عمران خان کو مدینہ جیسی ریاست کے سلسلہ میں مشورہ۔۔۔شمس جیلانی

انہیں مشورہ دینا ہمار ے لیئے کوئی نئی بات نہیں ہے ہمارے انہیں کالمو ں میں دئیے ہوئے وہ مشورے ہمارے قارئین کو ابھی تک یاد ہونگے جو ہم انہیں ان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے دیتے رہیں۔ اورجو ہماری ایک مطبوعہ کتاب میں ًشمس کے ایک سو ایک کالم ًمیں بھی موجود ہیں۔
بہت عرصے سے پاکستان کی حزب اختلاف کے سامنے ایک ہی مسئلہ مسلسل چلا آرہا ہے جوکہ ان کے ایجنڈے سے ہٹتا ہی نہیں ہے کہ عمران خان نے یہ وعدہ پورا نہیں کیا وہ وعدہ پورا نہیں کیااور وہ بھی وہ لوگ کہہ رہے ہیں جنہوں نے اپنے دور میں کبھی کوئی ایساوعدہ پورا نہیں کیاجس میں انہیں کمیشن ملنے کے امید نہ ہو؟ اسی لئے انہوں نے اپنے معیار کے مطابق صرف بڑے پروجیکٹ بنا ئے جیسے کہ موٹر وے وغیرہ۔ یہاں تک تو خیر ہے کہ عمران خان کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہم نے وعدے پورے نہیں کیئے تو تم نے بھی نہیں کیئے لہذا معاملہ برابر ہے؟ مگر انہوں نے ایک کام ایسا کیا ہے جس کا انکے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور وہ ہے اللہ سبحانہ تعالیٰ سے کیا ہوا وعدہ کہ“ میں پاکستان کو مدینہ منورہ جیسی ریاست بنا ؤنگا“ جس کی طرف ان دو سالوں میں وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکے؟مانا کے اس سلسلہ میں بہت سی دیدہ اور نا دیدہ رکاوٹیں حائل ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہرآنے والے نے اسلامی نظام نافذ کرنے کا وعدہ تو کیا مگر اسلامی نظام وہ ملک میں تو کیا اسلام آباد میں بھی نافذ نہیں کرسکا۔ اسی لئے بزرگ کہہ گئے ہیں کہ“ بولنے سے پہلے تولو پھر بولو!“ قر آن کہتا ہے کہ“ مسلمانو ں! تم وہ بات کہتے کیوں ہو، جو کرتے نہیں ہو اور یہ بات اللہ کو سخت نا پسند ہے ً“ یہ اور بات ہے اورزمینی حقائق یہ ہیں کہ آجکل اکثر مسلمانوں کو جو بات نہ کرنا ہو تو اس پر انشا ء اللہ کہہ دیتے ہیں؟ شاید ان کے خیال میں ایسا کرنے سے کچھ بچت ہوجاتی ہو، جو ہمارے علم میں نہیں ہے؟ لہذا اس پر تبصرہ بھی نہیں کر سکتے۔ مگر عمران خان نے اللہ سبحانہ تعالیٰ سے وعدہ کرتے ہو ئے یہ احتیاط بھی نہیں برتی، اس لیئے وہاں بھی بچت کی امیدکم ہے اگر ایسا کچھ ہوا تو؟ ہمارا خیال یہ ہے کہ انہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ساتھ کیا ہوا وعدہ ضرور پورا کرنا چاہیئے اور اپنی سی پوری کوشش کرنا چا ہیئے تا کے وہاں ان کی بچت ہوجا ئے اور وہ کہہ سکیں کہ مالک تو توجانتا ہے کہ میں نے اپنی سی پوری کوشش کی مگر میں کامیاب اس لیئے نہیں ہوسکا کہ ہر جگہ معافیہ میر ے آ ڑے آئی میں اکیلا بندہ کس کس سے لڑتا؟ جب بھی میں نے کوشش کی اسی صورت ِحال سے واسطہ پڑا کہ ع جن پہ تکیہ تھاوہی پتے ہوا دینے لگے۔ صرف یہ ہی نہیں ہوا بلکہ اندرونی خبریں تک جو میرے دست وبازو تھے وہ معافیہ کو پہنچا نے لگے۔ رہے عوام وہ بھی اسلام آباد میں پلاٹ تو سب چاہتے ہیں۔ کیونکہ بہت مہنگے ہیں اور وہاں پلاٹ ملتے ہی آدمی زمرہ امر اء میں ضرور شامل ہوجاتا ہے چاہیں اور کچھ ہو یانہ ہو؟ مگر عوام بھی اسلام آباد میں آباد ہونے کو تو سب تیار ہیں لیکن اسلامی نظام وہ بھی نہیں چاہتے ہیں۔ ان کا تو عجیب عالم ہے کہ وہ تجھے تو مانتے ہیں مگر تیرے احکا مات پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ یہاں ان کے مفادات تیرے دین سے ٹکراتے ہیں۔ اگر انہوں نے اپنے دور اقتدار کے گزشتہ دو سال میں کچھ کیا ہوتا تو اس صورت میں عمران خان کی تمام کو ششیں پروردگارِ عا لم کے ذاتی علم میں ہوتیں! پھر توکچھ معافی کی امید تھی اب وہ بھی نہیں ہے۔ کہ موصوف باطن میں یا ظاہر میں کہیں بھی اس سلسلہ میں کو ششیں کرتے ماضی میں بھی کہیں نظر نہیں آئے۔ اس لیئے میرے خیال میں اس کا حل ایک ہی ہے کہ ماضی کے بجا ئے حال اور مستقبل سے کام لیا جائے تاکہ وہاں کا بھی کچھ سامان ہوسکے؟ چونکہ پاکستان میں اس سلسلہ میں بڑے پیمانے پر تو کچھ کرنا بہت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اس لئے پورے ملک کو چشم زدن میں مدینہ منورہ جیسی ریا ست بنانا تو نا مکن ہے؟ البتہ اسے پہلے چھوٹے پیمانے پر شروع کیا جاسکتا ہے کہ اسلام آباد میں ہی۔ایک“ اسلامک ماڈل ولیج“ بلا تاخیر بنادیا جائے اور اس کا سنگِ بنیاد اپنے مبارک ہاتھوں سے آپ رکھد یں اور باعمل مسلمانوں کو پورے ملک سے تلاش کرکے وہاں لاکر آباد کردیں۔ مجھے یقین ہے اتنے تو مل ہی جا ئیں گے کہ ایک گاؤں بس جا ئے؟ اور ان کی اپنی مقامی حکومت بنادیں اور اس طرح اسلامی نظام قائم کردیں۔ یہ مجھے علم تو نہیں ہے کہ وہاں اب جگہ ہے یا نہیں ہے جہاں آپ نے چند روز پہلے ایک مندر کا سنگ ِ بنیاد رکھا ہے تھا؟ اگر ہو تو اسی کے برابر میں جگہ بہترر ہے گی۔ چونکہ اس کی وجہ سے چہل پہل بھی رہے گی اور وہاں جو یاتری آیا کریں گے اسلامی نظام حیات دیکھ کر وہ بھی متاثر ہو نگے؟ اور آپ دنیا کو دکھا سکیں گے کہ اسلامی رواداری یہ ہے اور مسلمان ایسے ہوتے ہیں اور اسلامی ریاست اس طرح چلتی ہے۔ اس پر یہ عمل سونے پر سہا گے کا کام دیگا کہ آپ خود بھی اس میں چھوٹی سی رہائش گاہ بنا لیں اور جس طرح سے خلفا ئے راشدین رہتے تھے، ویسے ہی آپ بھی وہاں جا کر رہنے لگیں اگر روزانہ پنجگانہ نماز کی امامت بھی فرما ئیں اور وہیں آنے والے وفو کو بھی شرف بار یابی بخشیں تواور بھی اچھا ہو گا؟ اگر یہاں تک نہیں جا سکتے ہوں کہ پورا اسوہ حسنہ ﷺ اپنا لیں تو، جتنا بھی عمل کر سکتے ہوں وہ بہتر ہے۔ اگر ایسا کرسکیں تو امید ہے کہ وہاں بھی آپ کی بچت کا سامان ہوجا ئے گا۔ دوسرے یہاں بھی اس سے اسلام کو بڑا فروغ حاصل گا۔ اور یہ چھوٹا ساماڈل ولیج تبلیغ اسلام کا بھی ذریعہ بنے گا۔ بلکے وہاں سیا حوں کے لئے ایک ہوسٹل بنا دیا جا ئے کہ وہاں دنیا بھر سے سیاح آکر مسلم معاشرے کو قریب سے دیکھیں اورچاہیں تو اسلام پر تحقیقاتی کام بھی کریں۔پھر یہ مجبوری بھی جا تی رہے گی جو ابھی تک لا حق تھی۔ کہ لوگ کہتے ہیں ہمیں یہ دکھاؤ تو سہی کہ اسلام نافذ کہاں ہے۔ اس طرح یہ ماڈل ولیج آپ کے بخشش کا سامان اور صدقہ جا ریہ بن جا ئے گااور تاریخ میں آپ کا نام جگمگاتا رہے گا۔ ہماری دعا ہے اللہ سبحانہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرما ئے اور آپ کے مشن کو کامیاب کرے۔ (آمین)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.