تھے اور وہ جینے کا گر جانتے تھے ان کی قیادت میں اس نے اپنے بقا کی جنگ لڑی اور وہ بہت زیاہ پھلا پھولا اور آج تک موجود ہے؟ باقی بہت سے اخبار نکلتے رہے اور اپنی موت آپ مرتے رہے۔ رہی گرانی کی بات تو ایوب خان کی حکومت اس پر ختم ہوئی کے شبرات کو چینی تین روپیہ فی کلو ہوگئی تھی، حزب ختلاف نے کہا کہ ہم آکر سستی کردیں گے۔ اس طرح اس نے وعدہ خلافی کی طرح ڈالی؟ بعد میں گرانی کے ہی مسئلہ پر بھٹو صاحب کی حکومت بھی گئی کہ پھر حزب اختلاف نے وعدہ کیا تھا کہ ً“ ہم 1971 ء کے بھا ؤ واپس لا ئیں گے؟ وعدہ کرنے والوں میں علما ئے کرام بھی شامل تھے۔ لیکن گرانی ہمیشہ سے اتنی ڈھیٹ ثابت ہوئی کہ آگے ہی بڑھی، مگر پیچھے نہیں ہٹی؟ اجبکہ اس کے نتیجہ میں جو اسوقت کے حزب اختلاف کے لیڈر تھے ان کی اولاد ضرور آگے بڑھتی رہی۔ اب رہی ان کی یہ بات کہ ہم احتساب کے نام آئے تھے،مگر سزائیں دلانے میں نا کام رہے؟ اس ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں نہ جمہوریت ہے نہ اسلامی نظام یہ اس کا نتیجہ ہے۔ ورنہ اسلامی نظام میں تو فیصلے ایک دن میں ہوجا تے ہیں۔ مگر اس کو ہر حکومت طرح آپ کی حکومت بھی بھولی ہوئی ہے اور اگر کچھ کام کر بھی رہی ہے تو صیغہ راز میں ہے جیسے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں نماز، یا گھر میں عیدین کی نماز؟ یا پھر اسلامی تعلیمات دسویں تک پنجاب کے اسکولوں میں رائج ہونا؟ وزیر اعظم شاید اس لیئے شہرت نہیں دے رہے ہیں کہ کہیں ان کی عبادت ریاکاری کی وجہ سے ضائع نہ ہو جا ئے؟ اس لئے اس کی تشہیر مناسب نہیں کیونکہ تقوے کا تقاضہ یہ ہی ہے۔ رہی میڈیا اس کے لئے یہ خبر اہم خبر نہیں ہے؟ اس کے لئے اہم خبر وہ ہے جو کہ سنسنی خیز ہو؟ یہ نتیجہ ہم نے ہرپاکستانی کے عمل اخذ کیا ہے۔ اور اپنے گزشتہ کئی کالموں میں لکھ بھی چکے ہیں۔ آج کامران خان کے پروگرام میں بھی ہم نےوزیر اعظم کو پہلو تہی کرتے دیکھا یہ تو یقین ہوگیا کہ یہ رویہ اوپر سے ہی چلا آرہا ہے۔ کیونکہ انٹر ویو کے دوران کامران خان نے جب کرونا پر بات شروع کی تو وہ یہاں سے شروع کی تھی کہ “ میرے خیال یہ اللہ کا فضل و کرم ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں یہ مرض اور ملکو ں کی طرح زیادہ نہیں پھیلا “مگر اس کے جواب میں وزیر اعظم کے جواب میں شکرانے دو بول اور اللہ سبحانہ تعالیٰ طویل حمد وثنا ہو نا چاہئیے تھی۔ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر بات کا رخ موڑ دیا کہ میں “ایمان والا آدمی ہوں ً“ اگر وہ اس کی کھل کر تصدیق کردیتے اور اس کے بدلے میں دنیا اپنی تحقیق کا ٹھوڑا سا بھی رخ اس طرف کردیتی اور ایک آدمی بھی ایمان لے آتا تو انہیں تبلیغ کاثواب مل جا تا۔ حالانکہ اسلام کی حقانیت کا اثر یہ ہے کہ امریکہ کے صدارتی امید وار بھی وہ مشہور حدیث بیان کر چکے ہیں۔ کہ “ ظلم کو اگر طاقت ہو تو بزور طاقت روکو، ورنہ زبان سے روکو اگر یہ بھی نہیں کرسکوتو اس سے کرا ہیت ضرور کرو “ مگر ہم کر یہ ر ہے ہیں کہ ہم بھی وفا داری دکھانے کے لیئے خود بھی ظالموں کی مدد کر ت آ رہے ہیں۔ جب کہ دوسری جگہ اسلامی تعلیم یہ بھی ہے کہ “تم بھلائی میں اپنے بھا ئیوں کی مدد کر سکتے ہو مگر ظلم میں نہیں اگر ظالم کی مدد کروگے تو تم خود بھی ظالموں میں شامل ہو جا ؤ گے“ لہذا ہمارا مشورہ یہ ہے کہ اپنی فہرست میں چوتھی غلطی بھی شامل کر لیں کیونکہ آپ کی پارٹی کے وعدوں میں ملک کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کا وعدہ بھی شامل ہے؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرما ئے(آمین)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے