ان کوآئینہ دکھا یا تو برا مان گئے۔۔۔ شمس جیلانی


یہ اللہ سبحانہ تعالیٰ بظاہر اپنے نبی ﷺ سے خطاب فرما رہے ہیں کہ “ اے میرے پیاری نبی ﷺ! آپ کفار کے مال اور دولت سے متاثر نہ ہوں وہ بھی ان کی سزا کو بڑھانے کاذریہ ہے (سورہ توبہ آیت نمبر 55)۔ یہ بھی ایک طرزِ خطابت ہے کبھی مقر ر براہ رست خطاب کرتا ہے، تو کبھی کسی پر رکھ کر بات کہتا ہے۔ لہذا اللہ تعالی ٰ جو کہ قادر الکلام بھی ہے۔ وہ یہاں ہم سے جیسے حوس ِ زر میں مبتلا بندوں سے مخاطب ہے اورمنع فرما رہا کہ” دولت کی اندھا دھند بڑھوتری اللہ کے یہاں کامیابی کی دلیل نہیں ہے” کیونکہ نبی ﷺ تودنیا کو ترک کرچکے تھے جب اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انہیں ﷺ دو میں سے ایک چیزکو قبول کرنے کا اختیار دیا دیا تھا اور حضور ﷺ نے غریبی کوپسند فرما لیا تھا۔ورنہ وہ چاہتے تو حضرت سلیمان ؑ کی طرح ایسی کوئی چیز مانگ لیتے جو ان سے پہلے نہ کسی کو حاصل ہوئی تھی نہ بعد میں ہوتی جو انﷺ کی اکملیت کا تقاضہ تھا۔ مگرانہیں ﷺاپنی صفت قاسمﷺ ہونا پسند تھی جس میں اپنا ہاتھ کھلا رکھنا اور دوسروں کو بے دریغ عطا کرنا انکے کار ِ نبوتﷺ میں شامل تھا۔ جس پر وہ ہمیشہ یہ کہہ فخر فرما یا کرتے تھے کہ ” اللہ دینے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں ” اگر آپ گہرائیوں میں چلے جا ئیں تو اگروہ واقعی مومن ہے تو اس میں آپ کو ایک ہی صفت نظر آئے گی کہ” اپنے اوپردوسروں کو ترجیح دنیا” جبکہ مٹھی کو بند کرنا وہ لعنت ہے جسے بخل کہتے ہیں اور اسلام میں اس کی کوئی گنجا ئش نہیں ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ دنیا میں آجکل دوسری چیزیں جس طرح نقلی ملتی ہیں اسی طرح تمام اسلامی ملکوں میں اصلی اسلام ہی نا پید ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کا پھیلاؤ رک چکا ہے۔ یہ ہے وہ بیماری جس میں کہ آج کی مسلم اکثریت مبتلا ہے۔ کیونکہ ہم سب ملکر ایسے کام کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس دور میں کرونا کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بطور عذاب بھیجا ہوا ہے۔ بجا ئے اس کے ہم اس سے ڈر جا تے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ سے توبہ کرلیتے تویقیناً ہماری مشکل آسان ہو جاتی۔ مگر عذاب کوبھی ہم نے کمانے کاایک ذریعہ بنا لیا۔ بجا ئے لوگوں کوسہولتیں دینے کے ہر چیز مہنگی کردی ہر چیز کی قلت پیدا کردی۔ دوائیں جو انسانی زندگی کو پچا سکتی ہیں وہ آسمان سے باتیں کرنے لگیں، جب کے وہ پہلے سے ہی جعلی تھیں۔؟ یہ کون کر رہا ہے جواب آپ پر چھوڑتا ہوں۔ جن ملکوں میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 98فیصدسے زیادہ ہے وہاں اور کون کر سکتا ہے؟ آپ خود سوچئے سوائے مسلمانوں کے۔ جبکہ ذخیرہ اندوزی منامنع خوری ، چور بازاری حتیٰ کی ہر برا کام کرنا اسلام منع ہے مگر وہ اتنا ہی زیادہ ہورہا ہے۔ حتیٰ کہ جو ملک ہم نے کبھی اللہ کے نام پر مانگا تھا!کہ اللہ!اگر تو ہمیں ایک خطہ زمین عطا فرما دے۔تو اس میں ہم دوبارہ وہ نظام نافذکر کےتیرا نام بلند کریں گے۔ لیکن آج جائزہ لیں تو وہی سب سے زیادہ بگڑا ہوا ہے۔ علماء کی طرف لوگوں کی ہر دور میں نگاہیں اٹھتی رہی ہیں اور انہوں نے ہمیشہ دین کو بچا یا ہے جس سے تاریخ بھری ہوئی ہے۔ مگر وہ گردن اٹھاکر چلنے والے وزنی مولوی نہیں تھے، بلکہ وہ سرجھکاکے انکساری سے چلنے والے مولوی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ رہنمائی فرمائی مگر آج وہ بھی ناپید ہیں۔ جو اکڑکر چلنے والےمولوی ہیں وہ اس کوشش میں ہیں کہ برے وقت سے فائدہ اٹھا کر کسی طرح وہ حکومت حاصل کر لیں۔ رہی حکومتِ وقت وہ بھی نہلے پردہلا چل رہی ہے۔ وہ اگر انہیں جلسے کرنے دیتی اور جواب میں خود نہ کرتی،توعوام کو جلد ہی احساس ہو جاتا کہ ہمارا دوست کون ہے اوردشمن کون ہے؟ وہ جو بڑے بڑے جلوس نکال کر عوام میں کرونا پھیلا کر ان کو موت کے منہ میں ڈھکیل رہے ہیں یا وہ حکومت جوکہ صبر کررہی ہے اور انکی مکاریوں کو برداشت کررہی ہے۔ اس سے یقیناً فتح حکومت کی ہوتی کیونکہ پاکستان میں جہالت کا تناسب اب وہ نہیں ہے جو کہ پہلے تھا اور نہ ہی میڈیا کی وہ حالت ہے۔ مگر افسوس ہے حکومت خود اس جنگ میں شامل ہو کر ان کی سہولت کار بن گئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عوام کے آنسو پوچھے کون۔ یہ ہے وہ مسئلہ جو پاکستان کے عوام کو درپیش ہے۔ وہ ملک جو ہندوستانیوں مسلمانوں نے اس لئیے بنا یا تھا۔ ہم نہ سہی مگر ہمارےبھائی تو آرام سے ہونگے؟ اب نہ بھائی آرام سے ہیں نہ ہندوستان کے مسلما ن آرام سے ہیں۔ دونوں کے مستقبل پہلے بھی مشکوک تھے اب بھی مشکوک ہیں۔ ہاں یہ فرق ضرور آیا کہ سرمایہ داروں کی تعداد اب پاکستان میں بے شمار ہو گئی جبکہ اس وقت ایک اصفہانی بنگال میں تھے اور حبیب بنک والے بمبئی میں تھے، اللہ اللہ خیر صلا! پہلی مرتبہ جنرل ایوب خان کے دور میں لوگ اکیس نو دولتیوں کاگلہ کرتے نظر آئے، جبکہ اب ماشا ء اللہ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔جبکہ ہندوستان کے مسلمانو ں میں سرمایہ دار نہ بڑھے؟مگر ان کی گنتی نہ بڑھنا یہ سوال ضرور پیدا کرتی ہے پاکستان میں یہ تعداد کیسے بڑھی اور کیونکر بڑھی جیسے بھی بڑھی ا چھی بات تھی کہ اس پر پاکستان کے باشندے شکر ادا کرتے۔ تاکہ وہ انہیں اور دیتا مگر وہ ناشکرے بن گئے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے کبھی پہلے بھی کسی ناشکری قوم کو نہیں نوازا ہے اورنہ آئندہ اس سے امید ہے اس لیے کہ وہ فرماتا ہے کہ میں اپنی سنت کبھی تبدیل کرتا۔ لہذا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ رحم فرما ئے اور پاکستان کے مسلمانو ں کوعقل دے کہ وہ سمجھیں کہ کس دور سے گزر رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ اور نہ سمجھے تو اس کے نتائج کیا مرتب ہونگے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.