یہ خط ان خطوط کی آخری کڑی ہے جوآپ کے وزیر اعظم بننے سے پہلے اخباروں میں میری طرف سے شائع ہوتے رہے ہیں، جو سب آپ کے حق میں تھے اور وجہ یہ تھی کہ آپ مدینہ جیسی ریاست بنا نا چاہتے تھے؟یہ آخری اس لیئے ہے کہ یوٹرن لینا میرے لیے ممکن نہیں ہے اور دوسرے میں عمر کے بھی جس حصے میں ہوں اس کے حساب سے بھی آخری ہو سکتا ہے؟
ہم سے ممکن ہے نہیں یہ کہ ا پنے قلم کو موڑ دیں۔ اس سے بہتر ہے کہیں ہم شمس ؔلکھنا چھوڑدیں،لیکن لکھنا بھی نہیں چھوڑ سکتے ہیں؟وجہ یہ ہے کوئی بندہِ مومن آزاد نہیں ہوتا اور ہمیں حکم ہے کہ اسکا پیغام سب کو پہنچا ئیں جس کے لیے ہم نے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے دوسرے مومن کا ہر فعل بشمول دوستی اور دشمنی صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کے لیئے ہوتا ہے، یہ ہی وجہ تھی کہ ہم ڈھائی سال تک خاموش رہے کہ دیکھیں آپ کرتے کیا ہیں! جبکہ آپ نے پہلے کانٹے صاف کرنے کے بجا ئے جو کہ کلیہ ہے کہ پہلے کانٹے صاف کرو پھر مچھلی کھاؤ؟ آپ نے کانٹے باقی رکھتے ہوئے، مستقبل کی منصوبہ بندی شروع کردی؟ نتیجہ یہ ہوا کہ عوام گرانی کی مار سہہ نہ سکے اور آپ کی مقبولیت کا گراف بہت نیچے چلاگیا۔ اس لیے کہ انہیں تو روز کمانا اور کھانا ہوتا ہے؟ اگر انہیں یہ خوشخبری دی جا ئے کہ دس سال کے بعد بجا ئے سوکھی روٹی کے بچے بچے کو بریانی ملا کرے گی؟ تو ان کے سامنے سوال یہ ہوگا کہ وہ اتنے عرصے بغیر کھائے زندہ کیسے رہیں گے،ہر عقلمند آدمی یہ سوچے گا ضرور؟ اگر آپ کی محبت میں نہ بھی سوچے تو اپنا خالی پیٹ اور بھوکے بلکتے ہوئے بیوی بچے اسے سوچنے پر مجبور کردیں گے؟ یہ ہی ہوا کہ آپ کے اس رویہ سے مفاد پرستوں کو عوام کی ہمدردی ستانے لگی اور انہوں نے موقع پاکر زہر اگلنا شروع کردیا؟ نتیجہ وہ ہوا جو کہ آجکل دنیا دیکھ رہی جبکہ پاکستان جس صورت ِ حال سے گزر رہا ہے، افسوس ناک ہی نہیں انتہائی خطر ناک ہے ایسے حالات میں ڈھائی سال انتظار میں گزارنا بہت بڑی بات تھی؟ رہا یہ کہ انتشار پھیلانے والو ں کاٹھکانہ کہاں ہو گا؟ وہ سورہ رعد کی آیت نمبر 25 کی تفسیر میں پڑھ لیں؟مگر ہم سے ایک غلطی ہوگئی کہ ہم بھی یہ سمجھ کر کے کہآخری کہ موقع ہے عوام بڑی امیدوں اور ارمانوں کے ساتھ عمران خان کو لیکر آنا چاہ رہے ہیں، کیونکہ انہوں نے دعویٰ کیا ہوا کہ میں مدینہ جیسی ریاست بنا ؤنگا ان کے ساتھ آپ کی حمایت کر بیٹھے اور یہ بھول گئے کہ“ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے سب اسی زلف کے اسیر ہوئے“ اس جیسے ماحول میں وہ لوگ کہاں سے آئیں گے جو اقتدارکو بوجھ سمجھتے ہوں جو مدینہ جیسی ریاست بنا نے کے لیئے چاہیئے ہوتے ہیں۔ رہے آپ تو اسے چلانے کے لیے کل پرزے کہاں سے لائیں گے؟ نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی ریاست تو بنانا بہت بڑی بات ہے آپ اس کا سنگ بنیاد بھی نہ رکھ سکے؟اور ایسی دنیا میں کوئی ترکیب ابھی تک ایجاد نہیں ہوئی کہ بنیاد کے بغیر عمارت تعمیر ہوجا ئے۔ اس پر طرہ یہ کہ آپ نے آتے ہی پہلا یو ٹرن یہ کہہ کر لے لیا کہ یو ٹرن لینا کوئی بری بات نہیں ہے؟ جبکہ اسلام میں یہ سب سے معیوب حرکت سمجھی جاتی ہے اور وہ اپنے ماننے والوں کو قرآن میں بار بار ہدایت دیتا ہے کہ اپنے عہد کی پابندی کرو۔ وہ تھا آپ کا یہ پہلا ارشاد کہ اگر ہٹلر یو ٹرن لے لیتا تو ناکام نہ ہوتا اس کے بعد آپ نے اتنے یو ٹرن لیے کہ ملک کو بھول بھلیوں میں پھنسا دیا؟ اب آپ شاید خود راستہ بھول کر اس میں گم ہوگئے ہیں حتیٰ کہ آپ خود کو بھی عملی مسلمان نہیں بنا سکے؟ جس سے کہ آپ کو کوئی نہیں روک سکتا تھا نہ اتنی جراء ت کسی میں تھی، جیسے کہ آپ کو حضور ﷺ روضہ مبارک پر ننگے پاؤں جاتے ہوئے کسی نے نہیں روکا اور آپ کا یہ کارنامہ تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھا جا ئے گا۔ پھر نہ جانے آپ کو کیا ہوا کہ کبھی اس طرف دیکھتے نظر آئے،تو کبھی اس طرف دیکھتے نظرآئے؟ جب عوام اس طرف دیکھتے ہیں تو نواز شریف جیل جاتے نظر آئے ،جوآپ کا قوم سے وعدہ تھا کہ میں سب کااحتساب کرونگا کسی کو نہیں چھوڑونگا این۔آر۔او کسی کو نہیں دونگا؟ مگر وہ آپ کے بچپن کے دوست تھے ان کی وہ حالت دیکھ کر آپ کی کابینہ کو بھی رحم آگیا اور بقول آپ کے ایک خاتون وزیر تو رونے لگیں؟ آخر بشریت جو ہوئی؟“جبکہ اسلام حدود جاری کرتے ہوئے رحم کھانے کو منع کرتا ہے“ اس کے لئیے پنجاب کے محکمہ صحت کو ذر یعہ بنایا گیا؟ اورنو از شریف صاحب پاکستانیوں کا منہ چڑاتے ہوئے اور مسکراتے،اور انگور کھاتے پاکستان سے پرواز کرتے ہو ئے نظر آئے۔ اس سلسلہ میں ان کو تمام سہولتیں آپ ہی کی حکومت نے فراہم کیں ورنہ کس نے کیں؟ ایک آخری سوئی نکالنے کو رہ گئی تھی، کیونکہ اس کی وجہ سے ذمہ داری براہ راست آپ کی حکومت پر آتی تھی؟وہ بھی جی کڑا کرکے آپ نے خود ہی نکال دی کہ انکا ای، سی، ایل سے نام نکال دیا گیا اور وہ لندن چلے گئے۔ حالانکہ ان کا پہلا ریکارڈ آپ کے سامنے تھا کہ وہ کس طرح تین دفعہ پہلے باہر جاکر اور واپس حکومت میں آچکے ہیں؟ مگر وہ سب کچھ باہمی رضامندی کے بغیر کس طرح ہو ا اور شوکت خانم اسپتال کے ڈاکٹروں کی رائے کیسے ان کے حق میں شامل ہوگئی وہ مجھے نہیں معلوم۔ البتہ آثار کہہ رہے ہیں کہ اب وہ چوتھی مرتبہ بھی واپس آئیں گے اور جلد ہی آئیں گے اور عوام یہ تماشہ بھی پھر دیکھیں گے؟۔ جبکہ وہ ملک سے باہر بھیجے گئے تھے تو بقول پاکستانی میڈیا کے وزیر اعظم بہت غصے میں تھے؟ امید ہے جب وہ واپس آئیں گے تو بھی اسی طرح بہت غصہ میں ہونگے۔ اگر آپ اسلام اپنے اوپر ہی نافذ کر لیتے تو آپکو یہ حدیث ضروریاد ہوتی کہ“اگر غصہ آجا ئے تو اس جگہ سے ٹل جا ؤ،اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جا ؤ اور اگر بیٹھے ہوئے تو لیٹ جاؤ؟ اور غصہ میں کوئی فیصلہ نہ کرو۔ مگر شاید آپ نے یہ کہاوت بھی کبھی نہیں سنی کہ غصے میں انسان اپنی عقل کھو بیٹھتا ہے؟ اگر آپ نے سنی ہوتی تو غصے کو ایک طرف رکھ کر بات کر تے؟ اس پر طرہ یہ کہ جیسے کہ اب تک ساری حکومتیں اللہ سبحانہ تعالیٰ سے وعدے کرکے یو ٹرن لیتی ر ہی ہیں اسی طرح ویسا ہی آپ نے بھی یو ٹرن لے لیا۔ اور اس سے کیئے ہوئے وعدے پورے نہ کر کے مزید مصیبتیں خود مو ل لے لیں؟ تعلقاتِ بندگی اگر اس سے استوار رکھتے تو کم ازکم اس سے ضرور بنا کر رکھتے پھر وہ مدد بھی ضرورت کرتا اور اس کی نصرت ساتھ ہوتی کہ وہ مالک ا لملک ہے اس کام ہی یہ ہے کہ کسی کو تخت پر سے اتارنا اور کسی کوتخت پر بٹھاناہے؟ جبکہ کوئی غلطی کرکے توبہ کرلے اور اس کی راہ پر دوبارہ چلے تو بھی اس کا وعدہ ہے کہ ہرطرف سے ہن برسے گا،بصورت دیگر اس کا عذاب بھی شدید ہے۔ رہے عوام بیچارے وہ پہلے بھی پستے رہیں اب پھر وہ پس گئے، معاشرہ ویسا کا ویساہی رہا۔ ملک میں احتساب اور انقلاب کا خواب خاک میں مل گیا۔ یہ سب کچھ آپ کی حکومت ہونے کے باوجود کیسے ممکن ہوا وہ آپ کو ہی پتہ ہوگا۔ کیونکہ آپ کی مرضی کے بغیر یہ نئے قسم کااین، آر، او، نامکن تھا۔ آگے کیا ہوگا وعدہ خلافی کے بعد،وہ اللہ ہی جانتا ہے؟ جبکہ ہر قسم ک معافیہ بھی ناراض ہے تمام محکمہ جات بھی ناراض ہیں کہ آپ نے زخمی تو سب کو کیا شکار کسی کو نہ کرسکے۔ غرض کہ دوست بھی ناراض دشمن بھی ناراض ہیں اور رب بھی ناراض۔ ابھی بھی وقت ہے کہ توبہ کرلیں تاکہ حالات آپ کے حق میں ہوجا ئیں اورآپ اپنے وعدے پور ے کرسکیں؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے