کیا ہوگیا زمانے کو؟۔۔۔شمس جیلانی

جس نے بھی تھوڑا سا گزشتہ دور دیکھا ہے وہ یہ ایک بات کہتا ہوا ضرور سنائی دیگا کہ “ کیا ہوگیا زمانے کوکہ نہ کسی کی عزت محفوظ ہے نہ مال نہ جان۔ ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا“میں اب نوے سال کو چھو رہا ہوں جو کے انشا اللہ اگلے سال پورے کرلونگا۔ میرے دور کے لوگ تو آجکل ناپید ہیں اور اگر کہیں ہیں تو بھی اس دور کی داستان بیان کرنے کے قابل نہیں ہیں، جبکہ میرے اوپر اس کا کرمِ خاص ہے کہ میرا قلم چل رہا ہے۔اگر میں اس دور کی بات کروں جب کہ دنیا میں چرخے کے سوا کوئی مشین موجود نہ تھی ۔صرف چرخہ تھاجو سوت کاتنے کے کام آتا تھااور پورا لکڑی کا بنا ہوا ہوتا تھا۔ اب ہم الحمد للہ کمپیوٹر کے دور میں ہیں۔ میں اگر اس دورکہانیاں سنا نے لگ جا ؤ ں تو نئی نسل کہے گی کہ بڑے میاں جھوٹ کتنا بولتے ہیں؟صرف ایک مثال دے دیتا ہوں کہ اگر کسی کا بڑے سے بڑاجانور گم جا تاتو اس کے مالک کو لوگ تلاش کرکے اس کے گھر تک پہنچا دیتے تھے؟ آج کہیں مرغی گھر سے باہر چلی جائے تو محلے والے یا راہ گیر پکڑ کر لےجاتے ہیں؟ اس سے فرق آپ خود سمجھ لیجئے۔ وجہ میں بتاتا ہوں کہ یہ اتنا بڑا انقلاب کیسے بر پاہوگیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت لوگ اللہ سبحانہ تعالیٰ سے بہت ڈرتے تھے۔ انسانیت نے اپنے پیر پر خود کلہاڑی ماری کہ پچھلی صدی سے خدا کا تصور دلوں سے کھرچ کھرچ کرنکالا اور نئی نسل برین واش شدہ تیار کرلی جیسے کہ آجکل ہر جنس ہائی بریڈ کی شکل میں ہے ۔ اس کے لئیے کمیونزم۔ سوشیل ازم، کیپٹل ازم اور سیکولر ازم سب یکساں ذمے دار ہیں۔ کہ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ معاشرہ سزا اور جزا کے تصور سے بے خوف ہوکر جوکہ حضرت آدم ؑ سے چلا آرہا تھا کیاظلم ڈھا ئے گا؟ اگر وہ یہ سوچ لیتے تو کبھی ایسی غلطی نہ کر تے اور نہ ہی اس حال کو پہنچتے؟ کیونکہ خوفِ خدا وہ خوف تھا جس سے معاشرہ تشکیل ہوکر اچھے برے کی تمیز سکھاتا تھا۔ جب اس کا خوف ہی ختم ہوگیا تو اب یہ پوزیشن ہے کہ قانون نافذ کرنے والے بیڈ روم کا احترام کرنے کی وجہ سے اس میں داخل نہیں ہوسکتے ہیں اور اکیلے میں نگرانی کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ اللہ کا تصور تھا جو برائیوں سے اکیلے میں بھی روکتا تھا۔ نتیجہ ہوا کہ جس کے ایک زمانے میں بڑے چرچے تھے سب سے پہلے وہی نظام یعنی کمیونزم ناکام ہوا۔ اور دوسرے بھی انشا ء اللہ جلد ہی اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ایک صدی اور انتظار کر لیجئے۔ کیونکہ اس کاایک عام دن ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔ کچھ رسمیں آج تک چلی آرہی ہیں جیسے کہ اس کی رضا کے لیئے نمازیں پڑھنا اور روزے رکھنا اپنے اوپر حلال چیزوں کو حرام کرلینا۔ مگر ان سے جو نتائج حاصل ہونا چاہیئے تھے وہ کہیں بھی نظر نہیں آرہے ہیں؟ مثلاً نماز کے بارے میں قرآن میں لکھا ہے کہ وہ تمام سماجی برائیوں سے دور رکھتی ہے۔ روزہ صبر سکھاتا ہے۔آج نہ نمازیں برائیوں سے دور رکھتی ہیں، نہ روزے سے صبر پیدا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ حرم شریف میں بھی لوگ آستین چڑھا کر آپس میں لڑ رہے ہوتے ہیں۔ جس کی حدود میں تشریف فرما ہو کر حضور ﷺنے پوچھا تھا کہ یہ کونسا دن ہے،یہ کونسی جگہ ہے سب نے فرمایا کہ اللہ اس کا رسولﷺ بہتر جانتے ہیں۔ تب حضورﷺ نے فرمایا کہ “ یہ دن جس طرح محترم ہے۔ جیسا یہ مقام ہے جہاں سب کچھ حرام ہے۔ اسی طرح تمہارے اوپر تمارے بھا ئی کی جان، مال اورعزت سب حرام ہیں۔اورمیں تم میں دو چیزیں کمزور چھوڑے جارہا ہوں ایک تماری خواتین اور دوسرے غلام ان کا خیال رکھنا“ ہمارے ہاں کیا ہورہا ہے۔ کہ یہ ہی دونوں سب سے زیادہ ظلم کا نشان بن رہے ہیں۔ جواب پھر وہی ہے کہ مسلم اکثریت کے دلوں میں بھی خوف خدا نہیں رہا جبکہ معاشرے میں کوئی کسی کو ٹوکنے والا نہی رہا۔ عبادات رسمی ہیں عبادتیں دل سے نہیں ہو رہی ہیں اگرہوتیں تو مسلمانوں کے کرتوت یہ نہ ہوتے، طرزعمل ایسا نہ ہوتا۔ یہ ہی بات اپنے ایک قول میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمائی ہے کہ“ ایمان کے بغیرعمل کچھ نہیں ہے اور عمل کے بغیر ایمان کچھ نہیں ہے“ جبکہ ہم جس صورت ِ حال سے اس وقت دوچار ہیں وہ اس کا الٹ ہے۔ جن کےکرنے کی تاکید سورہ الانعام کی آیات نمبر۔152 میں ہے وہاں پڑھ لیجئے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ کہ “یتیموں کی پرورش اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ کرو، ان کے مال جب وہ بلوغیت کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے سپرد کردو۔ تولو توپورا تولو، بولو تو ہمیشہ انصاف کا پاس کرو چاہیں وہ کسی قرابتدار کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ ہم کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔ اور اللہ سے جو عہد کیا ہے وہ پورا کرو یہ وہ باتیں ہیں جن کا حکم اللہ تمہیں دے رہا ہے۔ تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ اور یہ کہ میری سیدھی راہ یہ ہی ہے۔ دیکھو کہں تم دوسروں کی راہ پر نہ چل پڑنا ورنہ وہ تمہیں گمراہ کردینگے۔ تمہیں جناب ِباری تعالیٰ یہ تاکیدی حکم دے رہے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ“۔آپ پورا قرآن پڑھ جا ئیے بات ہمیشہ ختم ہوتی ہے تقوے پر اگر کسی عمل سے تقویٰ حاصل نہیں ہورہا ہے؟ تو عمل میں تو خامی ہو نہیںسکتی کیونکہ وہ اللہ کا فرمان ہے؟ البتہ عمل کرنے والےمیں کوئی کمی ہے جبھی وہ مقصد حاصل نہیں ہورہاجو ہر مسلمان کی منزل ہے۔ اس کا حل وہ نہیں ہے جو کہ محترم وزیر اعظمِ پاکستان تجویز فرما رہے ہیں۔ کیونکہ صرف سخت سزائیں بھی اس کا حل نہیں ہیں اس لیئے کہ پہلے ہی سے وہ اسلام میں موجود ہیں اور وہ بھی سرِ عام شادی شدہ زانی کو سب کے سامنے پتھر مارنا جب تک کے وہ مر نہ جا ئے۔ اور غیر شادی کو بھی سرِ عام سو ١٠٠ کوڑے مارنا ہیں اور سزا دیتے ہوئے رعایت نہیں کرنا ہے۔ چونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ دانا اور بینا ہے لہذا یہ بات اس کے علم ہے کہ غیر شادی شدہ سے جوانی میں غلطی کا امکان ہے۔ لہذا اس کی سزا تھوڑی ہلکی رکھی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہاں حدود آرڈیننس کی شکل میں یہ سزا تو موجود ہے مگر اس پر عمل نہیں ہوتا؟ کیوں نہیں ہوتا؟ اس لیئے کہ ہمارے یہاں ووٹ سے لیکر اور سب کو عزت دینے کا رواج ہے نعرے آپ نےبھی سنے ہونگے؟ مگر دین کو عزت دینے کا رواج نہیں ہے، جو اسلام کی اَ ساس ہے۔ لہذا ہم جب وہاں تھے تو حدود آرڈیننس کو پولیس صرف ملزموں کو بلیک میل کرنے کے لیئے استعمال کرتی تھی۔ اگر کوئی اس قسم کے مقدمے میں پھنس جا تا تو وہ ایف آئی آر کاٹنے سے پہلے یہ پوچھتی تھی کہ اگر اتنے پیسے دو تو ہم بر ٹش قانون کے مطابق ایف آئی آر کاٹیں، ورنہ حدود آرڈیننس کے تحت کا ٹیں گے سنا ہے کہ اس سے ان کی کچھ آمدنی بڑھ جاتی تھی؟ تمام مسائل کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اولیت دینے کا رواج ختم ہو چکا ہے۔ اسے دوبارہ رائج کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس سے اللہ سبحانہ تعالیٰ کاخوف بحال ہوجا ئے گا۔ تو تمام مسائل خود بخود حل ہو جا ئیں گے اس لیئے کہ اسکا قانون لاگو ہوگا اور سب اسےپڑھنے کی کوشش بھی کریں گے کہ اس میں کیا لکھا ہے اور دنیاوی زندگی میں حضورﷺ کا طریقہ کار کیا تھا؟ لہذا جو باپ بن چکے ہیں وہ اپنے باپ کی عزت کریں گے تو بیٹے ان کی عزت کریں گے۔کیونکہ قرآن میں اللہ اور رسول ﷺکی عزت کے بعد والدین کی عزت کا حکم ہے۔ اولاد کو کچھ پڑھانے اور سمجھا نے کی ضرورت نہیں ہوگی؟ کیونکہ بچے ہمیشہ ما ں باپ کی نقل کرتے ہیں۔ پھر وہ سب کے حقوق جان جا ئیں گے۔ اور اس پر عمل کرنے لگیں گے۔ تمام مسا ئل کا حل یہ ہی ہے کہ دلوں میں خوفِ خدا واپس لا یا جا ئے۔ اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے۔ اور یہ کام ایک دن میں یا پانچ سالوں میں ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لئے ایک مدت درکار ہوگی۔ اللہ تعالیٰ وہاں کے حکمرانو ں اور عوام دونوں کو عقل اور توفیق عطا فرما ئے۔ (آمین) تاکہ یہ روز روز آنے والے عذاب بھی ٹل جا ئیں اور مصائب بھی ختم ہوں۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.