و ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں بتایا تھا کہ ہم غیر ملکوں میں آتو گئے ہیں، مگر اپنے دین کو بچا کر رکھنے کے لئے صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ ہر گھر کے “ اولی الامر“ میں سے کوئی بھی صرف پندرہ منٹ کے لیے ہی سہی ایک مدرسہ قائم کر لے۔ ورنہ آئندہ آنے والے مسلمانوں کے اس سوال کے جو اب میں جو کہ وہ مسلمانوں جیسا نام دیکھ یا سن کر پوچھیں گے کہ کیا آپ بھی مسلمان ہیں؟ تو وہ جواب میں یہ کہا کریں گے کہ“ ہم تو نہیں ہیں مگر ہمارے اجداد تھے“۔ یہ میں خواب کی باتیں نہیں کر رہا ہوں! یہ وہ حقائق ہیں جن سے نئے آنے والے آج کل دوچار ہوتے ہیں اور یہ روز کا مشاہدہ ہے۔ چونکہ میں کنیڈا میں ہوں لہذا میں یہاں کے واقعات آپ کی خدمت میں پیش کرسکتا ہوں اگر تمام پیش آنے والے واقعات سنا ؤں تو آپ حیرت میں رہ جا ئیں گے اور ان سے ایک کتاب تیار ہوسکتی ہے؟ مگر اب بیکار ہے، اس لئے کہ کتاب اب کسی کو مفت بھی دو تو بھی نہیں پڑھتا۔ البتہ سوشیل میڈیا بچا ہے جس کے ذریعہ ہم خود کو بچا نے کے لئے ہاتھ پیر مار سکتے ہیں۔ جو بچ گئے انکی بھی مثالیں موجود ہیں۔ سب سے پہلے کنیڈا آنے والے یورپین امیگرنٹ کے بعد چینی، ہندوستانی، لبنانی اورسکھ مذ ہب کے ماننے والے تھے۔ لبنانیوں نے ایڈمنٹن میں پہلی مسجد بنا ئی جسے اب دوسرے چلا رہے ہیں جوکہ اللہ نے ان کی جگہ بھیجدیئے کیونکہ یہ ہی اس کی سنت ہے؟ اس لیئے کہ انہوں نے اپنا دین اور تہذیب چھوڑدی اور اس کا نتیجہ وہ ہوا جو کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے۔ ان کے برعکس سکھ برادری نے اپنی زبان ، تہذیب اور مذہب نہیں چھوڑا نتیجہ یہ ہے کہ آج ان کی قوم زندہ ہے وہ خود زندہ ہیں ان کی کئی نسلیں گزر چکیں ہیں مگر ان سے اگر آپ پوچھیں گے آپ کون ہیں جواب ملے گا کہ ہم “پنجابی“ ہیں۔ جہا ں کہیں بھی وہ گئے سب سے پہلے اپنی عبادت گاہیں بنا ئیں جن کے ساتھ لنگرخانے جاری ہیں جو سب کے لیئے کھلے ہوئے ہیں کمیونٹی ہال ہیں جہاں گرنتھ صاحب (ان کی مقدس کتاب) کا درس ہروقت جاری رہتا ہے۔ لہذا نہ ان کے بچے اپنے دین سے دور ہوئے نہ ہی اپنی تہذیب اور زبان سے وہ محروم ہوئے اس لیئے کہ ان کی مادری زبان ہی مذہبی زبان بھی ہے۔ وہ جہاں جاتے ہیں وہ اپنی زبان کو فروغ دینے کرنے کی کوشش کرتے ہیں،پنجابی اسکول کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے بچے اور بلا تفریق خواتین اور مرد ان عبادت گاہوں میں بطور رضا کار کام کرتے ہیں۔ وہ لوگ اپنی آمدنی کا پانچواں حصہ اپنی عبادت گاہوں کو دیتے ہیں یہ ہی ان کی کامیابی کےراز ہیں؟ ہمارے یہاں یہ کام ہمارا صرف ایک فرقہ کر رہا ہے وہ ہے اثنا عشری عقیدے کے لوگ جن کا مرکز عراق میں ہے وہ سب اپنے مرکز کو خمس بھیجتے ہیں۔اور یہاں بطور رضاکار بھی اپنی امام بار گاہوں میں جا کر کام کر تے ہیں اور کوئی بھی مذہبی تقریب ترک نہیں کرتے جمعہ کی نماز بھی پڑھتے ہیں اور جمعرات کو بھی امام بارگا جاتے ہیں۔ جبکہ انہیں کہیں امام بارگاہ بنا نے کی ضرورت ہوتی ہے تو ان کا مرکز ان کی مدد کرتا ہے یہ دوسری مثال ہے۔ یہ دو مثالیں اس لئیے پیش کیں کہ انسان کہیں بھی رہے، کوئی کام ناممکن نہیں ہے۔ انکا دین بھی محفوظ رہ سکتا ہے زبان اور کلچر بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ بشرط کہ ِ وہ اپنے دین اور کلچر کی حفاظت کرنا چاہیں۔ اگر یہ نہیں کریں گے توان کی پہچان کا وہی عالم ہوگا جو میں نے اوپر بتایا کہ “ ہم نہیں ہمارے اجداد مسلمان تھے “ ایسا کیوں ہوا وہ اس وجہ سے کہ ہم اپنی بقا کے لیئے کچھ زیادہ فکر مند نہیں ہیں۔ اگر ہوتے تو یہ صورت ِ حال ِ پیدا نہ ہوتی؟ جبکہ ہمارے یہاں بلا تفریق فرقہ ہر ایک کی ذمہ داریاں مقرر ہیں۔ جہاں بچے ذمہ دار ہیں والدین کی خدمت کرنے کے لیے، وہیں والدین ذمہ دار ہیں ان کی اسلامی طریقہ پر پرورش کرنے کے لیے؟ کیا کسی نے کبھی یہ سوچا کہ ہمیں لوٹ کر اللہ کے سامنے واپس بھی جانا ہے؟ اس سلسلہ میں وہاں جب سوال ہوگا تو ہم کیا جواب دیں گے۔یہ سوچنے کے لیئے میں والدین کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ سوچ لیں کہ وہاں جاکر اپنی صفائی میں کیا عذر پیش کریں گے؟ جبکہ بچے تو یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جا ئیں گے کہ ہم کیا کرتے ہمارے والدین نے اپنی ذمہ داریا ں پوری ہی نہیں کیں اور ہمیں کچھ بتا یا ہی نہیں؟ اب بھی عمل کا وقت ہے آپ نے یہ کہاوت تو سنی ہوگی کہ“ ریت میں منہ چھپالینے سے طوفان نہیں ٹلا کرتے“ یہ ہمارا المیہ ہے ہم نے کسی معاملے میں بھی وقت سے پہلے نہیں سوچا؟ہم ہمیشہ وقت گزرنے کے بعد سوچنے کے عادی ہیں۔ میں نے شروع میں ایک لفظ استعمال کیا تھا “ اولی الامر “ اس کے لئے آپ سورہ نسا ء کی آیت نمبر59 پڑ ھ لیجئے۔ اس آیت میں تین شخصیتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔اور انکےا تبا ع کا حکم دیا گیا ہے۔“ اللہ سبحانہ تعالیٰ، رسول کریم ﷺ اور اولی الامر منکم۔ “ شروع میں، میں نے اولی لامر کا لفظ استعمال کیا ہے جس کی تفسیر پر فقہ میں بڑا اختلاف ہے کہ اس سے مراد کیا ہے؟۔ جبکہ قرآن پاک میں اللہ اور رسول ﷺ کریم کے بعد یہ لفظ آیا ہے۔ یہاں میری مراد وہ شخصیت ہے جس کی بات کہیں چلتی ہو؟ جس کی گھر بھی ایک اکائی ہے؟ کیونکہ جس کی بات ہی نہ چلتی ہو اسے یہاں مخاطب کرنا ہی بیکار ہے؟۔ اگراس بحث کو میں یہاں چھیڑوں تو فقہ کی طرف جانا پڑے گا۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اللہ نے اپنے بعدجن کاﷺ ذکر کیا ہے وہ ہمارے لیئے کتنے اہم ہونا چاہیئے اور معاشرہ میں انکا (ص)کا کیا مقام ہونا چاہیئے ہر صاحب فہم سوچ سکتا ہے؟۔ کیونکہ ہماری تاریخ میں اولی الامر ایسے بھی تھے، ہیں اور پہلے بھی ہو گزرے ہیں جنکا کہیں حکم نہیں چلتا تھا۔ کچھ ایسے بھی تھے کہ ان کی موجودگی کے باوجود جوسردار بھی جتنے حصہِ زمین پر قبضہ کرلیتا اس کو وہ بادشاہت کی سند دیدیتے تھے۔دین میں اللہ سبحانہ تعالٰی نے اپنے بعدحضور ﷺ کو جگہ عطا فرما ئی ہے۔لہذا حکم اور ترتیب کے لحاظ سے رہنمائی لینا چاہیئےصرف حضور ﷺ سے ۔چونکہ اللہ سبحانہ نے یہ بھی فرمادیا ہے کہ تمہارے نبی کے اسوہ حسنہ (ص) میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے سورہ الاحزاب آیت نمبر٣٣ ۔ اس لئیے ہونا تو یہ چا ہیئے تھا کہ ہر ایک ہر معاملہ میں نبی ﷺ کی طرف دیکھتااور ان کے نقشِ پاتلاش کر کے اس پر عمل کرتا مگر افضلیت چونکہ علما ء اور ان کے فتوؤں کو حاصل ہے؟ لہذا نہ کوئی اسوہ حسنہ (ص) کو تلاش کرتا ہے نہ اس پر بات کرتا ہے۔ حالانکہ جو علم ان کے پاس تھا وہ کسی کے پاس نہیں تھا۔ پھر انہوں نے عمل کر کے بھی دکھا یا کہ یہ کیسے کیا جا ئے گا؟ جبکہ ہمیں ہدایت دوسرے عطا کر رہے ہیں کہ ہم کیا اور کیسے کریں ۔ یہ ہے وہ فرق جوکہ دین میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔مثلاً جتنی مکی سورتیں ہیں ان میں عذاب کا ذکر زیادہ ہے آج کے حالات میں وہ سنانے کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔ جبکہ مدینہ منورہ میں جو سورتیں نازل ہوئیں۔ ان میں رحمت اور ثواب کا ذکر زیادہ ہے۔ تو کلیہ یہ ہوا کہ جب لوگ سرکش ہوں تو انہیں ڈرا جا ئے اورجب لوگ اطا عت کی طرف مائل ہوں تو انہیں خوشخبریاں دی جا ئیں۔ لیکن علما ء اور خاص طور پرگدی نشین مشائخ موجودہ مسلمانوں کی تمام برا ئیاں دیکھتے ہوئے بھی بس ایک ہی جملہ کہتے رہتے ہیں کہ “اللہ بڑا رحیم ہے وہ معاف کر دے گا۔“ بے شک وہ ایسا ہی ہے اس میں کسی مسلمان کی دو را ئیں نہیں ہوسکتیں“ لیکن ساتھ میں توبہ کا طریقہ کار بھی بتایا جا ئے کہ اس کا طریقہ کیا ہے۔ جبکہ وہ فرما رہا ہے کہ“ میں اپنی سنت تبدیل نہیں کرتا“۔لہذا اس کے سامنے معافی کے لئے پیش ہونے سے پہلے جو بندوں کے حقوق کسی نے مارے ہیں پہلے وہ انہیں جاکرمنا ئے۔ پھر اللہ سبحانہ تعالیٰ کے سامنے پکی توبہ کرنے کے لیئے پیش ہو تو وہ معاف فرما دے گا۔ کیونکہ وہ غفور الرحیم ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ میں کسی کو سزا دیکر خوش نہں ،بس تم میری بات مان لیا کرو؟ بغیر توبہ کی شرائط پوری کیئے ہو ئے اس کے سامنے پیش ہونے کے لیئے مشورہ دینا نہ جانے کس قانون کے تحت ہے؟ یہ مشورہ دینے والے ہی بتا سکتے ہیں۔ جوکہ امت کی غلط راہ روی کاباعث ہے۔ اللہ ہمیں ہدایت دے (آمین)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے