پاکستان میں قانون،کرونا اور سیاست۔۔۔ شمس جیلانی

 

ہمارے وطنِ عزیز کی تو ہر بات ویسے ہی نرالی ہے لوگ کہتے ہیں کہ جان ہے تو جہان ہے؟ جبکہ وہاں کے سیاستدانو ں کا مقولہ یہ ہے کہ “ہر حالت میں چلنا چاہیئے کہ سیاست بھی دوکان ہے۔ مگر بقول کسے چونکہ ہم بھی کبھی ملک، ملک پھرے ہیں اور ہمیں تین چار بار ہجرت کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا ہے۔ اس لئیے ہم اپنے اس تجربے کی بنا پر بتا رہے ہیں کہ مسلمان جو کبھی وقت کے پابند تھے، قانون کے پابند تھے اب اتنے ہی وہ ان سب خوبیوں سے دور ہیں۔ مثلاً اب ر شتے جوڑنے کے بجا ئے توڑنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم نے تاریخ میں پڑھا ہے کہ کبھی مسلمان کے ہمسایہ ہونے پر لوگ فخرمحسوس کرتے تھے اور ان کی جائداد کی قیمت بڑھ جا تی تھی، مگر اب گھٹ جاتی ہے؟ غیر تو کیا! بہت سے فیشن ایبل مسلمان بھی اپنے بچوں پر برا اثر پڑنے کے خوف سے دوسرے لوگوں کی آبادیوں میں جاکر مکان لیتے ہیں۔ اوراپنوں سے وہ دور بھاگتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مسلمانو ں کا رکھ رکھا ؤ اور اخوت ہمسایوں کے ساتھ سلوک وغیرہ جو کبھی مشہور تھا اب وہ ان میں موجود نہیں ہے۔ حالانکہ انہیں کم ازکم غیرممالک میں تو اسلام کا سفیر ہونا چاہیئے تھا؟ وہاں کم از کم کچھ تو خیال رکھتے کہ ہمارے اس رویہ سے اسلام بدنام ہوگا؟۔ یہ تو تھے مسلمانوں کے سلسلہ میں غیر ملکی مشاہدات جو اب تک ہم نے پیش کئے چاہیں وہ پاکستانی ہوں یا کہیں اورکے۔ اب چلتے ہیں وطن عزیز کی طرف؟
آج صبح ہم نے جیسے ہی ٹی وی کھولا تو پچھلی مرتبہ کی طرح ایک عدالتی فیصلہ سننے کو ملا اس کا پس منظریہ تھا کہ شادی ہال والوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا در انصاف کھٹ کھٹا یا تھا کہ ہمارے ساتھ ظلم ہورہا ہے، حکومت نے ہم پر پابندی لگادی ہے کہ کرونا بڑی تیزی سےپھیل رہا ہے ( قر آن میں خبر دار کیا گیا ہےکہ نا شکری کا انجام یہ ہی ہوتا ہے پہلے بچ گئے تھے جس کا کریڈٹ انہوں نے اپنے نام کرلیا تھا اب اللہ ہی جانتا ہے کہ آگے کیا ہوگا) اب حکومت نے شادی ہالوں پر پابندی لگادی ہے کہ شادی ہال تمام متعلقہ قوانین کی پوری طرح پابندی کریں ورنہ ان کے خلاف قانونی کا رروائی ہوگی۔ تین سو سے زیادہ مہمانو ں کو بھی مدعو کرنے کی زحمت نہ کریں، ورنہ چالان ہوجا ئے گا۔ جبکہ شادی ہال والوں کی شکا یت یہ تھی کہ یہ ہمارے ہی ساتھ زیادتی کیوں ہورہی ہے جبکہ شادی ہال بند سب سے پہلے ہو ئے تھے اور انہیں کھولا بھی بعد میں گیا ہے؟ اور وں کو کیوں نہیں کچھ کہا جاتا، مثلا ً سیاسی جماعتوں کو جو بغیر ماسک پہنے اور کسی بھی قسم کے قانون کی پرواہ کئے بغیرلا کھوں کے جلوس نکا ل رہی ہیں؟ جبکہ ان میں سے ہم نے پی، ڈی ایم کے صدر کو ٹی وی پر اپنے کانوں سے یہ کہتے سنا کہ میں قانون کو اپنے جوتے کی نوک پر مارتا ہوں؟ اس سے رواداری اور حکومتی رٹ کا پتہ چلتا ہے؟ کورٹ کا فیصلہ وہی تھا جو ہونا چاہیئے تھا کہ اچھے شہریوں طرح ملکی قوانین کا احترام کرو؟
ویسے بات شادی ہال والوں کی بھی سچی ہے کہ اگر جلوس ناپا تولا نہ جا ئے توآجکل کٹ اینڈ پیسٹ کادور ہے اگر کسی جلسے کی تعداد لاکھ بھی ہو تو کو ئی پرانی ہوائی تصویر چسپاں کر کے لاکھ تو کیا کروڑوں کا مجمع بھی دکھانا کوئی بڑی بات نہیں ہے؟ مگر میرے خیال میں چند ہزار ہونا تو ضروری ہے کہ کہاوت ہے کہ رائی کا پہاڑ بن سکتا ہے رائی نہ ہو تو پہاڑ کیسے بنے گا۔ میں کہتا بوں کہ وہ بھی بن سکتا ہےکہ وہاں جھوٹ بولنے پر جو کوئی پابندی نہیں ہے اور حکومت بھی نہلے پردہلہ مارنا ضروری سمجھتی ہے وہ کیوں اس کار ِ خیر میں پیچھے رہے۔ لہذا جواب میں وہ بھی جلوس نکا لنے میں مصروف ہے جبکہ ووٹروں کے نہیں مگر ان کے ووٹوں کی تو سب کو ضرورت ہے؟ مگر یہ کو ئی نہیں خیال کرتا کہ وہ کارونا سےبچے تو ؤوٹ دینگےنہ۔ جبکہ حزب اختلاف کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم جلوسوں کے ذریعہ حکومت کو گرا کر چھوڑیں گے اور ان سے عوام کو نجات دلا ئیں گے کیونکہ اس نے ہم سے عوام کو نجات دلائی تھی؟۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم اپنا ٹرم پورا کریں گے کہ ہمارا حق ہے اور ہم نے تمہیں بھی ٹرم پورا کرنے دیا تھا۔اور ابھی ہمارے ڈھائی سال باقی ہیں۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ یہ حکومت بالکل نااہل ہے اس کو فوراً برطرف کر دیا جا ئے؟ چونکہ ہمارے پاس جادو کی چھڑی ہے لہذا ہما رے آتے ہی بازار کے بھا ؤ خود بخود گر پڑیں گے۔ ہم بھوک سے عوام کو بچا نا چاہتے کارونا سے بچیں یا نہ بچیں یا نہ بچیں یہ ان کی قسمت؟
مگر صدر صاحب سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ آپ کے والد ِمحترم نے بھی ایوب خان کے زمانہ یہ ہی نعرہ لگا یا تھا کہ ہم پرانے بھاؤ واپس لا ئیں گے لیکن لا نہ سکے جبکہ اس وقت شبرات پر تھوڑی سی چینی مہنگی ہوگئی تھی یعنی تین روپیہ کلو سے سوا تین روپیہ کلوہو گئی تھی۔ حالانکہ وہ خود شبرات اور فاتحہ دونو ں پر ہی یقین نہیں رکھتے تھے۔مگر ان کے ساتھ جو دوسرے مکتبہ فکر کے علماء تھے وہ شبرات پر حلوے کے بغیر رہ نہیں سکتے تھے۔ آخر رواداری بھی تو کوئی چیز ہے ۔ چینی اس وقت بھی مہنگی ہوگئی تھی اب بھی مہنگی ۔ اب بھی سیٹ اپ وہی ہے فرق یہ ہے کہ اب بجا ئے والد صاحبان کے ان کے صاحبزادگان ہیں جمہوریت جو ہوئی؟ اور چینی پہلے کی طرح اب بھی نایاب ہے۔ سیاستدانوں کا اصول یہ ہے کہ اگر وہ جیتیں تو الیکشن درست ہے اگر الیکشن میں وہ نہ جیتں تو جیتنے والے نے ڈنڈی ماری ہے۔ پھر اس کے بعد ڈنڈی مارنے والوں کے سہو لت ِکاروں کی ایک لمبی فہرست ہے؟ مگر پھر بھی جا تے انہیں کے پاس ہیں کہ ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ بچہ ماں سے روٹھتا تو ہے، مگر روتا ہوا جاتا ماں ہی کے پاس ہے آخر ماں جو ہوئی؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged . Bookmark the permalink.