علم و حکمت اور مسلمان۔۔۔۔ شمس جیلانی

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ِ گرامی ہے کہ اگر میں سورہ فاتحہ کی تفسیر کرو ں تو وہ اتنی ضخیم ہوگی کہ دس اونٹوں پر لادنا پڑے گا۔یہ تو ہے ہادی ِ اسلام ﷺکے ایک نائب کی حالت اسی پر قیاس کر لیجئے کہ پھر صاحب قر آنﷺ کی علم میں کیا حالت ہوگی؟ میں نے اپنے گزشتہ ایک مضمون میں حضور ﷺ کی سائنسی معلومات کے بارے میں ایک دو باتیں بتا ئیں تھیں۔ جس سے میرا مقصد یہ تھا کہ حضورﷺ کی حکمت کے بارے میں لوگ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کریں اور دنیا کو بتا ئیں۔ یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ ہمارے علماء ان (ص) کے ارشادات پر غور کریں اور ان میں پوشیدہ رموز سمجھیں اور سمجھا سکیں ۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہ ہمارے علماء اس سلسلہ میں کچھ زیادہ کوشاں ہیں اور نہ ہی جو لوگ اس سلسلہ میں کوشاں ہیں ان کی وہ ہمت افزائی کرتے ہیں۔ بلکہ ان کی ہمت شکنی کرنے میں دیر نہیں کرتے یہ کہہ کر کہ تم کیا جانوں دین کی باتیں؟ کوئی بھی طالب علم اپنی اس عزت افزائی کے بعد منہ کھولنے کی دوبارہ کسی عالم کے سامنے ہمت نہیں کریگا۔جبکہ آج کا ہر بچہ انٹر نیٹ کے ذریعہ روزانہ اپنے علم میں اضافہ کرتا رہتا ہے جو وہ چاہتا ہے معلوم کرتا رہتا ہے؟جبکہ وہاں اسے عالمانہ نوعیت کا علم تو بہت ہی کم ملتا ہے۔ البتہ الٹی سیدھی معلومات اس کے نا پختہ ذہن میں جا کر بیٹھ جاتی ہیں پھر وہ اس کے ذہن سے نکا لے نہیں نکلتیں؟ یہ وہ صورت حال ہے جس سے آج کے مسلمان گزر رہے ہیں۔ اس کا حل یہ ہی کہ علما ئے کرام اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور وہ جواب دینے کے لیئے انٹر نیٹ پر وقت نکالیں جوکہ اسلام کے بارے میں نئی اور پرانی معلو مات پر مشتمل ہونا چا ہیے؟ چونکہ پرانی باتیں تو نئی نسل سنتے سنتے تھک چکی ہے۔ تاکہ نئی نسل اپنی اسلامی معلومات کو صحیح سا نچے میں ڈھال سکے۔ بجا ئے اس کے وہ یہ کہدیں قضا اور قدر وہ مسئلہ ہے کہ تم کیا کوئی بھی اس کو نہیں سمجھ سکا ہے؟ یااس مسئلہ پر بات کرنا منع ہے؟جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ہم نے قر آن کو آسان کردیا ہے۔ ہے کوئی غور کرنے والا؟جبکہ ہمارے یہاں کوئی غور کرنے اور اپنے علم کو بڑھانے کے لئیے تیار ہی نہیں ہے جوکہ سرکارﷺ کا حکم ہے تو اسلام دنیا میں کیسے پھیلے گا۔ جبکہ اسلامی علوم کاجتنا ذخیرہ اردو میں پاکستان میں تھا وہ دونوں جگہ اردو کی ناقدری کی وجہ سے بازار سے غائب ہوتا جا رہا ہے اور جلد ہی وہ مفقود ہوجا ئے گا۔ جب کہ بازار میں وہی چیزفروخت ہوتی ہے جس کی مانگ ہو ورنہ اچھی اچھی کتابیں فٹ پر پڑی نظر آتی ہیں یا انہیں لائبریری میں ڈیمک کھا رہی ہوتی ہے جوکہ آجکل عام مشاہدہ ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس علم نہیں ہے کیونکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ قر آن میں ہر خشک اور سوکھی چیز اور ہرمسئلہ کا حل مو جو دہے اگر وہاں نہ ملے تو پھر حضور کے اسوہ حسنہﷺ میں تلاش کریں وہاں آپ کو مل جا ئے گاصرف غور کرنے اور شدید محنت کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اسلام بھی دوسرے اَدیان طرح پیچھے چلا گیا ہے اور مزید چلا جائے گا۔ مثال کے طور پر میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔ کہ ایک شخص انؓ کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا کہ مسئلہ قضا و قدر کیا ہے؟ انہوں ؓ نے اسے یہ نہیں فرمایا کہ اس پر بات کرنا منع ہے، یا تم بھی نہیں سمجھ سکوگے کوئی اب تک نہیں سمجھ سکا ہے؟ بلکہ فرمایا کہ اپنا ایک پیر اٹھا ؤ، اس نے اٹھالیا پھر انہوں ؓ نے فر مایا کہ اب دوسرا بھی اٹھاؤ تو اس نے کہا کہ یہ تو میرے لیے ناممکن ہے میں گر پڑونگا۔ آدمی صاحب ِ علم تھا خاموشی سے چلا گیا۔ کیونکہ انہوں ؓ نے دو لفظوں نے اتنا بڑا فلسفہ بیان کردیا تھا کہ وہ مطمعن ہوگیا۔ اگر سوال کرنے والا خود صاحب ِ علم نہ ہوتا تو وہ یقیناًآگے سوال کرتا؟ کیونکہ انہوں نے پورا فلسفہ بیان فرمادیا تھا۔ جس میں یہ بات واضح ہوگئی تھی۔ کہ تقد یر دو قسم کی ہے ایک اٹل ہے جسکو تقدیر مبرم کہتے ہیں اور دوسری جوہے وہ معلق ہے یعنی وہ اٹل نہیں بلکہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ جبکہ مبرم تبدیل نہیں ہوتی وہ لوحِ محفوظ میں لکھ دی گئی۔ اگر ایسا نہ ہو تا تو دنیا کی پیدائش کا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قر آن میں کئی جگہ فرمایا ہے کہ ہم نے دنیا بنائی ہی اس لئے ہے کہ ہم بندے کے اعمال کی بنا پر قیامت کے دن فیصلہ کر یں کہ کون جنت کامستحق ہے اورکون جہنم کا۔ نماز پڑھتے ہوئے میری نوے سال کی عمر ہوگئی ایک سے ایک جید عالم کے پیچھے نماز پڑھی، مگر کسی کو اس مسئلہ پر بات کرتے ہوئے کبھی نہیں سنا جو کہ اسلام کی اساس ہے۔ زیادتر مسلمان آ پ کو اس مسئلہ پر کنفیوزڈ اور یہ کہتے ہوئے ملیں گے کہ جب سب کچھ پہلے سے لکھا ہو ا ہے تو بندےکا قصور ہے؟ اگرعلماء انہیں تقدیر کی تفصیل سمجھا دیتے تو ان کے ذہین الجھے ہوئے نہیں رہتے۔بہت ہی سیدھی سی بات ہے کہ انسان کو اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا ہے تو کیا خلیفہ بغیر اختیار کے بھی ہوسکتاہے اور پھر اس کا فائدہ کیا ہے؟ مزید آسانی کے لیئے یوں سمجھ لیجئے کہ ہم کسی کو اپنا اٹارنی بنا تے ہیں تو اس کو اپنے سارے حقوق تو نہیں دیدیتے،کچھ دیتے ہیں کچھ نہیں دیتے ۔وہ ہمارے بجا ئے اتنے ہی کام کر سکتا ہے جتنے اسے کرنے کا حق حاصل ہے اگر وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا تو اس کے بنا نے کا فائدہ کیا ہے جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ یہ بھی قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ ہم نے کوئی چیز فضول نہیں بنائی ہے۔ جس کی خلیفہ کو کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ کرنے سے روکا گیا ہے تووہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے سامنے اس کے لیے جوابدہ ہے؟ جیسے کہ حضرت آدم ؑ کو منع کردیا گیا تھا کہ اس درخت کے قریب مت جانا جس کا جواب ان کو دینا پڑا جو قرآن میں موجود ہے؟ جبکہ ان کی اولاد کو بہت سی چیزوں سے منع کردیا گیاکہ یہ مت کرو وہ مت کرو؟ پھر یہ بھی بتادیا کہ ہم نے دونوں راستہ بتا دیئے ہیں چاہو تو طاغوت کا اتباع کرو اور اس کے دوست بن جاؤ،چاہو تو صراط ِ مستقیم پرچلو اور ہماری ولایت میں خود کو دیدو یہ بھی فرمادیا کہ دین کے معاملہ میں جبر نہیں ہے۔ سورہ 2کی آیت نمبر256 اور 257 بمع تفسیرپڑھ لیں تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کسی حد تک خود مختار ہے۔ جبکہ کچھ حصہ تقدیر مبرم پر مشتمل ہے اور تمام کا ئنات اس کی پابند ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انسان کی عمر بڑھتی بھی ہے گھٹتی بھی ہے۔ اس کو اگر سمجھنا ہے ہوتو اس سے سمجھ لیجئے کہ موجودہ سائنس مانتی ہے کہ اگر نظام کا ئینات میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر ہوجا ئے تو تمام نظام درہم بر ہم ہو جا ئے گا۔ مگر معجزہ شق القمر واقع ہوا حضور ﷺ کی ایک انگلی کے اشارے سےدنیا نے دیکھا کہ چاند دو تکڑے ہوگیا مگر نظام کا ئینات اسی طرح چلتا رہا کیوں؟ اس لئیے کہ اس کی گنجا ئش اللہ سبحانہ نے پہلے سے ہی رکھی ہو ئی تھی۔ جس طرح ہر ہونے والی بات اس کے علم ہے اسی طرح یہ بھی اس کی علم میں تھی۔ اس نے فرما دیا ہو جا پس وہ گئی۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.