عوام کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟۔۔۔شمس جیلانی

من حیثت القوم ہمارا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ ہماری کوئی بھی ذمہ داری نہیں ہے۔ بلکہ ہمارا کام ہر حکومت، فرد اور ادارے کے لئے مشکلات پیدا کرنا ہیں۔ نہ بندے کی حیثیت سے کسی کو کچھ کرنا ہے،بلکہ ہر کام اللہ کو کرنا ہے۔ نہ کوئی قوم کی حیثیت سے کوئی بات سوچتا ہے اس لیئے کہ ہر کام حکومت کو کرنا ہے؟ جبکہ اکثر حکمرانو ں کا کام اپنے پیٹ بھرنا رہا ہے۔ حالانکہ اللہ بتا چکا ہے اس کے نبی ﷺ بھی بتا چکے ہیں کہ یہ کروگے تو یہ ہوگا جو ہورہا ہے۔؟ یہ ہی روش حکومت کے سلسلہ میں ہے کہ ہرکام حکومت کو کرنا ہے خود کچھ نہیں کرنا ہے۔ عوام کا کام صرف مشکلات پیدا کرنا ہے۔ آپ پورے ملک میں گھوم جا ئیں جہاں بھی کسی سے سوال کریں گے ایک ہی جواب ملے گا کہ یہ حکومت نا لا ئق ہے۔ آپ کو یہ ہی وہ بھی کہتے ہوئے ملیں گے جو کہ خود یا ان کے آباؤ اجداد 73 سال سے حکومت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن کبھی کسی نے نالائقی کا ثبوت نہیں دیا۔ اس سلسلہ میں ایک خاندان کی مثال لے لیجئے اگر باپ سوائے قرض کے کچھ نہیں چھوڑ گیا ہے؟تو اگر پورا خاندان گھر کے بڑے کا ساتھ نہ دے نہ اپنے اخراجات کم کرے اور صرف مطالبات کر تا رہے تو بڑا بیٹا کتنا بھی قابل ہو؟ وہ کیا کرسکتا؟ سوائے گھر کی بد حالی میں مزید اضافہ کرنے کہ جب تک سب ملکر کام نہ کریں اور اپنی ذمہ داریوں کا ان میں احساس نہ پیدا ہو مزید تباہی آئے گی۔ اس کا حل یہ ہی ہے کہ جو گھر کا بڑا ہے سب اس کا ساتھ دیں اور اس کا فرض ہے کہ وہ پورے کنبے کو حالات سے با خبر رکھے اس لئے کہ یہ اس کی اسلامی اور جمہوری ذمہ راری ہے کہ وہ اپنے بارے میں کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہونے دے۔ ہمارے یہاں سربراہ ایسی غلطیاں اکثر کرتا ہے جو کہ اسلام نے منع کیا ہے لہذا کنبہ بھی وہی کرتا ہے۔ اور کرنا چا ہیئے کہ عموما ً بے خبر رکھا جاتا۔ یہ روش ہمارے اندر کہاں سے آئی؟اس کا جواب یہ ہے کہ مسلسل صدیوں کی غلامی سے جو کام ہمارے سابقہ آقا اپنے ملک میں کرنا نا پسند کرتے تھے وہ ہمارے یہاں رائج کر گئے۔ مثلا ً ان کے یہاں ون ونڈو آپریشن تھا۔ مگر ہندوستا ں میں ایک بڑی سی ٹیبل کسی آفس کے ہال میں پڑی ہوتی تھی اور ہر محکمہ کا کلرک اس پر بیٹھا ہوتا جبکہ ہیڈکلرک صدر نشین پر تشریف ہوتا تھا۔ اور اس کے داہنے ہاتھ پر“ کانفیڈینشل کلرک“بیٹھا ہوتا تھا جو اس کا داہنا ہاتھ ہوتا تھااورحکومت کے تمام خفیہ راز صرف اسے یا ہیڈ کلرک کومعلوم ہوتے تھے۔ اور حکومت کی کوئی بھی خفیہ بات باہر نہیں نکل سکتی تھی کیونکہ ایسا کرنا جرم تھا۔ آج تک وہی نظام چلا آرہا ہے۔ جب کہ ہم بات اسلامی جمہوریت کی کر تے ہیں۔ ملک سے وفاداری کا یہ عالم کے ہے کہ حکمراں و ہاں سے جو کماتے ہیں وہ ملک سے باہر لے جاتے ہیں اوریہاں سارا کاروبار بنکوں کے ا دھار پر چلتا ہے۔اگر پکڑے گئے توبریف کیس ہا تھ میں لیااور جہاز میں بیٹھ کراڑگئے؟ پھر جو بھی آتا ہے وہ یہ کہتا ہوا آتاکہ میں سب برائیاں دور کردو نگا۔ مگر مور کی طرح ناچتا ہے اور اپنے کا لے پیرو ں کی طرف دیکھ کر رک جاتا ہے۔ اس لیئے کہ اس کے ہاتھ صرف اڑنے کے لئیے ہیں اورپیر ساتھ نہیں دیتے ہیں؟ پھر اسے انہیں چوروں سے مصالحت کرنا پڑتی ہے۔ اس لیئے کہ پارلیمان سے ووٹ بھی تو چاہیئے ہیں۔ اس کا حل کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ پوری قوم میں احساس قومیت پیدا ہو۔ جبکہ ہمارے وہاں قومیت سے مراد سید، پٹھان مغل وغیرہ ہے۔ یا پھر مفاد پرستوں کی ٹولیاں ہیں۔ جوکہ کھا ؤ اور کھانے دو کہ اصول پر چلتی ہیں جبکہ پاکستان جس قومیت کے نام پر بنا تھا۔ اس میں خاندان تو کیا سرحدوں کی بھی کوئی گنجا ئش نہیں ہے۔تو کام کیسے چلے کیونکہ ملک میں کوئی ایک نظام کامیاب حکمرانی کرنے کے لئے نہ موجود ہے نہ ہی بن سکتاہے۔ رہی اسلامی قومیت کی حالت جو کبھی قرون ِ اولیٰ میں تھی وہ اب مفقود ہے؟ ہماری طرف سے صرف اک طرفہ ٹریفک جاری ہے کہ ہم تو ان پر جان دیتے رہیں؟ مگر وہ اس سلسلہ میں سوچنے کو بھی تیار نہیں ہیں کیونکہ ان کے اپنے مفادات ان کیسامنے ہیں۔ ایسے میں بات بنے تو کیسے بنے۔ رہے عمران خان ان کا بھی حال یہ ہے کہ کبھی اس کشتی میں کبھی اس کشتی میں پیر رکھتے ہیں۔ جب وہ جدید دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔ تو ایسے بیان دیدیتے ہیں کہ“گیس کا بڑا طوفان آنے والا ہے سردیوں میں،لہذا قوم تیار رہے“ جبکہ قوم جو کرسکتی اور جو اسے کرنا چاہیئے وہ کرنے کے لیئے تیار نہیں ہے۔ مثلاًغیر ضروری چولہا نہ جلا یا جائے۔خاتون خانہ کھانا پکاتے وقت فون پر بات کرنے اور انڈین ڈرامے دیکھنے سے ا جتناب کریں اور گیس چوری کرنے والے چوری کرنے سے۔ وہاں لوگ اکثربرابر والے ملک کی بات کرتے ہیں ان سے ہی کچھ سیکھ لیں کہ ان پر وہ وقت گزر چکا ہے جبکہ وہاں ایسی قلت رہی ہے کہ کھانا موجود تھا لیکن پکانے لئے ایندھن نہیں تھا کیونکہ وہ بھی ہماری طرح درخت کاٹکر کھا گئے تھے۔ ہم درخت پہلے ہی کاٹ کھا چکے ہیں اب جلانے کے لئے کچھ بچا ہی نہیں ہے۔“ عمران خان نئے درخت لگا نے کی کوشش کر رہے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ وہاں ہر چرواہے کے ہاتھ میں کلہاڑی ہے اور درخت کو سراٹھا کے کھڑے رہنے کی وہ اجازت ہی نہیں دیتا جیسے کے گاؤں کے چود ھری کے سامنے کاشتکار؟ آپ پوچھیں گے کہ انہوں نے اس مسئلہ کو حل کیسے کیا؟ انہوں نے ایک پنتھ دو کاج کے بجا ئے ایک پنتھ اور کئی کاج کا نسخہ استعمال کیا؟ کہ ہر ایک کو گا ؤں میں“ سیپٹک ٹینک“بنا نے کے لئے پانچ سو روپیہ دیدیئے، اس زمانے میں جانور بہت تھے اور انہیں گوبر چھونے میں کوئی آر بھی نہیں تھا انہوں نے گوبر گیس بنا ئی اور اس سے کھانے پکا نے کا کام لیا اور ٹینک کا فضلہ بھی قدرتی کھاد کے طور پر استعمال کیا جس سے زمینوں کی زرخیزی بڑھی اور پیداوار بھی؟ اور ہوا سے بھی بجلی پیدا کی اور سورج سے بھی شمسی پاور اسٹیشن بنا ئے؟جب کہ ہمارے یہاں صرف کاغذ پر کاشت کاروں کو کئی بار فنڈ ملے مگر وہ کیش کرا کر جانے کون لے گیا؟ جبکہ انہوں نے اپنے یہاں زمینداری نہیں رکھی۔مگر پاکستان میں زمینداری باقی رہی پارلیمان میں ان کی اکثریت ہے انہوں نے اپنے فارمزمیکنائزڈ کرلیئے؟ اس لیئے کاشتکاروں کا گاؤں سے رشتہ ہی ختم ہو گیا وہ شہروں میں منتقل ہوکر گم ہوگئے؟ بات ختم۔ دوسرے سفید پوش ایسے کام یوں بھی نہیں کر سکتے کہ گوبر“ نجس“ہے۔ جبکہ حکومت FATF کی شرائط پوری کرنے کے لیئے مجبور ہے اور کوشش کررہی ہے کہ ملک پر پابندی نہ لگنے پائے جس کی ذمہ دار پرانے پاپی ہیں۔ مگر حزب اختلاف کہہ رہی ہماری شرائط ووٹ دینے کے لئیے یہ ہیں کہ پہلے ہمیں کلین چٹ دو ورنہ ہم قانون پاس نہیں ہونے دیں گے۔ رہی یہ بات کہ ملک پر پابندیاں لگ جا ئینگی تو ان کا خیال ہے کے سارے ملک ہمارے لئے ایک جیسے ہیں ہم دوسرے ملک میں چلے جا ئیں گے جہاں ہمارے بال بچے رہتے ہیں؟ ان کی اس سوچ پر دل قربان ہونے کو چا ہتا ہے۔کہ وہ اس ملک پر حکومت تو کرنا چاہتے ہیں جتنی بار انہیں موقعہ مل سکے مگر برے وقتوں میں ملک کے وہ کام نہیں آسکتے؟ جبکہ عوام انہیں کو ووٹ بھی دیتے ہیں۔ کو ئی بتلا ؤ ہمیں کہ ہم بتلائیں کیا؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.