یہ بہت بڑا موضوع ہے اگلے ہفتے سہی، یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کئی ہفتے چل جا ئے! چونکہ آجکل نیب میں اصلاحات پر بہت زور ہے۔ کیوں؟ اس پر رانا ثنا اللہ صاحب جیسے لوگ ٹی وی پر اظہار ِ خیال روز فرما رہے ہیں، مباحثہ جاری ہے وہاں آپ جاکر سن لیجئے بہت کچھ آپ خود اخذ کر لیں!ہم بھی اس میں اپنا حصہ بٹانے کو اولیت دیدیتے ہیں اور آج اس پر ہی بات کر لیتے ہیں۔ سب سے پہلے آپ یہ سمجھ لیجئے کہ اس ادارے کو بنا نے والے نے اسے کسی اور مقصد کے لئے بنا یا تھا اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں ان کے آقائے ولی نعمت بھی شامل تھے؟ اس طرح کے کاموں کے لئے یہ ادارہ بالکل صحیح تھا اور اس نے بڑا اچھا کام بھی کیا اور وہ کام یہ تھا کہ حزب اختلاف کے سرکشوں کو اس کے ذریعہ زیر کیا جا ئے؟ چونکہ اس کے بنانے کے بعد اس کے یوم ِ تاسیس سے لیکر کافی عرصے تک اس میں بحریہ کے افسر آتے رہے ان کی وجہ سے ہر شہر میں بحریہ ٹاؤن بن گئے۔ پھر ایک آرمی کے جنرل کوآخر میں منہ کامزہ بدلنے کے لیئے لایا گیا جو کہ اس ادارے کا سب سے اچھا دور تھا؟ مگر ان میں خرابی یہ تھی کہ وہ کسی کی سنتے نہیں تھے؟ پھر ایک افسر شاہی کا آفیسر لے لیا تاکہ اس کو آزما دیکھیں کہ کیسا چلتا ہے؟ اس نے اپنا وقت بڑا اچھا گذاراکہ وہ کسی کی بات ٹالتا نہیں تھا لہذا بے ضرر تھا۔ ان میں سب سے اچھا دور جنرل امجد صاحب کا تھا جن کی وجہ سے مشرف صاحب کا امیج دنیا میں بہت اچھا بنا کیونکہ ان کی ایمانداری مشہور تھی اور وہ تھے بھی ایسے ہی یعنی اندر اور باہر سے ایک؟ اس زمانے میں ہم نےاپنے انہیں صفحات میں کنیڈین ہائی کمشنر برائے پاکستان کے الفاظ تحریرکئے تھے جن کو ہم کئی بار دہراچکے ہیں کیونکہ اس نے ہمارا سر فخر سے بلند کردیا تھا کہ انہوں نے یہاں ہمارے شہر رچمنڈ میں مقامی لبرل پارٹی کی میٹنگ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ “ میں یہ دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مشرف صاحب کی کابینہ میں کوئی وزیر کرپٹ نہیں ہے “ البتہ جنرل امجد صاحب کی سختی کی وجہ سے اس وقت کے سیاستاں بھی ان سے شاکی تھے آج کی طرح سیاستداں بھی شاکی تھے اور بقول انکے ان کا انسانی حقوق کا ریکارڈ درست نہیں تھا ؟ وہ بھی اس مسئلہ پر شاکی تھے جس کا انہوں نے بھی بر سر ِ عام اظہار بھی کیا تھا۔ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت ہی کچھ ایسی بنا ئی ہے کہ اپنو ں میں سے ہی اپنا جیسا حکمراں مانگتا ہے حتیٰ کہ نبیؑ بھی اپنا جیسا ہی چاہتا ہے کہ مکہ کے کفاروں کو شکایت تھی کہ اس نے ہم میں سے کسی کونبی ؑ کیوں نہیں بنا یا؟ حالانکہ نبوت سے پہلے اپنے اعلیٰ کردار کی وجہ سے حضورﷺ ان سب کو قابل ِ قبول تھے جو متعدد واقعات سے ثابت ہے؟ لیکن جب انہیں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا نظر آیا اور اس کے نتا ئج سمجھ میں آئے تو سب ان کےﷺ جانی دشمن ہو گئے۔ دیکھا آپ نے جب کسی کو ذرا سی بڑائی مل جا ئے تو وہ اپنے آپکو کتنا بڑا آدمی سمجھنے لگتا ہے حالانکہ وہ اپنی حقیقت خود جانتا ہے وہ ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ نبی کا کام اور شیطان کا کام اور ہے؟
آخر میں ولی نعمت سے غلطی یہ ہوگئی وہ سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کو بطور چیر مین لے آئے چونکہ ہوا بدل چکی تھی اور انصاف کی چل رہی تھی،ریاست مدینہ منور ہ کا نعرہ گونج رہا تھا۔ ہر اک منتظر تھا کہ وہ کب قائم ہوگی! کیونکہ ریاست مدینہ اپنے انصاف کے لیئے دنیا میں بھر میں مشہور ہے؟
جج آخر جج ہی ہوتا ہے۔ جج صاحب نے سوچا ہوگا کہ وہ بھی تاریخ نام پیدا کر جا ئیں؟ انہوں نے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کی تو ان کا پہلا ہاتھ انہیں لا نے والوں پر پڑا کیونکہ انہیں پہلے سے جانتے تھے! پھر دوسرے پر؟ جبکہ یہ ادارہ اس مقصد کے لیئے بنا ہی نہیں تھا۔ یہ تو ڈرانے دھمکا نے اور کچھ مال نکلوانے کمانے کے لیئے بنا تھا؟موجودہ چیر مین صاحب نے اسے ادارہ انصاف بنا نے کی کوشش کی جبکہ اس محکمے کی تربیت ہی ان بنیادوں پر نہیں ہوئی تھی کیونکہ اس میں اللہ کے بندے بہت کم تھے؟ یعنی یوں سمجھ لیں بمشکل دال میں نمک کے برابر۔ باقی پورے عملے کی یہ حالت تھی کہ ہرکوئی کسی نہ کسی کا بندہ تھا جوکہ اسے یہاں اپنے مقاصد کے لیئے لایا تھا؟ وہ ملزموں کوپہلے ہی سے پل پل کی خبر پہنچا رہے تھے اور مقدمات بھی ویسے ہی بنا رہے تھے۔ جیسے کہ ہمیشہ بنا تے آئے تھے؟۔ وہ عدالتوں میں جاکر چھوٹتے رہے یا انہیں ضمانتیں ملتی رہیں۔ رہی حکومت جو احتساب کا نعرہ لگا کر آئی تھی۔ وہ ہمیشہ کی طرح “ بے بس“ تھی جبکہ شروع سے پاکستان کی تا ریخ یہ ہی ہے کہ “ بس “ کسی اورکے پاس ہوتا ہے اور حکومت کسی اور کے پاس ہوتی ہے۔ اب سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ اس ادارہ میں خرابی کیا ہے؟ خرابی یہ ہے کہ دنیا بھر میں یہ قائدہ ہے کہ شروع میں ہر ملزم کے خلاف تحقیقات خفیہ ہوتی ہے۔؟جس میں کسی کو کانو ں کان خبر نہیں ہوتی۔ پھر وہ فائل وکیلِ سرکار کے پاس جاتی ہے اور وہ پڑھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ مقدمہ اس قابل ہے جو عدالت کے سامنے جب پیش کیا جا ئے تو ملزم سزا بھی پا جا ئے یا نہیں؟ اگر نہیں، تو وہ اس پر یہ لکھ کر واپس بھیجدیتا ہے کہ ثبوت نا کا فی ہے، مزید ثبوت فراہم کرو ورنہ اسے داخل دفتر کردو؟ یہاں اس کا الٹ ہے کہ بعض اوقات پہلے ملزم کو اندر کر دیتے ہیں۔ بعد میں ثبوت تلاش کرتے ہیں۔ یا پھر وعدے معاف گواہوں پر اعتبار کرلیتے ہیں جوکہ ملزمان خدمت ِ خلق کے جذبے کے تحت خود ہی اکثر فرا ہم کردیتے ہیں اور وہ آگے چل کر مکر جا تے ہیں۔ جبکہ جو سچے ہیں اور جذبات میں آکر وعدہ معاف گواہ بن جا تے ہیں؟ یہ سب عموماًبال بچو ں دار ہوتے ہیں؟انہیں جب دھمکیا ں ملتی ہیں تو اپنے یتیم ہونے والے بچے اور بیوا ئیں یاد آجاتی ہیں۔ وہ بھی عدالتو ں میں جا کر اپنے بیان سے پھر جا تے ہیں۔ رہے جج اورعدالتیں وہ ثبوت پر فیصلے کرتے ہیں جب مقدمہ ہی کمزور ہے اور انصاف کے تقاضے ہی پورے نہیں ہورہے ہیں تو جج کیا کریں گے۔ یہ ہی کہ یا تو انہیں ضمانت پر رہا کردیں یا بری کردیں۔ میں نے جو کچھ عرض کیا آپ ذرا غور سے پڑھیں تو سب کچھ سمجھ جا ئیں گے۔ اب رہا اس میں تر میم کا مسئلہ تو اس پرحکومت اور اپوزیشن کبھی دونوں متحد نظر آتے ہیں کبھی نہیں؟ وجہ یہ ہے کہ دونوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ جوکہ ایک دوسرے سے قطعی متضاد ہیں۔ حکومت کواپنے ساتھ ملک کا مفاد بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ جبکہ اپوزیشن پہلے اپنے مفا دات دیکھتی ہے پھر ان کے مفادات کا بھی خیال رکھنا جہاں سے فنڈ لیئے ہوتے ہیں؟ مثلاً ایک تجویز حزب اختلاف کی طرف سے آئی کہ منی لانڈرنگ جو ہے وہ NAB سے واپس لے لی جا ئے۔ چونکہ انکی کی اسی میں بچت ہے۔ مگر پاکستان کو اس سے زبردست نقصان پہنچے گا اور FAFT سے کئے ہوئے حکومت وعدے پورے نہیں کرسکے گی اور ملک بلیک لسٹ ہو جا ئے گا۔ لیکن اس میں اپو زیشن کا کیا بھلا ہوگا وہ وہی بتا سکتے ہیں یہ انہیں سے پوچھ لیں جو ایک پنتھ دو کاج کر رہے ہیں؟ میرے خیال میں آپ یہ بھی سمجھ گئے ہونگے۔ میں ترمیم پر بات یہیں پر ختم کرتا ہوں کیونکہ ترامیم لا محدود ہیں اور اخبار کے کالم محدود ہیں۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے