دائیرہ در دائرہ۔۔۔ شمس جیلانی

لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ اپنے وسیع سیاسی تجربے کی بنا پر بتا ئیے کہ پاکستان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا،اور یہ تماشہ کیا ہورہا ہے۔ یہ طریقہ کیا ہے جو حکمراں کہہ رہے اور کر رہے ہیں؟ کہ ہم حزب اختلاف کو جلسے کرنے بھی نہیں دیں گے اوراسے روکیں گے بھی نہیں؟البتہ اگر وہ ہمارے احکامات کی خلاف کرے گی تو بعد میں اس کی رپورٹ درج ہو جا ئیگی، پھر کیا ہوگا جو اب وہی جو ہمیشہ سے ہوتاآرہا ہے ۔کہ ہر حکومت نے اپنے مخالفین کے خلاف مقدمات بنا ئے اور وہ فائیلیں دھول کھا کھا کر موٹی پہلوانوں جیسی یا پھر فارغ البال لوگوں جیسی ہر شعبہ میں ہوتی رہیں اور بس۔ یہ کھیل گزشتہ تہتر سال سے جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ آپ بھی انتظار کریں اور میں بھی انتظار کرتا ہوں۔ ہاں ایک نئی بات ضرور ہے کہ مسلم لیگ والوں کو مشرقی پاکستان آج کل بہت یاد آرہا ہے،ایک مسلم لیگی لیڈ رٹی وی پرکہہ رہے تھے ایسے تو الزام“ حسین شہید سہروردی“ مرحوم پر بھی لگا تھا؟ کیا عوام نے انہیں مجرم تسلیم کرلیاتھا، نہیں؟ اسی طرح الزام ہمارے معزز لیڈروں پر بھی لگ رہے ہیں۔ تو جواب یہ ہے کہ کہاں وہ اور کہاں یہ! اِن کا نام بھی اُن کے ساتھ لینا اُن کی توہین ہے۔ وہ وہ تھے جنہوں نے ساری زندگی قربانی دیتے ہوئے گزاری، جن کی وجہ سے مسلم لیگ،مسلم لیگ بنی، پھر پاکستان بنا! تو بجا ئے اس کہ اوروں کی طرح وہ عوام کو خدا حافظ کہہ کر پاکستان چلے آتے اور ہندوستان کے مسلمانوں کو وہاں بے یارو مدد گار مرنے کے لئے چھوڑ آتے ان کی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ وہ ان مسلمانو! کو جلتے ہوئے ہندوستان میں تنہا چھوڑ آئیں؟ جنہوں نے انہیں ووٹ دئیے تھے اور پاکستان آکر عیش کریں۔ جس کی انہیں پیش کش بھی قائد آ عظم کی طرف سے کی گئی تھی۔ لیکن انہوں نے وہیں رہنا پسند کیا۔ کیونکہ حسین شہید سہروردی نہرو کے پورے گھناؤنے منصوبے کے لیئے ایک چیلینج تھے۔ تب انہیں وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا گیا ان پر بے حساب انکم ٹیکس نکال دیا گیا،ان کی ساری جائیداد نیلام کر دی تو وہ برلا مندر دہلی میں گاندھی جی کے ساتھ رہنے لگے؟ پھر ناتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کے ساتھ انہیں بھی قتل کرنے کا منصوبہ بنا یا لیکن اللہ سبحانہ نے وہاں سے انہیں بچادیا، گاندھی جی بھی نہ رہے، جن کے ساتھ وہ امن کے لئے کام کر رہے تھے؟ تب بھی وہ وہاں سے نہ ہلے، چلنے پر مجبور جب ہوئے کہ ان کی لاکھوں کی آبا ئی جائداد جو کلکتہ میں تھی وہ بھی کوڑیوں میں نیلام کردی گئی اور یہ پابندی بھی لگا دی گئی کہ جو وہ بیرسٹری سے آئندہ کما ئیں گے وہ بھی بحق سرکار ضبط ہوتا رہے گا؟۔ تب وہ وہاں سے مجبوراًروانہ ہو ئے کیونکہ انڈیا میں وہ مسلمانوں کو تنہا چھوڑ نا نہیں چاہتے تھے جبکہ نہرو انہیں اپنی راہ میں کانٹا سمجھتے تھے۔ اور انہیں ہی کو نہیں کسی بھی مسلم لیگی لیڈر کو وہ وہا ں چلتا پھرتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ جن کی وجہ سے انہوں نے پاکستان کو ہندوستان سے الگ کیا تھا۔ تو وہ انہیں وہاں کیسے برداشت کرسکتے تھے جس شخص نے پاکستان بنا یا اور قرارداد پاکستان 1946 کامحرک بناجس میں پاکستانکا نام بھی تھا حدود اربعہ تھا اور قراداد پاس بھی منتخب مسلم لیگ پالیمانی پارٹی کی تھی۔ جبکہ انیس سو چالیس کی قرار داد میں جو کہ مولوی فضل الحق مرحوم نے پیش کی تھی اور مسلم لیگ کے جلسے میں پاس ہوئی تھے۔ اس میں کوئی تفصیل نہیں تھی ملک کا نام وغیرہ کچھ بھی نہیں تھا صرف مسلم اکثریت اور ہندو اکثریت کے صوبوں کا ذکر تھا۔ وہی شخص پاکستان میں اس حالت میں داخل ہوا کہ اس کے پاس رہنے کے لئیے اپنا مکان بھی نہیں تھااور بعد میں بنا بھی نہیں سکا جبکہ وہ پاکستان کا وزیر اعظم بھی رہا۔ کراچی کا لکھم ہاؤس جس میں وہ قیام پزیر تھے ان کی اکلوتی صاحبزادی بیگم اختر سلیمان کا مکان تھا جو کہ ہندوستان کی فیڈرل کورٹ کے پہلے مسلما ن جج سر محمد سلیمان مرحوم کی بہو اور ان کے صاحبزادے احمد سلیمان مرحوم کی بیوی تھیں۔ پہلے تو ان کے جہاز کو ڈھاکہ میں اتر نے ہی نہیں دیا گیا۔ پھر وہ کسی طرح ویسٹ پاکستان میں داخل ہوئے تو اسی کی دستور ساز اسمبلی میں، وہ واحد حزب اختلاف کے رکن تھے جنہیں قائد ملت اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہندوستان نے ہمارے پیچھے۔۔۔چھوڑ دیا ہے؟ جوکہ پاکستانی سیاسی زبان میں پہلی تبدیلی تھی۔ لیاقت علی خان بھی شہید ہوگئے بغیر دستور بنا ئے جو کہ قائد اعظم کی پہلی ترجیح تھی۔ مگر سہروردی صاحب نے اپنی کوششیں جاری رکھیں حتیٰ کہ وہ حزب اختلاف کے لیڈر بن گئے اور اس وقت وہ حزب اختلاف کے لیڈر تھے۔ جب چودھری محمد علی مرحوم نے سن 1956 ء میں پاکستا ن کو پہلا دستور بنا کر دیا اور پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان بنا؟ یہ جب ممکن ہوسکا جب کہ انہوں نے مشرقی بنگال کے لوگو ں کو اپنی بے پناہ مقبولت کی وجہ سے 50%50کی بنیادپر تیارکرلیا جبکہ مشرقی پاکستانیوں کی اکثریت تھی اور وہ پاکستان میں چوؤن%54 فیصد تھے لیکن اس کےبعد بھی بھائی لوگ اکثریت کو کچھ بھی دینے کو تیار نہیں ہوئے؟ اور ہاں ایک کام وہ اور بھی کر گئے جبکہ وہ وزیر اعظم تھے کہ چین سے دوستی کی بنیاد ڈال گئے تھے جس کو بعد میں بھٹو صا حب نے آگے بڑھایا پھر اس کی سزا بھی پائی؟۔ یہاں میں نے آپ کے سامنے اس چھوٹے سے مضمون میں تاریخ کا تھوڑا سا خاکہ پیش کردیا ہے جوکہ زیادہ تر میرا چشم ِ دید ہے۔
اب رہا مسئلہ یہ کہ موجودہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ کیونکہ دنیا کی سیاست بہت تیزی تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ اور عمران خان کے ساتھ نئے بچوں کی فوج ہے،جبکہ حزب اختلاف کے لیڈر بڑے گھاگ ہیں اور بذات خود معافیا بھی ہیں اور ہر قسم کی معافیا کے سرپرست بھی ہیں ۔ بس یوں سمجھ لیں کہ ان پر وہ حدیث صادق آتی ہے حضور ﷺ نے کہ فرمایا “ تو حیاء چھوڑ دے پھر جو چاہے کر “ وہ جیل جانے کا بہانہ ڈھونتے پھر رہے ہیں تاکہ ہیرو بن جا ئیں؟ اور حکومت انہیں یہ مو قعہ نہیں دینا چاہتی ہے۔ رہے ادارے ان کے خلاف حزب ِ اختلاف نے اسقدر پرو پیگنڈہ کیا ہے کہ اب وہ اپنی مزید عزت افزائی نہیں کر وانا نہیں چاہتے ہیں۔ جبکہ خطہ کے حالات یہ ہیں کہ جنگ کسی وقت بھی شروع ہوسکتی ہے۔ چائنا سے دفاعی معاہدہ جو کل پرسوں ہوا ہے وہ ہونا ہی تھاکیونکہ پاکستان خود کو اس جنگ سے کسی بھی حالت میں الگ رکھ کر زندہ رہی نہیں سکتا ہے۔ اب رہا آگے کیا ہوگا وہی جو کہ “ اونٹ کو خیمہ میں داخلہ کی اجازت دیکر شیخ کا اس انگریزی مثل میں ہوا تھا۔ باقی سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں جو ہمیشہ سے تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا؟ جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.