۔۔۔۔ مر دِ ناداں پر کلا م نرم و نازک بے اثر۔۔۔ شمس جیلانی

ابھی کچھ دنو! پہلے 9 نومبر کو علامہ اقبالمرحوم (رح) کا یوم ِ پیدا ئش تھا۔ ہمیں نہ جانے کیوں ان کے ایک مشہور شعر کا مصرع ثانی جوکہ آج کا عنوان ہے، یاد آرہا تھا اور برابر یاد آتا رہا، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ علامہ ؒ کی روح بیچین ہو کہ پاکستانی قوم انہیں آہستہ آہستہ بھلاتی جا رہی۔ کچھ سالوں پہلے اس دن کی چھٹی منسوخ ہوئی اور اب سرکاری اور غیر سرکاری تقریبات” کارونا” کی وجہ سے منعقد ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہیں۔ جبکہ گالی گلوچ پر کوئی پاندی نہیں ہے۔ شاید وہ اس بات سے با خبر نہیں کہ پاکستانی قوم تہتر سال گزرنے کے با وجود ابھی تک اپنی منزل متعین نہیں کرسکی ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ وہ اس اللہ کو ہی بھول چکی ہے جس نے بغیر لڑے بھڑے ایک ملک بنا کر پاکستان کی شکل میں دیا تھا، اور وہ بھی27رمضان المبارک کی انتہائی برکتوں والی رات کو جس کا تصور کبھی علامہؒ نے پیش کیا تھا۔ اپنی تاسیس کے بعد سے ابھی تک یہ ملک اس کا لاڈلا بنا چلا آرہا ہے اس کے باوجود کہ پاکستان میں جو بھی کرسی نشین ہوا اس نے ہمیشہ اللہ سبحانہ تعالیٰ سے وعدہ خلافی ضرور کی؟ مصرع یاد آنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ ہم نے وہ فیصلہ نہیں سن لیا جوکہ قائد آعظم ؒکے مزار پر ہنگامے کے بارے میں تھا۔ کچھ لوگوں کے مطابق جو وہاں دھما چوکڑی مسلم لیگ نے 18 اپریل 2020 کو مچائی وہ اپنی قسم کا تاریخ میں پہلا واقعہ تھااور یہ فیصلہ اسی سے متعلق تھا؟ جس میں ہنگا مہ کرنے والوں کوبا عزت بری کردیا گیا! اس لیئے کہ یہ صوبائی حکومت کی عزت کا مسئلہ تھااور ہنگامہ کرنے والے اس کے مہمان تھے اور اس لیئے انہیں سو خون معاف بھی تھے۔ فوراً ہمارے دل میں یہ خیال آ یا اگر بقیہ مقدمات کے فیصلے بھی اتنی ہی جلدی اور اسی طرح ہونے لگیں تو نہ ملزمان بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے فرار ہوں،نہ ہی میڈیا کی پیدا کردہ رحمدلی بڑھا کر مفرور مجرمان اور ملزمان کو فائدہ اٹھانے کا موقعہ ملے،نہ ہی مقدمہ اتنا لمبا کھنچے کہ مدعی اور مدعا علیہ اور گواہ اللہ کو پیارے ہوجا ئیں۔ اتنی جلدی فیصلے کی وجہ یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ یہ فوجی انکوائری کمیشن کافیصلہ ہے جو کہ عموماً اپنی حد تک فوری فیصلہ پریقین رکھتے ہیں؟ جبکہ ہمیں دوسری عدالتوں اور کمیشنوں میں تاخیر کی وجہ بھی معلوم ہے کہ عدالتیں یوں مجبور ہیں کہ وہاں ابھی تک کچھ برٹش دور کے قوانیں نافذ ہیں کیونکہ وہاں کی پارلیمان، پارلیمان سے باہر ی مصروفیات کی بنا پر،و قت کے مطابق قوانین بنا کے لئے وقت نہیں نکال سکی، ان میں وہ قوانین بھی شامل ہیں جو ہر بننے والے دستور کے مطابق انہیں دس سال میں مشرف بہ اسلام ہونا تھا۔ اور اس پر طر ہ یہ ہے کہ پچھلے ڈیرھ دو سو سال میں وکلاء اور نچلے عملے نے ملکر بہت سے تاخیر کے مجرب نسخے ایجاد کر لیئے ہیں، جن کی تفصیل بیان کرنے کے لئیے اس چھوٹے سے مضمون میں گنجا ئش نہیں ہے، مگر پتہ سب کو ہے کہ یہ کیوں ہوتا اور کیسے ہوتا ہے اور کون کون کرتا ہے؟ پاکستانیوں کی اس روش کے باوجود ان کے ساتھ پھر بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ رحم کا برتاؤ جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی تازہ مثال کرونا کا پہلا حملہ ہے جو کہ وہاں اس کی رحمت کی وجہ سے شدت اختیار نہیں کرسکا؟ جسے یار لوگوں نے اپنے نام لکھ لیا،اب آگے کیا ہوگا اللہ ہی جانتا ہے۔ وہاں کے باشندوں نے اور تو سب اسلامی فرائض اوراحکامات چھوڑے ہوئے ہیں، سوائے مجرموں اور ملزمو ں پر رحم کھانے کے۔ وہ ان کے سلسلہ میں انتہائی رحیم ہیں اوران پر بے انتہا مہربان ہیں جو جرم کر تے ہوئے اپنے آپ پر رحم نہیں کھاتے ہیں، نہ مظلوموں پر رحم کھا تے ہیں، نہ ان کے بال بچوں پر رحم کھا تے ہیں جو اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہےکہ نہ چور، چور بازاری کرتے ہو ئے پکڑے جاتے ہیں نہ ہی سزا ملتی ہے نہ ذخیرہ اندوزی پر سزا ہوتی ہے۔ جبکہ مملکت ِ پاکستان کے ماتھے پر نمایا ں طور پر جلی حرفوں میں لکھا ہوا یہ ضرور ملتا ہے “ اًسلامی جمہوریہ پاکستان ً“ جبکہ ایسا نہیں ہے کہ اسلام میں ان جرموں کی کوئی سزا نہ ہو؟ بلکہ بہت سخت سزائیں ہیں؟ اور اسلام مجرموں پر رحم کرنے کی قاضی اور حکومت کو بھی اجازت نہیں دیتا، بلکہ حکم یہ ہے کہ “ مجرم پر حد جاری کرتے ہوئے ترس نہ کھاؤ تاکہ دوسرے عبرت پکڑیں“ البتہ اسلام میں وہاں رحم کرنے کی یا معاف کرنے کی اجازت ہے کہ اہلِ معاملہ کسی طر ح راضی ہوجا ئیں اور مجرموں کو معاف کردیں تاکہ مزید خونریزی اور بدلے کی شکل میں خونریزی در خونریزی نہ ہو۔ جس کی اللہ سبحانہ تعالیٰ خود ہمت افزائی فرماتا ہے اور اپنا قانون بخشش اس نے اسی طرح ہی رکھا ہے کہ “ رحم کرو تاکہ رحم کیئے جا ؤ؟ تم اپنے خطا وار کو معاف کردو تاکہ جب میرے پاس تم آؤ تو معاف کیئے جاؤ۔ لیکن آنے والے کو حکم ہے کہ پہلے تم اہلِ معاملہ کو مطمعن کرکے آؤ ورنہ میں اپنا گناہ تو پہاڑ کے برابر بھی ہوتو بھی معاف کردونگا؟ مگر حقوق العباد معاف نہیں کرونگا۔ یہ تو خیر وہاں کامعاملہ ہے۔ یہاں ان کے سربراہ جو کہ خیر سے عدالت سے مفرور قرار دیئے جا چکے ہیں اور لندن میں آجکل مقیم ہیں انہوں نے بجا ئے اس فیصلے پر جسکا ہم شروع میں ذکر کرچکے ہیں! شکریہ ادا کرنے، کے بدلہ یہ دیا ہے کہ “ اس فیصلے کو رد کردیا یہ فرما کر کہ” یہ فیصلہ کچھ لوگوں کوبچانے کے لئیے کیا گیا ہے“ اس سے فیصلہ کرنے اور فیصلہ جلدی کروانے والے کی بجا ئے ہمت افزائی کہ اتنی ہمت شکنی ہوئی ہوگی کہ اس نےاب فیصلہ کرلیا ہوگا۔ کہ وہ خود بھی آئندہ کوئی فیصلہ جلدی میں نہیں کریگا بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو کہہ جا ئے گا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی تھی، مگر تم آئندہ ایسی غلطی نہ کرنا؟ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے مگر ہماری سمجھ میں یہ بات آگئی کہ علامہ ؒ کا یہ شعر ہمیں کیوں بار بار یا د آرہا تھا۔ ویسے تو یہاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول ہمارے لئے زیادہ مشعل راہ ہے کہ “ جس کے ساتھ احسان کرو اس کے شر سے ڈرو “ دوسرے مسلمان دانشوروں نے بھی اس سلسلہ میں بہت کچھ لکھا۔ جیسے کہ علامہؒ ابن ِ تیمیہ فرما تے ہیں۔“ تم کسی کو اپنا حکمرا ں منتخب کرنے جارہے ہو تو، اس میں دو صفتیں ضرور تلاش کرو تقویٰ اور بہادری اگر کسی میں تقویٰ کم ہو اور بہادری زیادہ ہو تو اسے تر جیح دو کیونکہ تقویٰ ہر فرد کی اپنی ذات کے لئے سود مند ہوتا جبکہ بہادری ملت کے کام آتی ہے۔ان کے دور میں اس وقت تک دور جہالت والی انا شاید واپس نہیں آئی تھی، ورنہ وہ اس میں یہ ضرور اضافہ فرمادیتے کہ اُس میں ہٹ دھری اور انا پرستی بالکل نہیں ہو نا چاہئیے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.