امن کے بعد فتنہ پیدا کرنا قتل سے بد تر ہے۔۔۔۔ شمس میں جیلانی

میں نے تو جب سے قرآن حدیث اور بزرگوں کے اقوال میں یہ پڑھا تو اس وقت سے میں تو بہت محتاط اس لئے ہوگیاکہ تمام صحابہ کرام ؓ کا بھی یہ ہی رویہ تھا اور یہ ہی وجہ تھی کہ جب تک وہ با ثر رہے اور بوڑھے نہیں ہوئے تھے اس وقت تک خلافت راشدہ ان فتنوں سے بچی رہی۔ جیسے ہی اقتدار یا اس کا کچھ حصہ ان لوگوں کے پاس آیا جو فتح مکہ کے موقعہ پر یا س کے بعد میں مسلمان ہوئے کیونکہ ایک ایک دن میں لاکھوں لوگ مسلمان ہوتے رہے۔ اور چونکہ انکی تر بیت کا وہ معیار نہیں رہاجو ان صحابہ کرامؓ کا تھا جن کوحضور ﷺ سے تربیت ملی تھی۔ میرے اس دعوے ثبوت میں آپ بقیہ اسلامی تاریخ پڑھ جا ئیے جو کہ فتنو ں سے بھری پڑی ہے۔ جس سے کہ اسلامی ریاست کا امن غارت ہوا۔ نتیجہ کے طور پر پہلے حضرت عثمان ؓ شہید ہوئے، پھرحضرت علی کرم وجہہ شہید ہوئے اور حضرت امام حسن شہید ہو ئے اورنہ صرف امام حضرت حسین (ع) شہید ہوئے بلکہ حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کا پورا خاندان کربلا میں شہید ہوا۔اور وہ ریاست جہاں حضور ﷺ کے دور میں امن ہی تھا وہ امن کو ترسنے لگی۔ یوں حضور ﷺ کی ایک ایک پیش گوئی پوری ہوئی بشمول اس کے جو سورہ انعام کی آیت نمبر 69 کے نزول کے بعد حضورﷺ نے صحابہ کرامؓ سے وہ عہد لیا تھا کہ ” دیکھو میرے (ص) بعد آپس میں لڑنا مت ورنہ ایک مرتبہ سرداروں کی تلواریں میان سے نکل آئیں تو دوبارہ قیامت تک میان میں نہیں جا ئینگی“۔اس کے جوا ب میں اس موقعہ موجود صحابہؓ کرام نے فرمایا تھاکہ“ حضور ﷺ یہ کیسے ممکن کہ ہمارے درمیان قرآن موجود ہو اور آپ سیرت موجود ہو اور ہم گمراہ ہوجا ئیں! تو حضورﷺ نے فرمایا کہ“ اس وقت قرآن تمہارے حلق سے نیچے نہیں اترے گا “اس پیش گوئی کی زندہ تصویر دیکھنا ہوتوآج تمام عالم اسلام کو دیکھ جا ئیے،ہر ایک اپنے زعم میں یہ ہی کہتا ہوا ملے گا کہ صرف میں راہ راست پر ہوں باقی سب غلط راستے ہیں جو اس کے نزدیک واجب قتل ہیں؟ یہ وہ غلط فہمی ہے جو کہ کچھ نفس پرستوں نے اپنے مفاد کے لئیے نہ صرف اپنائی ہوئی ہے بلکہ اپنے حلقہ اثر میں بھی پھیلائی ہوئی ہے۔ جبکہ ہمیں ہدایت یہ ہے کہ جس کو مسجد میں آتے جاتے دیکھو اس کے مسلمان ہونے کی شہادت دو اور ہر کلمہ گو مسلمان ہے بقیہ فیصلہ بروز قیامت اللہ خود فرما ئے گا اور یہ کہ تم ان پر داروغہ نہیں بنا ئے گئے ہو۔ یہ بھی سب کو پتہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے تہتر فرقے ہو جا ئیں گے جن میں صرف ایک راہ راست پر ہوگاجو کہ“ میرے(ص) یا میرےﷺ ان صحابہؓ کے راستے پر ہوگا جو آج میرے (ص) راستے پر ہیں؟ اس حدیث کے پیمانے میں ہر ایک خود کو پرکھ کر دیکھے کہ کیا ہم اس معیار پر پورے اتر تے ہیں؟۔اگر وہ دیکھ لیں تو جو خوں ریزی کر رہے ہیں تو ان کے ہاتھ سے تلواریں چھوٹ پڑیں گی؟ مگر یہ باتیں تو خوف خدا سے دل میں پیدا ہوتی ہیں، جب وہی اٹھ گیا تو اس کا وہ نتیجہ کیسے مرتب ہوگا؟ اسی کا ہم نتیجہ بھگت رہے ہیں اور یہ سلسلہ جب سے جاری ہے جبکہ حفاظ کرام نے اسی زعم پر کہ صرف وہ ہی مسلمان ہیں، خارجیوں کا روپ اختیار کیا تھا۔ جو کہ صدیوں تک چلتا رہا۔ اسے بڑی مشکل سے ہلاکوں نے ختم کیا دو صدی پہلے کچھ لوگ پھر عدو کے ساتھی بنے اور انہیں نے دوبارہ سلطنت عثمانیہ کا تیا پانچا کر نے کے لئے اوراپنے گھناؤنے مقاصد کے لیئے اسے پھر سے زندہ کردیا جس کا نتیجہ آج ہم سب بھگتے رہے ہیں کیونکہ عالم اسلام بری طرح بد امنی شکار ہے جنتے لوگ مسلمانوں نے خود قتل کئیے ہیں اتنے سب دشمنوں ملکر نہیں کیئے خدا جانے یہ سلسلہ کب رکے گا اور کیسے رکے گا اور اسے کون روکے گا؟ کیونکہ سب اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔
خدا خدا کرکے ہزاروں انسانوں کی شہادت کے بعد بمشکل پاکستان میں بد امنی کے کچھ امن قائم ہوا تھا؟ پھر کچھ لوگ پاکستان میں جو آجکل فتنے پیدا کر رہے ہیں ان میں ایک مولانا بھی شامل ہیں جن کو اقتدار میں اس بار موقعہ نہیں ملا جو کہ کئی عشروں سے اقتدار میں چلے آرہے تھے جبکہ اپنے دور میں کرکے کچھ بھی نہیں دکھا یا؟ وہ بھی مشاءاللہ جید عالم ہیں اورمیں نے جتنی باتیں اوپر بیان کیں ہیں سب انہیں ازبر بھی ضرور ہونگی۔ کیا اسے دوبارہ پڑھ کر اور خوف کھاکر اپنے رویہ پرنظر ثانی کر یں گے اور پاکستان اور پاکستانیوں کو معاف کردیں گے۔ اگر نہیں تو پاکستانی اپنی آئندہ نسلوں کی بقا کے لیئے اپنی گردن سے ان کا جوا اتار پھینکنے کی کوشش کریں تا کہ وہ ملک محفوظ رہے جو ان کے بزر گوں نے بڑی منت سے اللہ سبحانہ تعالیٰ سے حاصل کیا تھا۔ اس وعدے کہ ساتھ کہ ہم اس ملک میں تیرا نام ا بلند کریں گے۔ کیا نام بلند کرنا اسی کو کہتے ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کی ناقدری کی جا ئے،جواب آپ پر چھوڑتا ہوں؟ اس دعا کے ساتھ کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ وہاں کے باشندوں کو ہدایت دے(آمین) کہ وہ اپنا بھلا برا خود سوچ سکیں، بجا ئے دوسروں کے بہکا ئے میں آنے کے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged . Bookmark the permalink.