انسان انتہائی ظالم اورنا شکرا ہے۔ شمس جیلانی

View Post

یہ اس سورہ کی آیت نمبر34 کا لب لباب ہے جس کی آیت نمبر 7سے بات کی ابتدا ہوتی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ بنی اسرا ئیل کو ان کے وہ تمام بر تاؤ اور ان کی نافرمانیاں اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کے احسانات یاد دلا تے ہیں۔ پھر فرما تے ہیں کہ ” اگر تم شکر کروگے تواللہ تمہیں زیادہ دیگا اور اگر کفر کروگے تو اس کاعذاب بھی شدید ہے” بس تم اس کی بات مان لیا کرو ۔ جبکہ انسان یہ ہی کام کر کے نہیں دیتا وہ یہ چاہتا ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ تو اس کی ہر بات مان لے، مگر اس کو اللہ کی کوئی بات ماننا نہ پڑے اور وہ اپنی من مانی کرتا رہے؟۔حتیٰ کہ ابتو اس کے نہ ماننے والوں کی تعداد دنیا میں ماننے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جتنا علم بڑھا اتنا ہی انسان اللہ سبحانہ تعالیٰ سے دور ہوتا چلا گیا حالانکہ علم کا تقاضہ یہ تھا کہ اور زیادہ اللہ کو مانتا۔ آخر میں تنگ آکر سورہ ابرا ہیم میں ہی آیت نمبر34 میں اسے فرمانا پڑا کہ "انسان انتہا ئی ظالم اور نا شکرا ہے” جبکہ ہر نبی ؑ نے یہ ہی بات کہی کہ اگر صرف اس کے ہو جاؤگے تو تمہارے یہاں بارشوں کی شکل میں نعمتیں بر سیں گے اور نا شکری کروگے تو پھر عذاب بھی شدید ہے۔ سب آسمانی کتابو ں میں قر آنی قصے پہلے سے چلے آرہے ہیں؟ لیکن اس پرکان دینے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ ایک ایسی تھیوری کو تمام دنیا کے سا ئنسدان مان رہے ہیں جو بقو ل ان کے ایک عظیم حادثہ تھا۔ حادثہ بڑا ہو یا چھوٹا کبھی تعمیر کا باعث ہوا ہے؟ ہمیشہ حادثے تباہی کا با عث ہوتے رہے ہیں چاہیں چھوٹے ہوں اور چاہیں بڑے ہوں ۔ پھر کسی بھی حادثے سے اتنا منظم خود کار نظام وجود میں آنا کیسے ممکن ہے بلکہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے سوائے خالق کائنات کے جو کہ تمام انسانی، حیوانی اور ماحولیاتی ضروریات کا ادراک بھی رکھتا ہو اور ہر ایک کو بوقت ضرورت اس کے ضرورت کے مطابق مقررہ مقدار میں ضروریات زندگی بھی فراہم کرتا رہتا ہو، چاہیں وہ کہیں بھی ہو؟ جو سائنس داں ہیں اگر ان سے پوچھو تو وہ ان کی ضروریات احسن طریقہ سے پوری کرنا تو بڑی بات ہے وہ تو انسانی ضرور یات اور اشیاء کی فہرست بھی فرا ہم نہیں کرسکتے اس پر اللہ سبحانہ تعالیٰ کے بنا ئے ہوئے نظام پر اس ناقص نظام تر جیح دینا ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ جواب آپ پر چھوڑتا ہوں۔ لیکن یہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی بھیڑ چال دیکھنا ہوتو آج کی دنیا میں ملا حظہ فرما لیں۔ کہ سارے مسلم ممالک بھی انہیں کا اتباع کر ر ہے ہیں حتیٰ کہ وہ ملک تک جو اللہ کے نام پر بنا تھا اب آہستہ آہستہ اپنی درسگاہوں سے اللہ کو دورکرتا جا رہا بلکہ سا ئنس کے مضا مین میں اس کا نام لیتے ہوئے مسلمان سائنسداں بھی شرما تے ہیں۔ حالانکہ جتنا سائنس آگے بڑھ رہی اتنا ہی اس کے سامنے قر آن اور سنت کی تفسیر سامنے آرہی ہے، جو کبھی پہلے سمجھ میں بھی نہیں آتی تھی اب ایک بچہ بھی سمجھ جاتا ہے۔ لیکن اسے ماننے کے لئیے بلا تخصیص مذہب و ملت ،کوئی بھی تیار نہیں، کیونکہ اس صورت میں ایک نظام کا پابند ہونا پڑے گا جو کہ موجودہ نظام سے ٹکراتا ہے یہ ہی آج سے ہزاروں سال پہلے بھی مسئلہ تھاآج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔ جبکہ دنیا کے مفادات لا مذہب رہنے میں زیادہ ہیں۔ آجکل تمام دعوؤں کے با وجود ایک معمولی سے جر ثومے نے تمام دنیا کا عرصہ حیات تنگ کرکے رکھدیا ہے جس کے بارے میں ہادی اسلام محمد مصطفیٰﷺ نے ساڑھے چو دہ سو سال پہلے ساری دنیا کی ہدایت کے طور پر حل عطا فرما دیا تھا کہ تمام متعدی بیماریوں کےبارے میں کہ“ جن علاقوں میں ان کا حملہ ہو وہاں کے لوگ دوسرے علاقوں میں منتقل نہ ہوں اور نہ ہی دوسرے علاقوں کے لوگ وہاں جا ئیں“ آج کے سائنس داں کیا اس سے بہتراسکا کوئی توڑ یا اس سے بہتر کوئی دوسراطریقہ بتا سکے ہیں؟ ایمانداری کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے تسلیم کیا جا ئے کہ یہ تعلیمات کہاں سے اس شخصﷺ کے پاس پہنچیں جو کہ کسی یونیورسٹی میں نہیں پڑھا تھا،لیکن اپنی احادیث کے ذریعہ دنیا کو بہت سے علوم عطا فرما گیا؟ اور صرف وہ ہی نہیں انﷺ کے ساتھی بھی ویسے ہی تھے کہ ایک حاکمِ نے جب یہ فرمایاحج کے موقعہ پر حجر اسود کوبوسہ دیتے ہو ئے کہ تو بھی ہے تو ایک پتھر ہی مگر چونکہ میرے آقاﷺ نے تجھے بوسہ دیا تھا لہذا میں بھی تجھے بوسہ دے رہا ہوں۔تو جواب میں فوراً ہی وہیں موجود دوسرے ساتھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اصلا ح فرما ئی کہ عمر ؓ تم غلطی پر ہو یہ وہ پتھر ہے کہ جو شخص اس کو بوسہ دیتا ہے اس کواس کا اعمال نامہ نگلوادیا جاتا ہے اور قیامت کے دن یہ اس کے حق میں وہ اس عبادت کی گواہی دیگا۔ جبکہ سا ئنسدانوں کے پاس دنیا میں ایسی کسی چپس کا اس وقت کوئی تصور تک نہیں تھا کہ ایسا بھی کوئی چپس ہوسکتا ہے؟ جبکہ جو آج ایک چھوٹا سا بچہ بھی جانتا ہے۔ اس کے جواب میں حضرت عمر ؓ نے فرمایاکہ علی ؓ تم علم میں ہم سے بہت آگے ہو۔ اس قسم کی مثالوں سے تمام اسلامی تا ریخ بھری ہوئی ہے جس کا یہ چھوٹا سا مضمون متحمل نہیں ہو سکتا؟ لیکن اگر تعصب عینک اتار کر اس مذہب پر غور کریں جس کا دعویٰ ہے کہ یہ مکمل نظام ِ حیات ہے۔ تو ان پر بہت سے راز ظاہر ہوسکتے ہیں جو قرآن اور سنت کی شکل میں موجود ہیں۔کسی مذہب نے بھی اسلام سے پہلے کسی کو نہیں بتایا کہ اٹھنا کیسے ہے، بیٹھنا کیسے ہے، کھانا کیسے ہے، پینا کیسے ہے،وضو کیسے کرنا ہے عبادت کیسے کرنا ہے غرضیکہ زندگی کاکوئی شعبہ بھی ایسا نہیں ہے جس پر ہادی ﷺاسلام اور مذہب ِ اسلام نے روشنی نہیں ڈالی ہو۔ یا ان کی بتا ئی ہوئی کسی چیز میں سے کوئی بعد میں مضر صحت ثابت ہوئی ہو، سوائے مفید ہونے کے۔ جوکہ دنیا پر آہستہ کھلتی جارہی ہیں؟ اس پر کوئی یہ سوال کرسکتا ہے کہ اگر انہیں ﷺ سب کچھ معلوم تھا تو اپنے زمانے میں ہی کیوں نہیں ظا ہر فرمادیا اس کا جواب یہ ہے کہ اسوقت علم اتنا آگے نہیں بڑھا تھا جو کچھ انہوں نے کر کے دکھادیا وہ ہی حیرت انگیز اور اس دور کے دانشوروں کے لیے نا قبل تسلیم تھا کیونکہ آج ہم جن سہولتوں کو استعمال کر رہے ہیں انہیں وہ جانتے تک نہیں تھے۔اور بھی بہت سی نئی چیزیں کل جو ظاہرہونگی آ ج کے دانشور انہیں نیں جانتے ہونگے ۔ ہے اس پر کوئی غور کرنے والا ہے جو ہوس زر میں مبتلا نہ ہو صرف انسانیت سے ہمدری رکھتا ہو اور اس پر کام کرے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged . Bookmark the permalink.