عمران خان کا کارونا کی تیسری لہر پر مغز خطاب۔۔۔ شمس جیلانی

ع کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔ بعض کہتے ہیں کے جانے والے شاعر کو آنیوا لے واقعات کا علم پہلے سے ہو جاتا ہے۔ اس شعر سے یہ ہی اندازہ ہورہاہے کہ غالب ؔ کوعلم تھا کے میرے بعد میں بہت تیزی سے ہر مسئلہ پر فیصلہ کرنے والے حکمراں آئیں گے، جیسے کہ ان کے دور میں پہاڑی ریاست نیپال میں ہوا کرتے تھے کہ وہاں جنگلات بہت تھے اور روز انہ آگ لگتی رہتی تھی جو وہاں نگراں رہتے تھے وہ جب ٹھیکیداروں سے ملکر کافی درخت کاٹ چکے ہوتے تھے تو جنگل میں آگ خود بخود بڑھک اٹھتی تھی؟ پھر وہ بادشاہ کو خط لکھ دیا کرتے تھے کہ جنگل میں آگ لگ گئی ہے اور سال بھر کے بعد اس کے پاس سے جواب آجاتا تھا کہ آگ بجھا دو اور اس تکڑے میں نئے درخت لگادو تاکہ جنگل ہرا بھرا رہے؟ اور غالب کو یہ بھی ضرور معلوم ہوگا کہ ہندوستان میں ایک ملک پاکستان بنے گا تو وہاں بھی جب سال بھر کے بعد ایک وبائی بیماری میں حکمراں مبتلا ہونگے تو وہ اسی طرح اپنے عوام کو خبردار کیاکریں گے کہ تیسری جو لہر وارد ہوئی ہے وہ پچھلی قسموں سے زیادہ خطر ناک ہے ہم خود بھی اس میں مبتلا ہوگئے ہیں کیونکہ ہم نے لاپر واہی برتی؟ مگر تم احتیاط ضرور کرنا اور ہم سے عبرت حاصل کرنا کہ ہم نے جو سینیٹ کے الیکشن کی وجہ سے لاپر واہی کی وہ ہمیں نہیں کرنا چاہیئے تھی اب اس کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔ چونکہ ہمارے وسائل اتنے نہیں ہیں کہ ہم اپنی دکان بند کرکے بیٹھ جائیں خود بھی کھائیں اور بٹھا کر پوری قوم کو بھی کھلا ئیں۔ اس لئیے بزرگ کہہ گئے ہیں اور بزرگوں کی بات ماننا بھی سعادت ہے؟ جو ہمارے پاس مولانا حالی ؔ کے فرمودات کی شکل میں موجود بھی ہے کہ ع ً دکاں بند کرکے رہابیٹھ جو دی اس نے بالکل ہی لٹیا ڈبو کیئے جا ؤ کوشش میرے دوستو مبادا پزیرائی ہو یا نہ ہو لہذا ہم کوشش تو حسب ِ سابقہ پوری طرح کرتے رہیں گے لیکن ہمارے محدود وسائل کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے تم، ہم سے کچھ زیادہ امید مت رکھنا۔؟اسی غزل کا ایک مصر ع اور بھی ہے جو وہی فرما گئے ہیں وہ یہ ہے کہ ًپتھر پہ جو پانی پڑے متصل مبادا کے گھس جا ئے پتھر کی سل۔ ریختہ میں اس کی پیروڈی بھی ملتی ہے۔اس پر آپ لوگ شاید عمل نہ کرسکیں ؟ تو پھربزرگ کہہ گئے ہیں کہ عقل مند کو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ ابھی تو آپ دعا مانگئے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ جلد ہمارے حکرانوں اور انتظامیہ کوصحت یاب کرے اور صحت ِ کاملہ عطا فرمائے (آمین) تاکے ہم اپنا تیزی سے فیصلے کرنے کا میعار بدستور قائم رکھ سکیں۔
لیکن ہمارا دل یہ سب کچھ ماننے کو قطعی تیار نہیں ہے۔ کیونکہ ہم ہر بات کو منجانب اللہ سبحانہ تعالٰی سمجھتے ہیں، ہم ہمیشہ کی طرح اپنے آپ کو الگ محسوس کر رہے ہیں۔ یہ سوچ رہے ہیں کہ پچھلی دفعہ جو پاکستان بچا رہا اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے پاکستانیوں اور انکے حکمرانو ں کو ایک اور انعام سے نواز کر انہیں موقع دیا تھا کہ وہ بمع حکمرانو ں کے خود کو سدھار لیں اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جو یہ آخری موقع دیا ہے اس پر اس کا شکر ادا کریں؟جو وہ نہیں کرپائے؟ بلکہ جب دنیا نے اس راز کو جاننا چا ہا اور ان کے پاس یہ معلوم کرنے وفود آئے کہ اس کی وجہ کیا ہے کہ پاکستانی دنیا کے مقابلے میں کم متاثر کیوں ہوئے؟تو انہوں نے بجا ئے شکر ادا کرنے اور وہ نوازشات گنانے کے جو کے پاکستان کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اب تک عطا کیں تھیں انہیں الٹا یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم اور ہماری انتطامیہ بہت ماہر ہیں جوکہ اس وبا کے تدارک کا باعث ہو ئے۔ دوسرے پاکستا نیوں کی قوت مدافعت بہت زیادہ ہے اس وجہ سے بھی ہم محفوظ رہے یہ زیادہ قوت مدافعت ملاوٹ شدہ غذا سے کیسے بڑھتی ہے یہ راز بھی نہیں بتایا۔ اگر اس کے بجا ئے وہ یہ کہتے کہ ہم شکرگزار ہیں اپنے رب کے اور یہ ہم پر اللہ کا کرمِ خاص ہے۔ تو اللہ سبحانہ تعالیٰ خوش ہوجا تے کہ میرے بندوں نے شاید توبہ کاارادہ کرلیا ہے جوکہ میرا شکر اداکیا اور تائب ہوگئی ہے لہذا موسیٰ (ع) اور تمام دوسرے پیغمبروں اور نبیوں ؑکے بشمول حضورﷺ کے وعدوں کے مطابق سورہ ابراہیم کی آیت 7کے مطابق فرشتوں کو یہ حکم صادر فرمانے کہ انہیں اور زیادہ عطا کرو تاکہ یہ اور زیادہ میرا شکر ادا کریں اور میں اس سلسلہ میں مزید انعامات کی شکل میں ان پر اپنی مہربانیاں جاری رکھوں؟ لیکن انہوں نےجب ناشکری کی تو گوشمالی کا حکم صادر فرمادیا؟ جبکہ دنیا پاکستانیوں کی انتظامی صلاحیتیوں اور موجودہ کردار کے بارے میں ان سے کہیں بہتر اور بہت زیادہ جانتے ہیں تھے وہ اس سے کیا متاثر ہوتے؟ البتہ پاکستانیوں نے دنیا پر دین کی تبلیغ کرنے کا ایک موقع ضائع کردیا؟دوسری طرف گوشمالی کے لئے تیسری لہر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بھیجدی اور اسی آیت کا وہ حصہ رو بہ عمل لانے کا اس نے فرشتوں کو حکم دیدیا جس میں لکھا ہوا ہے کہ اگر تم نے نا شکری کی تو ہمارا عذاب بھی شدید ہے؟ اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور توبہ کر کے سدھرنے کی توفیق عطا فر آئے (آمین) کیونکہ عذاب کی توبہ سے ٹلنے کی قرآن میں مثال تو موجود ہے مگر شیخیوں سے عذاب دور ہونے کی کوئی مثال موجودنہیں ہے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged . Bookmark the permalink.