<p class="has-blue-color has-white-background-color has-text-color has-background" value="<amp-fit-text layout="fixed-height" min-font-size="6" max-font-size="72" height="80">ایک روزحضور ﷺ نے فرمایا کہ“ اس سے زیادہ بد نصیب کون ہوگا جو اپنے ماں باپ کو برا بھلا کہے“ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ ایسا کون ہوسکتا! تو فرما یا کہ جو دوسروں کے ماں باپ کو برا بھلا کہے اور دوسرے اس کے جواب میں اس کے ماں باپ کو برا بھلا کہیں “دوسرے قرآن میں ایک آیت یہ بھی ہے کہ“ تم دوسروں کے معبودوں کو بر ا مت کہو ورنہ وہ تمہارے معبود کو برا کہیں گے “ چونکہ اسلام نے ہمیں کہیں بھی بغیر رہنما ئی کے نہیں چھوڑا ہے یہ ہمارے علم میں ہونا چاہیئے لیکن پھر بھی ہم لوگوں کے اشتعال دلا نے پر جلدی مشتعل ہوجا تے ہیں؟ اور اپنے ہوش و ہواس کھو بیٹھتے ہیں۔ جبکہ ہمارے پاس صبر کی شکل میں وہ ہتھیارہے کہ ہر فعل کے مقابلے میں صبر کو ہی تر جیح دی گئی ہے۔ اور ا للہ سبحانہ تعالیٰ نے قر آن میں یہ فرما کر اس پر بہت زیادہ زو ردیا ہے کہ جس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ “ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ “<br>اور ہر معاملے میں یہ بھی فرما دیا ہے کہ بدلا لینے والے سے معاف کرنے والا افضل ہے اور یہ کہ معاف کرو تاکہ معاف کیئے جاؤ۔ لیکن نہ قرآن کو ہم کھول کر دیکھتے ہیں نہ حضور ﷺ کے اسو ہ حسنہ کو سامنے رکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم ہر وقت مار نے اورمرنے پر تیار رہتے ہیں دوسری طرف زر پرستی کی پوری مشینری ہمیں شدت پسند ثابت کرنے پر لگی ہوئی ہے۔۔ اس لئے ہم آسانی سے مفاد پرستوں کا ہمیشہ تر نوالا بن جاتے ہیں اور زیادہ تر اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ کبھی اپنی ہی املاک کو آگ لگا کر کبھی توڑ پھوڑ کرکے۔ جبکہ کسی کی قیادت کے پیچھے چلنے سے پہلے یہ تک نہیں سوچتے کہ اس قائد کے مقا صد کیا ہیں ؟جبکہ ہمیں بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم ہے برا ئی میں نہیں؟ وہ فتنہ پردازی کر کے اپنا الوسیدھا کرتے ہیں۔ جبکہ وہ بھی اکثر دوسروں کے آلہ کار ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ بھی قرآن ہی کہہ رہا کہ “ فتنہ “ قتل سے بد تر ہے اور فتنے کی تعریف یہ ہے کہ جہاں امن امان ہو وہاں بد امنی پیدا کی جا ئے۔ چونکہ اسلام دین ِ فطرت ہے لہذا ایک جیسا حکم بھی ہر جگہ کے لیے نہیں ہے۔ مسلمان مغلوب ہیں تو ذمہ داریا ں اور ہیں اور غالب ہیں تو ذمہ داریاں اور ہیں۔ اس لیئے ہمیشہ کے لئیے ایک جیسا حکم نہیں دیا گیا ہے اور موقعہ محل دیکھ کر ہر ایک کو خود فیصلہ کرنا ہے۔ کیونکہ جب حضور ﷺ مکہ معظمہ میں تشریف فرما تھے۔ توبات کچھ اور تھی مدینہ منورہ میں کچھ اور تھی۔ وہاں ایسا وقت بھی گذرا ہے کہ انﷺ کے سامنے ان کے جانثار شہید ہو رہے ہیں مگر حضور ﷺ یہ فرما کر انہیں تسلی دے رہے ہیں کہ صبر کرواس کے بدلے میں تمہیں جنت ملے گی۔ ہمارے سامنے ان تین مجاہدوں میں سے دو کی شہادت کی مثال موجود ہے جس میں پہلی خاتون شہید ہوئیں جن کا نام حضرت سمیہ ؓ تھا جبکہ ان کے شوہر اور صاحبزادے دیکھتے رہے مگر انہوں نے مدافعت نہیں کی کیونکہ اس وقت تک مدافعت کا حکم نہیں تھا اور اللہ اور رسول ﷺ کے حکم کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ یہ خاندان ابو جہل کا غلام تھا جرم ان کا یہ تھا کہ انہوں نے دین اسلام قبول کرلیا تھا ابو جہل ان کے منہِ مبارک سے اسلام سے انحراف سننا چا ہتے جبکہ وہ آیت نازل ہوچکی تھی جس میں حکم تھا کہ اگر مجبور ہو جاؤ تو جان بچانے کے لئیے غلط بات بھی کہہ سکتے ہو۔ ماں باپ نے وہ بات نہیں کہی حالانکہ صورتِ حال یہ تھی کہ حضرت سمیہؓ کا ایک پیر ایک اونٹ کے پیر کے ساتھ رسی سے بندھا ہوا تھااور دوسرا پیر دوسرے اونٹ کے پیر کے ساتھ بندھا ہوا تھا اور دونوں کو مختلف سمتوں میں جانا تھا ساربان صرف حکم کے منتظر تھے۔ مگر انہوں نے بات نہیں مانی اور جان دینا پسند فرما ئی نتیجہ یہ کہ ان کے اس طرح دو ٹکڑے کردیئے گئے۔ پھر والد حضرت عمار ؓ بھی اسی مرحلے سے گزرے وہ بھی شہادت پاگئے۔ اب بیٹے کی باری تھی جن کا نام تھاحضرت یاسر بن عمار ؓ۔ انہوں نے وہ ا لفاظ کہہ دیئے اور جان بچا لی۔ پھر وہ حضورﷺ کے سامنے پیش ہوئے تو حضور ﷺ نے پوچھا کہ تمہارے دل کی اسوقت کیا حالت تھی؟ جواب میں ارشاد فرمایا کہ میرے دل میں تو ایمان تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا پھر خیر ہے؟ اور تاریخ گواہ ہے کے ان کے رتبے میں بھی کوئی فرق نہیں پڑا وہ جلیل القدر صحابہ میں شامل رہے۔ اور حضور ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق وہ جنگ ِ صفین میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے باغیوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ان کا یہ واقعہ اس طرح ہے کہ جب مسجد نبوی ﷺ بن رہی اور حضور ﷺ خود بھی اس کی تعمیر میں حصہ لے رہے تھے۔ تو وہ یہ کہتے ہوئے آئے کہ حضور ﷺ انہوں نے میرے اوپر بہت سی اینٹیں لا د دی ہیں یہ مجھے اس طرح مارڈالنا چا ہتے ہیں۔ تو حضور ﷺ فرمایا تم یہاں نہیں مروگے بلکہ باغیوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوگے جبکہ علیؓ حق پر ہونگے۔یہ میں یہ چند مثالیں بیان کرنے بعد فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ جبکہ ہدا یت کے لئیے ہمارے پاس سب کچھ موجود ہے تو ہم خود فیصلہ کیوں نہیں کرتے پاتے بار بارالجھ کیوں جا تے ہیں اور غلط فیصلے کرنے کے باربار کیوں مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ اب ہماری پوزیشن بھڑوں کے چھتے کی طرح ہو گئی ہے۔ کہ کسی نے ایک ڈھیلا پھینکا اور سب کانٹنے کو دوڑ پڑیں۔ جبکہ یہ پالیسی وہاں چل سکتی ہے جہاں غالب ہوں لیکن وہاں نہیں جہاں مغلوب ہیں وہاں خود ہم کو مقامی قْوانین کااحترام کرنا چاہیئے جیسا کہ حکم ہے اور بطور سفیر اسلام اسی اخلاق کا مظا ہرہ کرنا چا ہیئے جوکہ مسلمانوں کا طرہ امتیاز تھا۔ اللہ ہم سب کو عقل دے(آمین)ایک روزحضور ﷺ نے فرمایا کہ“ اس سے زیادہ بد نصیب کون ہوگا جو اپنے ماں باپ کو برا بھلا کہے“ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ ایسا کون ہوسکتا! تو فرما یا کہ جو دوسروں کے ماں باپ کو برا بھلا کہے اور دوسرے اس کے جواب میں اس کے ماں باپ کو برا بھلا کہیں “دوسرے قرآن میں ایک آیت یہ بھی ہے کہ“ تم دوسروں کے معبودوں کو بر ا مت کہو ورنہ وہ تمہارے معبود کو برا کہیں گے “ چونکہ اسلام نے ہمیں کہیں بھی بغیر رہنما ئی کے نہیں چھوڑا ہے یہ ہمارے علم میں ہونا چاہیئے لیکن پھر بھی ہم لوگوں کے اشتعال دلا نے پر جلدی مشتعل ہوجا تے ہیں؟ اور اپنے ہوش و ہواس کھو بیٹھتے ہیں۔ جبکہ ہمارے پاس صبر کی شکل میں وہ ہتھیارہے کہ ہر فعل کے مقابلے میں صبر کو ہی تر جیح دی گئی ہے۔ اور ا للہ سبحانہ تعالیٰ نے قر آن میں یہ فرما کر اس پر بہت زیادہ زو ردیا ہے کہ جس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ “ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ “
اور ہر معاملے میں یہ بھی فرما دیا ہے کہ بدلا لینے والے سے معاف کرنے والا افضل ہے اور یہ کہ معاف کرو تاکہ معاف کیئے جاؤ۔ لیکن نہ قرآن کو ہم کھول کر دیکھتے ہیں نہ حضور ﷺ کے اسو ہ حسنہ کو سامنے رکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم ہر وقت مار نے اورمرنے پر تیار رہتے ہیں دوسری طرف زر پرستی کی پوری مشینری ہمیں شدت پسند ثابت کرنے پر لگی ہوئی ہے۔۔ اس لئے ہم آسانی سے مفاد پرستوں کا ہمیشہ تر نوالا بن جاتے ہیں اور زیادہ تر اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ کبھی اپنی ہی املاک کو آگ لگا کر کبھی توڑ پھوڑ کرکے۔ جبکہ کسی کی قیادت کے پیچھے چلنے سے پہلے یہ تک نہیں سوچتے کہ اس قائد کے مقا صد کیا ہیں ؟جبکہ ہمیں بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم ہے برا ئی میں نہیں؟ وہ فتنہ پردازی کر کے اپنا الوسیدھا کرتے ہیں۔ جبکہ وہ بھی اکثر دوسروں کے آلہ کار ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ بھی قرآن ہی کہہ رہا کہ “ فتنہ “ قتل سے بد تر ہے اور فتنے کی تعریف یہ ہے کہ جہاں امن امان ہو وہاں بد امنی پیدا کی جا ئے۔ چونکہ اسلام دین ِ فطرت ہے لہذا ایک جیسا حکم بھی ہر جگہ کے لیے نہیں ہے۔ مسلمان مغلوب ہیں تو ذمہ داریا ں اور ہیں اور غالب ہیں تو ذمہ داریاں اور ہیں۔ اس لیئے ہمیشہ کے لئیے ایک جیسا حکم نہیں دیا گیا ہے اور موقعہ محل دیکھ کر ہر ایک کو خود فیصلہ کرنا ہے۔ کیونکہ جب حضور ﷺ مکہ معظمہ میں تشریف فرما تھے۔ توبات کچھ اور تھی مدینہ منورہ میں کچھ اور تھی۔ وہاں ایسا وقت بھی گذرا ہے کہ انﷺ کے سامنے ان کے جانثار شہید ہو رہے ہیں مگر حضور ﷺ یہ فرما کر انہیں تسلی دے رہے ہیں کہ صبر کرواس کے بدلے میں تمہیں جنت ملے گی۔ ہمارے سامنے ان تین مجاہدوں میں سے دو کی شہادت کی مثال موجود ہے جس میں پہلی خاتون شہید ہوئیں جن کا نام حضرت سمیہ ؓ تھا جبکہ ان کے شوہر اور صاحبزادے دیکھتے رہے مگر انہوں نے مدافعت نہیں کی کیونکہ اس وقت تک مدافعت کا حکم نہیں تھا اور اللہ اور رسول ﷺ کے حکم کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ یہ خاندان ابو جہل کا غلام تھا جرم ان کا یہ تھا کہ انہوں نے دین اسلام قبول کرلیا تھا ابو جہل ان کے منہِ مبارک سے اسلام سے انحراف سننا چا ہتے جبکہ وہ آیت نازل ہوچکی تھی جس میں حکم تھا کہ اگر مجبور ہو جاؤ تو جان بچانے کے لئیے غلط بات بھی کہہ سکتے ہو۔ ماں باپ نے وہ بات نہیں کہی حالانکہ صورتِ حال یہ تھی کہ حضرت سمیہؓ کا ایک پیر ایک اونٹ کے پیر کے ساتھ رسی سے بندھا ہوا تھااور دوسرا پیر دوسرے اونٹ کے پیر کے ساتھ بندھا ہوا تھا اور دونوں کو مختلف سمتوں میں جانا تھا ساربان صرف حکم کے منتظر تھے۔ مگر انہوں نے بات نہیں مانی اور جان دینا پسند فرما ئی نتیجہ یہ کہ ان کے اس طرح دو ٹکڑے کردیئے گئے۔ پھر والد حضرت عمار ؓ بھی اسی مرحلے سے گزرے وہ بھی شہادت پاگئے۔ اب بیٹے کی باری تھی جن کا نام تھاحضرت یاسر بن عمار ؓ۔ انہوں نے وہ ا لفاظ کہہ دیئے اور جان بچا لی۔ پھر وہ حضورﷺ کے سامنے پیش ہوئے تو حضور ﷺ نے پوچھا کہ تمہارے دل کی اسوقت کیا حالت تھی؟ جواب میں ارشاد فرمایا کہ میرے دل میں تو ایمان تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا پھر خیر ہے؟ اور تاریخ گواہ ہے کے ان کے رتبے میں بھی کوئی فرق نہیں پڑا وہ جلیل القدر صحابہ میں شامل رہے۔ اور حضور ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق وہ جنگ ِ صفین میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے باغیوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ان کا یہ واقعہ اس طرح ہے کہ جب مسجد نبوی ﷺ بن رہی اور حضور ﷺ خود بھی اس کی تعمیر میں حصہ لے رہے تھے۔ تو وہ یہ کہتے ہوئے آئے کہ حضور ﷺ انہوں نے میرے اوپر بہت سی اینٹیں لا د دی ہیں یہ مجھے اس طرح مارڈالنا چا ہتے ہیں۔ تو حضور ﷺ فرمایا تم یہاں نہیں مروگے بلکہ باغیوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوگے جبکہ علیؓ حق پر ہونگے۔یہ میں یہ چند مثالیں بیان کرنے بعد فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ جبکہ ہدا یت کے لئیے ہمارے پاس سب کچھ موجود ہے تو ہم خود فیصلہ کیوں نہیں کرتے پاتے بار بارالجھ کیوں جا تے ہیں اور غلط فیصلے کرنے کے باربار کیوں مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ اب ہماری پوزیشن بھڑوں کے چھتے کی طرح ہو گئی ہے۔ کہ کسی نے ایک ڈھیلا پھینکا اور سب کانٹنے کو دوڑ پڑیں۔ جبکہ یہ پالیسی وہاں چل سکتی ہے جہاں غالب ہوں لیکن وہاں نہیں جہاں مغلوب ہیں وہاں خود ہم کو مقامی قْوانین کااحترام کرنا چاہیئے جیسا کہ حکم ہے اور بطور سفیر اسلام اسی اخلاق کا مظا ہرہ کرنا چا ہیئے جوکہ مسلمانوں کا طرہ امتیاز تھا۔ اللہ ہم سب کو عقل دے(آمین)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے