جکل میں حضرت امداد اللہ مہاجر مکی ؒ پر کام اس لئیے کر رہا ہوں اس کو میں امیج سے یونی کوڈ میں منتقل کرکے انٹر نیٹ کے ذریعہ تمام اردو پڑھنے والوں تک پہنچا دوں جو میرے بس میں ہے۔ اس سلسلہ میں ایک صاحب یہ بھی کوشش کر رہے ہیں کہ اس کو انگریزی میں میں منتقل کردیا جا ئے جس کوکہ میں نے اپنی ویب سائٹ پر بیس پچیس سال سے ڈالا ہوا تھا۔ اس رسالہ ِ ہفت مسائل کا ذکر تو آپ کو سب علمی حلقوں اور کتابوں میں ملے گا حتیٰ کہ مولانا ابو کلام آزاد کے غبار ِ خاطر میں بھی موجود ہے کہ“ مجھے میرے ایک استاد کی طرف سے حکم ہوا کہ رسا لہ ہفت مسائل اور انکا حل کے سب نسخے جلا دو، مگر میں نے آ دھے جلا دئے اورآ دھے روک لیئے۔ جس پر خوش ہوکر حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒصاحب نے ایک آم مجھے انعام میں دیا“ اس رسالہ میں کیا ہے؟ اس میں وہ سات مسائل انہوں نے زیر بحث لاکر ان کا حل پیش کیا تھا۔کہ انہوں نے اس وقت اس سازش کو پڑھ لیا تھا۔ جس سے اسلامی اخوت کو تار تار کیا جانے والا تھا، تاکہ مسلمان اس فتنہ سے بچ جا ئیں جس سے آج دوچار ہیں؟ مگر ہوتا تو وہی ہے جو مشیت ِ ایزدی ہوتی ہے۔لہذا وہ بزرگؒ اپنی تمام فضیلتوں اور ہزاروں مریدوں اور شاگردوں کے باوجود اپنی اس مہم میں کامیاب نہ ہو سکے اور انہوں نے جن کو اپنا سمجھ کے یہ فرمان بھیجا تھا وہی اس کے جلا نے کے درپہ ہو گئے؟ حالانکہ وہ شخصیت بہت عظیم تھی۔ جنہوں نے دنیا کو دار علوم دیو بند جیسی درسگاہ عطا کر ی جو کہ کبھی ان کی خانقاہ ہوا کرتی تھی۔ کیونکہ علمائے وقت نے انہیں 1857ء میں اپنا بڑا بنا یا تھا اور انہوں ؒ نے مسلمانوں کی تنزلی کا با عث جہالت قرار دیا تھا۔ اسی مصرف کے لیے انہوں نے اپنی خانقاہ دیکر اس منصوبے کی داغ بیل ڈالی تھی اور اسی طرح وہ ہزاروں مدرسے قائم کرنا چاہتے تھے۔ ابھی اس کی ابتدا ہی تھی کہ انگریز ان کے پیچھے پڑگئے اور انہیں ہجرت کرکے مکہّ معظمہ جانا پڑگیا۔جکہ خانقاہ ان کے شاگردوں کے تصرف میں چلی گئی۔ پھر کیا ہوا چھوڑ یئے کیا کریں گے اس کو جان کر کہ دکھ ہی ہوگا، ممکن ہے آپ مجھ سے سوال کریں کے آپ پھر کیوں اس پر اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میں بھی ان سر پھرے لوگوں میں سے ایک ہوں جنہوں نے اپنی پوری زندگی “اتحاد بین المسلمین“ میں صرف کردی۔ امت ِ مسلمہ کی بیماری اب بھی وہی ہے، جو انہوں ؒ نے تجویز کی تھی علاج بھی وہی ہے جو انہوں نے ؒ رسالہ ہفت مسائل کی شکل میں مرتب کیا تھا۔ البتہ قوم اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔اور جن کے پاس علم ہے اور امہ کا درد بھی ہے اول تو وہ آٹے میں ہیں ہی نمک کے برابر، پھرجو ہیں وہ اکثریت سے خائف ہیں کیونکہ وہ علم کوعام کر نا نہیں چاہتے؟ اس لیے کہ وہ ان کا ذریعہ معاش ہے، جب فتنے ہی دم توڑ دیں گے تو ان کی اہمیت کم ہوجا ئے گی تو ان کی کون سنے گا؟ مجھے اس کا احساس پچھے دنوں ہواکہ ایک ایسے مفتی صاحب جوکہ پاکستانی ہیں اور ابھی باہر سے فارغ التحصیل ہوکر آ ئے ہیں اور یہاں پڑھا بھی رہے ہیں۔ انہوں نے بڑی بے کسی سےفرمایا کہ اس ملک کی صورتِ حال کیا ہے جسے اسلام کا قلعہ کہتے ہیں؟ یہ ایک ٹی وی چینل پر محفلِ سوال و جواب تھی جو صرف جمعہ اور سنیچر کو ہی ہوتی ہے جبکہ اس میں ہر مکتبہ فکر کے مفتی صاحبان حصہ لیتے ہیں جو روزانہ ہوتی ہے وہ شروع تلاوت قرآن سے اور ختم ہوتی ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ایک قول پر۔ سوال یہ تھا کہ “ایک خاتون کے شوہر انتقال کر گئے ہیں ان کے سسرال والے ان خاتون کو گھر سے باہر نہیں جانے دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے میکے بھی نہیں جانے دیتے۔ اس سلسلہ میں اسلام کیا کہتا ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے پورا پنڈورا بکس کھول دیا۔ جبکہ میں نےگزشہ ہفتے اپنے مضمون میں یتیموں کی جو درگت ہمارے معاشرے میں بنتی ہے اس کا ذکر کیا تھا۔ یہاں مولوی صاحب نے پاکستان میں خصوصاً سندھ میں خواتین کا ذکر کیا ہے۔ کہ ان کے ساتھ کیسا سلوک ہوتاہے۔ حالانکہ وہ اسے صرف سندھ کا مسئلہ فرما رہے تھے، جبکہ یہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ میں تو یہ کہونگا کہ یہ تمام دنیاکی مسلم خواتین کا مسئلہ ہے کہ تھوڑے شروع کے عرصہ سوا مروجہ رسم و رواج نے انہیں ان کے اسلامی حقوق سے کبھی فیض یاب ہونے نہیں دیا؟ جو کہ سندھ اور بلوچستان میں تو اپنے عروج پر ہے۔ باقی پنجاب اور سابق صوبہ سر حد بھی بچا ہوا نہیں ہے۔ جہاں دیکھئے جہالت اور رسومات زور آور ہیں اور خواتین ظلم کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہیں؟۔ جبکہ ان رسموں سے اسلام کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ دراصل مسلمانو ں نے یہ طے کر رکھا کہ ہم کہلا ئیں گے تو مسلمان؟ مگراللہ اور رسول (ص) کی بات مان کر نہیں دیں گے۔ جبکہ مجھے اس محفل کو سن کر حضورﷺ کا خطبہ حج الودا ع یاد آگیا جس میں ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی عزت وآبرو مال وغیرہ سب کو کچھ حرام تو ہے ہی۔ مگر خصوصی طور پر جو حضور ﷺ نے یہ فرما یا تھا کہ تم میں میں (ص) دو کمزور طبقے چھوڑے جا رہا ہوں ان کا سب سے زیادہ خیال رکھنا وہ ہیں خواتین، غلام اور باندیاں؟ غلاموں اور باندیوں کا مسئلہ تو تقریباً دنیامیں ختم ہوچکا ہے؟ پھر بھی پاکستان میں کہیں کہیں بڑے جاگیرداروں کے عقوبت خانے اور بھٹوں والوں کے جبر خبروں کی سرخیوں میں نظر آجاتے ہیں۔ جبکہ تمام خواتین کی حالت تو ناقابل ِ بیان ہے جوکہ ہمیشہ سے چلی آرہی ہے۔ پنجاب میں تو ایک دور وہ بھی گزر چکا ہے کہ خواتین کوخلع لینے کا حق حاصل نہیں تھا۔ نتیجہ کے طور پر کتنی ہی مسلم خواتیں انگریزوں کے دور ِحکومت میں عیسا ئیت اختیارکر کے اپنی جان چھڑاچکی تھیں، تب علامہ راشد الخیری اورؒ میاں سرمحمد شاہنواز نے تحریک چلا کر ان کو بڑی مشکل سے خلع کا حق دلوا یا تھا۔ مگر ماں باپ اور بہن بھائیوں وغیرہ کے ورثے میں سے آج تک حق انہیں مل سکا؟ کہ یہ رواج وہاں عام نہیں ہے۔ جبکہ سندھ میں سب سے گھٹیا درجے کی شادی وہ ہے جس کو حضور ﷺ نے اپنی صاحبزادی صاحبہ سلام اللہ علیہا کی شادی کر کے دکھا ئی تھی اور امہ کے لئے ایک معیار قائم کیا تھا۔ وہ سندھ میں سب سے کم درجہ کی شادی ہے جس عرف ِ عام میں وہاں اللہ نام کی شادی کہتے ہیں یعنی جس میں خرچہ کچھ نہ ہو یاکم ہو؟۔ سب سےبہتر شادی ادلے بدلے کی ہے جس کو سندھی میں وٹے سٹے کی شادی کہتے ہیں۔جس میں فریقین ایک لڑکی بدلے میں دیتے ہیں تو دوسری لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بعض اوقات پوتی دادا کو دینا پڑتی ہے تو کہیں جاکر پوتے کا گھر بستا ہے؟ یعنی عمر کی کوئی قید نہیں ہے دوسرے جو تم کروگے وہ ہم کریں گےکا اصول کا ر فرما رہتا ہے اگر ایک نےطلاق دی تو دوسرے کو بھی طلاق دینا لازمی ہے۔ انصاف کی حالت یہ ہےکہ بھائی کی غلطی کی سزا جرگہ بہنوں کو دلا دیتا ہے۔ صرف شک وشبہ میں غیرت کےنام پر قتل عام ہے؟ جسے کارا کاری کہتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ اگرمرد ہو تو وہ بھی شہید کہلاتا ہے۔مجھے شکار پور جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے ایک مزار دیکھا پوچھا کہ یہ کس کا مزار ہے تو مجھے کسی نے بتایا کہ بابا یہ ایک شہید کا مزار ہے۔ میں نے پوچھا کہ انہوں نے کس کے خلاف جہاد کیا تھا۔؟تو اس نے بتایا کہ کسی کی بہن کے ساتھ تعلقات تھے اس کے رشتہ داروں نے اس کو مار دیا تھا۔ مفتی صاحب پوچھ رہے تھے۔ کہ ہے کوئی جو مسلم خواتین کی حمایت میں جلوس نکالے اور احتجاج کرے کہ وہاں کارا کاری کے جرم میں سیکڑوں قبرستان مسلم خواتین سے آباد ہیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حال؟ اب بتا ئیے کہ آپ کس کس شعبہ کو رو ئیں گے؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے