ہم گزشتہ قسط میں یہاں تک پہنچے تھے کہ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے صاحبزادے حضرت اسمعٰیل(ع)نے ملکر حرم شریف تعمیر فرمایا او ر اس طرح حضور ﷺ کو حضرت
ا برا ہیم ؑ کی دعا بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے بعد ان (ص) کے بزرگوں کے بارے میں تاریخ خاموش ہے اس لئیے کہ انسانیت ابھی زیر تعمیر تھی بہت سے نبیوں ؑ اورآخر میں نبی ﷺ آخر الزماں کو تشریف لانا تھا۔ مگر حضور ﷺ کےپورے خاندان کو دنیا میں ہمیشہ بہت ہی عزت کی نگا سے دیکھا جاتا تھا۔ کیونکہ وہ مکہ معظمہ کے رہنے والے اورکعبے کے پہلے متولی تھے، جہاں حج کرنے ساری دنیا آتی تھی۔ اوراہلِ کعبہ سے دنیا میں کہیں کوئی تعرض نہیں کرتا تھا نہ کوئی مال ِ تجارت پر محصول وغیرہ وصول کرتا تھا جب کہ وہ قافلے کے ساتھ دور دور تک تجارت کے لئیے تشریف لے جاتے تھے۔کیونکہ انہیں بقیہ دنیا والے جا نتے تھےاور یہ سلسلہ حضرت اسمعٰیل علیہ السلام سے لیکر حضرت عبد المطلب تک جو کہ حضور ﷺکے دادا تھے جاری رہا اور کسی نے کبھی کوئی تعرض نہیں کیا۔ جبکہ حضرت ابراہیم کی دعا کی بنا پر اس بے آب و گیاہ میدان پر اللہ سبحاہ تعالی کی رحمت کا یہ عالم تھاکہ کبھی وہاں کھانے پینے کی تنگی نہیں ہوئی۔ نہ صرف مکہ معظمہ کے باشندے سارے سال آرام سے کھاتے پیتے رہتےتھے ،بلکہ حجاج کوبھی جو کہ پورے سال حج اور عمرے کے لئیے آتے رہتے تھے انہوں نے انہیں بھی کبھی کمی محسوس نہیں ہونے دی ۔ تنگی کا سلسلہ جب سےشروع ہوا جبکہ وہاں کعبے میں بت رکھدیئے گئے۔ پھر حضرت ابو المطلب کے دور میں حبشہ میں ایک با دشاہ بر سراقتدار آیا تو تمام قبا ئل نے اپنے اپنے وفود بھیجے اہلِ مکہ نے بھی حضرت عبد المطلب کو بھیجا۔ وہ با دشاہ بہت سی پرانی کتابوں کا ماہر تھا جب اس نے ان کی تفصیلات پوچھیں کہ آپ کےبچے وغیرہ وغیرہ کتنے ہیں۔ تو حجرت عبد المطلب نے تفصیل بتا ئی تو اس نے بتا یا کہ آپ کے نسب میں سے نبی ﷺ آخر زماں پیدا ہونگے ان کا خیال رکھنا اور حفاظت کرنا۔نیز ان کا بہت ہی اکرام کیا یعنی تحائف وغیرہ سے نوازا جسکی شہرت مدینہ منورہ تک پہنچ گئی جبکہ ابھی وہ وہاں واپسی میں پہنچے بھی نہ تھے۔؟ یہ پہلا دھچکہ تھا ان لوگوں کے لئیے جو سمجھ رہے تھے جیسے کہ سارے انبیاء کرام(ع) ابتک بنی اسرا ئیل میں سے آئے تھے۔ نبی ﷺ آخر الزماں بھی انہیں میں سے ہونگے۔ ان میں دو قبیلے یمنی اوس اور خزرج تھے اور نو قبیلے یہو دیوں کے تھے جن میں دو مدینہ منورہ میں آباد تھے اور باقی سات قلعوں میں مدینہ کے اطراف میں یہودی آباد تھے جنکا مجموعہ خیبر کے نام مشہور ہے۔ خیبر پہلا قلعہ تھا جو اس طرف جاتے ہوئے راستے میں پڑتا تھا اوران کے خیال میں وہ نا قابلِ تسخیربھی تھا دوسرے چھ کے اپنے اپنے نام تھے۔اور یہ سب نبی ﷺ آخر زماں کے انتظار میں یہاں آکر آبا دہوئے تھے۔ان میں سے اوس اور خزرج کے ساتھ مکہ معظمہ والوں کی رشتے داری بھی تھی۔ حضرت عبد المطلب واپس ہوتے ہوئے جب مدینہ منورہ پہنچے جوکہ اس وقت یثرب کہلاتا تھا اوراپنےرشتے داروں کے پاس ٹھہرے تو حضورﷺ کی شہرت ان سے پہلے وہاں پہنچ چکی تھی۔ غالباً وہ با دشاہ زیادہ دن نہیں چل سکا اس کے بعد حبشہ میں دوسرا با دشاہ آگیا اور اس نے یمن پر ایک کے بجا ئے دو سردار اپنی طرف سے مقرر کیئے ان میں ابرا ہہ ہوشیار تھا۔ اس نے اپنے مخالف کو شکت دیدی اورپورے یمن پر قبضہ کرلیا۔ جبکہ حبشہ کے بادشاہ کو خوش کرنے کے لئیے اس نے اس کے نام سے ایک عبادت گاہ یمن میں بنائی اور کوشش کی کہ مکہ کے بجائے لوگ وہاں حج کے لیئے آئیں!اس طرح پہلی دفعہ اہل ِ یمن اور اہل مکّہ میں ِ مخاصمت پیدا ہوئی۔ اسی دوران کسی نے وہاں غلاظت کردی اس طرح ابراہہ کا شبہ اہل ِ کعبہ کی طرف گیا۔ اور اس نے پہلی دفعہ ہاتھیوں کی فوج کے ساتھ حملہ کر دیا راستے میں کئی قبا ئل نے مدافعت کی مگر وہ ناکام رہے تو انہیں میں سے ایک قبیلہ نے رہنما ئی کی اور ابرا ہہ کو وہاں تک پہنچا دیا۔ اس نے پہلی چھیڑخانی یہ کی کہ حضرت عبد المطلب کے دو سو اونٹ جو چرا گاہ میں چر رہے تھے ان پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے ان دوسو اونٹوں کو ذریعہ بنا کر اس کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس کے دربار میں بے خوف و خطر تشریف لے گئے۔ ابراہہ ان سے بہت مرعوب ہوا۔ بہت ہی عزت اور احترام سے اپنے پاس بٹھایا، پھر آنے کا سبب پوچھا کیونکہ وہ یہ سمجھ رہا تھا یہ مکہ معظمہ کو سر نگوں کرنے آئے ہونگے،درمیان میں بسنے والے قبا ئل کا حشر دیکھ کر! مگر انہوں نے فرمایا کہ تمہا رے آدمیوں نے میرے دو سو اونٹ پکڑ لئیے ہیں میں وہ واپس لینے آیا ہوں۔ اس نے کہا کہ میں نے تو آپ کو بہت ہی مدبر سمجھا تھا اور اپنی رعیت خیر کاخواہ بھی۔ لیکن آپ نے تو بہت چھوٹی سی فرما ئش کی! انہوں نے جواب دیا کہ میں ان اونٹوں کا مالک ہو ں اور ایک اچھے مالک کی طرح اپنے اونٹ مانگنے آیا ہوں۔ رہا تیرا اور حرم کا معاملہ اس کا مالک جو ہے وہ خود اس کا دفاع کرے گا؟ تو اس نے بڑی رعونت سے کہا کہ میں دیکھونگا کہ میرے ہاتھ سے کعبہ کو کون بچا سکتاہے انہوں نے جواب میں فرمایا یہ تیرا اس کا معاملہ ہے وہ جانے اورتو جان۔ اور اس نے ان کے دوسو اونٹ واپس کردیئے اور وہ لیکر واپس چلے آئے۔مکہ آکر انہوں نے حکم دیا وہاں کے تمام با شندوں کو کہ اپنے گھر خالی کرکے پہاڑوں پر چلے جائیں اس لئیے کہ ہمارے پاس اتنی فوج نہیں ہے کہ ابراہہ کا مقابلہ کر سکیں؟ یہ ان کے دادا کے توکل کا عالم تھا؟ اس کے بعد کی کہانی سورہ الفیل کی تفاسیر میں پڑھ لیجئے۔ اس سے زیادہ تفصیل آپ کو کہیں اور نہیں ملے گی۔(باقی آئندہ)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے