(151 – 200) قطعات شمس جیلانی

151
آخری حل۔۔۔۔ شمس جیلانی

کرسکتا وہ ہی کچھ ہے ہاتھ میں جس کے ہے ساری کائینات
کوئی مفلس کیا کرے گا جو پھر رہا ہے کہیں پر خالی ہاتھ
اب جنگ ہو یا امن ہو لگ رہا دنیا کا انجام کچھ اچھا نہیں
ایک ہی حل با قی بچا ہے بن کے بندہ مان لو اس رب کی بات

152
سلام میں مسکرانا ۔۔۔۔شمس جیلانی

شمس بالتحقیق یہ بھی صدقہ ہے
جو ہنس کے ملتے ہیں مسکراتے ہیں
ڈھونتے پھرتے ہیں انہیں ملے کوئی
خود بھوکے رہ کر انہیں کھلاتے ہیں

153
خدمتِ خلق۔۔۔شمس جیلانی

اپنی جنت وہاں بنا تے ہیں
دوسروں کے جو کام آتے ہیں
مخلوق ہے کنبہ عیال اللہ
بھوکا رہ کر اسے کھلاتے ہیں

154
باعث رسوائی۔۔۔۔ شمس جیلانی

پہنچا وہ ثریا تک جس نے یہ روش اپنائی
ہے مومن ہی فقط جانے عظمتِ سحر گاہی
بس جلدی اٹھو یاروں جلدی اٹھو بھائی
دیر تک سونا ہے باعثِ ذلت و رسوائی

155
م کھانا کم سونا؟ شمس جیلانی

کم کھانا کم سونا ایسا پنہاں کچھ راز ہے
جانے اسے وہی ہے جو خالق وکار ساز ہے
جب دینے پہ آئے وہ تو دے بے انتہا رزق
اللہ ہے جسکا نام اور وہ جو بندہ نواز ہے

156
ضعف ایمانی۔۔۔ شمس جیلانی

اللہ جسے چاہے نہیں اس کو بلا ہے نہیں کھاتی
ہے وقت سے پہلے توموت کسی کو نہیں آتی
دکھلا کرکے بلا ئیں وہ ڈراتا ہے انہیں شمس
سب بھگتےہیں نتیجہ قوم یہ ایماں نہیں لاتی

157
عاقل کی بات ۔۔۔شمس جیلانی

عاقل کی کوئی بات پرانی نہیں ہوتی
جوزیست گزارے وہ فانی نہیں ہوتی
وہ چھوڑکے جاتا ہےیہاں صدقہ جاری
یوں سامنہ اللہ کے پشیمانی نہیں ہوتی

158
بیاں معتبر نہیں ۔۔۔ شمس جیلانی

ہر شہ بے اثر ہے کسی میں اثر نہیں
دعوے کرے لاکھ نہیں اور مگر نہیں
ہمہ صفت فقط بس اللہ کی ذات ہے
جو کہےاس کے سوا بیاں معتبر نہیں

159
جد وجہد لازمی ہے۔ شمس جیلانی

شمس کلیہ یہ ہے وہی کاٹے ہے جو کہ فصل بوتا ہے
وہ فصل کیا خاک کا ٹے گا؟ جو کہ ہر وقت سوتا ہے
بشر کو عطا ہوتا و ہی ہے سعی کرتا ہے وہ جس کی
ہے ناداں وہ کہ بعد میں افسوس کرتا ہے یا روتا ہے

160
عطا ئے عجیب۔۔۔ شمس جیلانی

جو لٹائے راہ میں اسکی بے شمار دیتا ہے
جوکرے شمار تو کرکے اسے شمار دیتا ہے
عجیب داتا ہےمانگو تو ہےوہ خوش ہوتا
اگرہزار بار جو مانگو وہ ہزار بار دیتا ہے

161
تغیرات ِ زمانہ۔۔۔شمس جیلانی

وہ دور ہم نےدیکھا ہےجبکہ ہم بھی ایک بچے تھے
محل بہت کم تھے،گھر،گھروندے وہ بھی کچے تھے
لیکن اس دور میں ملتاکوئی جھوٹا بات تھی مشکل
قناعت تھی دیانت تھی اور سارے لوگ سچے تھے

162
قناعت پسندی۔۔۔ شمس جیلانی

میں دین کا خادم ہو ں اس سے مجھے انکار نہیں ہے
اس راہ میں کاوش کوئی جاتی کبھی بیکار نہیں ہے
اے شمس بچپن سےوطیرہ میں نے رکھا ہے قناعت
جو مانگوں سوااس کے یہ دل اُس کاروادار نہیں ہے

163
خوفِ محشر ۔۔۔ شمس جیلانی

اس واسطے یہ شمس زمانے سے جدا ہے
ہر لمحہ رَ کھے سامنے جو رب کی رضا ہے
ہر وقت ہی خوف سے لرزاں ہے رہے وہ !
کھٹکااسےلاحق ہے ہونا بپا روز ِ جزا ہے

164
اللہ اکبر۔۔۔ شمس جیلانی

کیا نہ دیا اللہ نے بڑا احسان ہے صا حب
ناشکرا مگر پھر بھی بڑاانسان ہےصا حب
شمس ‘ اللہ اکبر ‘ سے مردے ہوئے زندہ
اس نعرہ مقدس میں بڑ ی جان ہے صاحب

165
اللہ تو اللہ ہے ۔۔۔ شمس جیلانی

اللہ تو اللہ ہے اسی کی الگ شان ہے صاحب
مدر نیچر اسے کہلو یہ بھی پہچان ہے صاحب
اک جرثومے کو کیا بھیجا ہےکل دنیا ہوئی ہلکان
سامنے اس کے دھرا رہ گیاکل سا مان ہے صاحب

166
فلاح اسی میں ہے۔۔۔ شمس جیلانی

آئینِ خدا کو بندہ کوئی جھٹلا نہیں سکتا
تو بہ کے بنا بندہ کو ئی فلاح پا نہیں سکتا
بہتر یہ ہی ہے سرکو جھکادو اللہ کے آ گے
تاحکم خدا یہ جرثومہ بھی جا نہیں سکتا

167
فرشتے سلام کرتے ہیں۔۔۔ شمس جیلانی

یہاں رہ کر وہاں کے جو مرد کام کرتے ہیں
خدائے پاک بڑھا کر انہیں امۤام کرتے ہیں
مچھلیاں تک ان کے لئیے دعا ئیں کرتی ہیں
فرشتے آتے اور جاتے ہر دفعہ سلام کرتے ہیں

168
منافق کی پہچان اور انجام۔۔۔ شمس جیلانی

جو کہتا ہے وہ کرتانہیں منافق کی یہ پہچان ہے صاحب
یہ میں نہیں کہتا ہوں نبی(ص)پاک کا فرمان ہے صاحب
پھر یہ بھی لکھاہے کہ درک ِ اسفل ہے منفاق کا ٹھکانہ
ثابت یہ حقیقت ہے وہ بھی از روئے ِقر ان ہے صا حب

169
ا نقلابِ زمانہ۔۔۔ شمس جیلانی

یہاں پہ جب تک ہم عامل قر آن ہوکر رہے
رہے زمیں پراسوقت تک آسمان ہوکر رہے
جو چھوڑا دین کو ہم نے ، تو ُرل گئے ہم بھی
بہاریں روٹھ گئیں اور خزاں نشان ہوکر رہے

170
عالمِ بے عمل۔۔۔ شمس جیلانی

عالمِ بے عمل کہاں لکھا ہے کہ صاحب اکرام صاحب
جواس کو بھی ولی مانیں تو یہ دین پر الزام صاحب
حیرت ہےکیا ہوگیا اس عقلِ مسلماں کو بھی اے شمس
ایسوں کی بھی یہ قوم بنی اب بندہ بے دام ہے صاحب

171
سچائی کا صلہ۔۔۔۔ شمس جیلانی

جو سچ ہیں بولتے انہیں صادق شمار کرتے ہیں
خدا ئے پاک اور اس کےکُل فرشتے پیار کرتے ہیں
نیک بندوں میں ہمیشہ ان کا شمار رہتا ہے
ہر ایک بات پر ان کی سب اعتبار کرتے ہیں

172
مومن اورجہد ِمسلسل۔۔۔ شمس جیلانی

بہتر یہ ہی کہ نہ گناہ ہر گز کیا کریں
ہو جا ئے گر خطا تو توبہ کیا کریں !
مُسَلسَل دیں شکست شیطاں لعین کو
حاصل فتح اس پہ یوں فوراً کیا کریں

173
میرے سرکار ﷺکیسے تھے۔۔۔ شمس جیلانی

کسی نے پوچھا صدیقہ ؓسے نبیﷺ ذیشان کیسے تھے
کہاقرآں پڑھا تم نےوہ ﷺبس قرآن جیسے تھے
یہ زمانہ آج بھی ہے ڈھونڈتا پھر تانقشِ قدم انکےﷺ
بہر صورت وہ ﷺ کامل تھے مگر انسان جیسے تھے

174
سرکار کیسے تھےﷺ۔۔۔ شمس جیلانی

بتاؤ ں تم کو کیا اے لوگوں میرے سرکارﷺ کیسے تھے
لکھا لا ئے رب سے تھے سرداری سردارﷺایسے تھے
یہ تھااجداد کا شیوہ کہ وہ گزرتے خوشبو پھیلاتے
تھے چمکتے مثل ِسورج وہ صاحب ِکردار ایسے تھے

175
عقیدہ اور عمل ایک سا۔۔۔شمس جیلانی

بہت بودا ہے شمس یہ دنیا کا سہارا
بہتر ہے ہم اس کے ہورہیں وہ ہمارا
عقیدہ اوراپنا عمل بھی ایک سا ہو!
رہےاللہ لبس ہمیں جی جاں سے پیارا

176
اوش اپنی نصرت رب کی۔۔۔ شمس جیلانی

ہے جیسا راستہ چنتا کوئی مردود یا مسعود ہوتا ہے
جو چا ہے اپنے لئیے چن لے ماحول کل موجود ہوتا ہے
ہے پتہ بندے کوجب چلتا کہ فرشتے جاں نکا لیں ہیں
روح نکل کر ہی نہیں دیتی کہ راستہ مسدود ہوتا ہے

177
اللہ دعا فرما ئیے۔۔۔ شمس جیلانی

دیکھنے میں تونظر ہے آرہی ، یہ زمیں ہے بے حد حسیں
لیکن سرکتی جا رہی ہے رفتہ رفتہ پیروں نیچے کی زمیں
چھوڑ کر ہم نے خود ہی اسوہ حسنہ ﷺخود کو رسواکرلیا
للہ دعا فرما ئیے رحمت اللعالمیں، رحمت اللعالمیں ﷺ

178
جات اسوہ حسنہ ﷺ میں ہے شمس جیلانی

مجھے اسوہ ﷺحسنہ کے سوا کوئی رستہ نہیں معلوم
پہلے سے کوئی تھا بھی وہ اب ہوگیا معدوم
فرما دیا سرکار ﷺ نے چلے آؤ مرے پیچھے
کیا قصّے لیئے بیٹھی ہے یہ امت مرحوم

179
تغافل سا تغافل۔۔۔ شمس جیلانی

جیسے ہے بڑھا علم یہ دنیا تجھے پہچان رہی ہے
جومحبوبﷺ نے فرما یا تیرے ابھی مان رہی ہے
اک جر ثو مے سے ساری اکڑ ہو گئی رخصت !
کرتا ہےیہ کون بس بن یونہیں انجان رہی ہے

180
صدقہ رسول (ص) شمس جیلانی

یہ جو کچھ ہے شمسؔ آج سب صدقہ ِ حضورﷺ ہے
کم ہیں جہاں میں لوگ جنہیں حق کا شعور ہے
گزر ہے دن اور رات سب کا حمدو ثنا میں بس
ان کا ﷺجو کہ غلام ہے وہ کب اللہ سے دور ہے

181
ناز ہےغلامی پر۔۔۔ شمس جیلانی

کرتا ہوں ذ کر ان ﷺکا پیاروں ، کا دین کا
کرکے گمان بیٹھا ہوںمیں جنت حسین کا
اس کے سوا ہے پاس اساسہ کوئی نہیں
ہے فخر کہ غلام ہو ں صا دق امینﷺ کا

182
توبہ گناہ کا کفارہ ہے۔۔۔ شمس جیلانی

کس سے زمانے میں حماقت نہیں ہوتی
مومن وہ نہیں امید شفاعت نہیں ہوتی
کرتے رہو توبہ تم اے شمس مسلسل
ظالم کو گناہ کرکے ندامت نہیں ہوتی

183
اللہ کی شان ۔۔۔۔ شمس جیلانی

لاریب شک نہیں ہےکہ وہ رب مہربان ہے
پرَ ویسے اب کہاں ہیں مگر اونچی اڑان ہے
کندھے جھکے تھے پہلے کمر مثلِ کمان ہے
پھر بھی قلم رواں ہے یہ اللہ کی شان ہے

184
کوئی گناہوں کا معترف نہیں۔۔۔ شمس جیلانی

زمانے کا چلن بدلا قافلہ رستے میں کھڑا ہے
ہر گھر سے ابھی اٹھ رہی اُف، آہ ، اور بکاہ ہے
ناراض ہےلگتا جس ہاتھ میں دنیا کی بقا ہے
پھر بھی نہیں کہتا کوئی گناہوں کی سزا ہے

185
اب بھی مان جاؤ۔۔۔۔ شمس جیلانی

جینے میں نہ لذت ہے نہ مرنے کا مزہ ہے
پژمردہ زمانہ ہے اور یہ مسوم فضا ہے
بندے کی بصیرت پر ہے شک سا گزرتا
کہہ دے کوئی یہ کہ نہیں کوئی خدا ہے

186
عادتِ مومن ۔۔۔ شمس جیلانی

شمس مومن کی تو عادت ہے راضی بہ رضا رہنا
اس راہ مین جو مشکل ہو جپ چاپ اسے سہنا
کیا کچھ نہ ملے اس کو گنتی ہے نہیں اُس کی
بس بالا ئے تصور ہے جو کہ وہ پہنے وہاں گہنا

187
بہاریں روٹھنے کی وجہ۔۔۔ شمس جیلانی

سوچا کبھی کیا تم نے کہ کیوں روٹھی بہار ہے
کچھ تو کیاہے ایسا کہ سر کاندھو ں پہ بار ہے
جو ماں سے بھی کرے زیادہ بندوں سے پیار ہے
ہےبین ثبوت اس کا کہ خفا ہوگیا پرور دگار ہے

188
ازم ہے بزرگوں پر سراہیں وہ انہیں جو اچھا کام کرتے ہیں
جو اپنا ہی نہیں بزرگوں کا بھی کا بھی اونچا نام کرتے ہیں
انہیں میں ڈاکٹر ریحان ہیں جو کہ خلف ہیں حضرت اسد کے
یوں لا ئقِ ستائش ہیں سیرت نبوی(ص) کو جہاں میں عام کرتے ہیں

189
بندہ نواز۔۔۔ شمس جیلانی

بندےبنو تو تم، وہ بندہ نواز ہے
اللہ عظیم ہے اور وہ کار ساز ہے
اسکو ہی پکارو حاجت روا ہے وہ
لازم اس کے واسطے دینا آواز ہے

190
جناب ِصفدر ھمدانی کی ستر ہویں سال گرہ پر
خیر سے حضرتِ صفدر ہوئے آج ستر سال کے
لوگ عنقاہیں جہاں میں اِس پرانی چال کے
ان کے اندر قناعت شمس اِس قدر ہے موجزن
نہ ہی وہ طالب دنیا رہے نہ ہی پجاری مال کے…

191
کج بحثی سے اجتناب کرو ۔۔۔ شمس جیلانی

اللہ کا حکم یہ ہے جاہل اگر جو ٹکرے کہنا سلام ہے
حضرت مولانا روم کا بھی کا سب کویہ ہی پیام ہے !
“ چالیس اگر ہوں علماء ان کو ایک دلیل ہے بہت“
جوجاہل سے عاقل ٹکرے اس کا خجالت مقام ہے

192
یہ کرونائی تہذیب ۔۔۔ شمس جیلانی

عجب روش ہے سب منہ چھپائے پھرتے ہیں
غیر ہی نہیں، بنے اپنے، پرائے پھر تے ہیں!
سرِ راہ مل جا ئےکوئی بھی شناسا شمس
نگاہ بد لی سب آنکھیں چرائے پھر تے ہیں

193
خیر اور شر میں فرق۔۔۔ شمس جیلانی

جو اہلِ خیر ہں سرکو جھکا کر چلتے ہیں
جو اہلِ شر ہیں وہ گردن اٹھا کر چلتے ہیں
یہ ہی فرق اچھوں بروں میں ہے اے شمس
برے جو لوگ ہیں فتنے جگا کرچلتے ہیں

194

وشیار باش۔۔۔ شمس جیلانی

خفا ہونے نہیں دینا کسی کو ہے منانا مشکل
یہ دور ِ کرونا کسی گھر بھی ہے جانا مشکل
شمس اس بات کا بس رکھو ہمیشہ ہی خیال
دوستی کرنا ہے آسان مگر اسکا نبھانا مشکل

195
مقام عبرت۔۔۔ شمس جیلانی

یہ جہاںمقام ِ عبرت ہے سوچئے تو سہی
کرے برا جو کام اس کو ٹوکئیے تو سہی
ماۤل اس کا یہ ہے کہ دیدار کو ترستے ہیں
کرکے توبہ آنسو اپنے پوچھئیے تو سہی !

196
ایک سوال؟۔۔۔ شمس جیلانی

وہ کئی بار آئے بلا ئے بٹھا ئے نکا لے گئے
ہے فطرت کچھ ایسی نہ طیور سنبھالے گئے
گلہ ہے انہیں یہ پوچھتے ہیں لوگ کیوں
جو کہ دولت تھی لوٹی وہ تم کہاں لے گئے

197
گردش ِ زمانہ۔۔۔ شمس جیلانی

ہوا بھر دیتے ہیں چمچے کم ظرف اکثر پھول جا تے ہیں
کوئی مالک بھی ہے ان کاوہ اوقات اپنی بھول جاتے ہیں
بنا دیتا ہے وہ جب با عثِ عبرت ان ہی کو زمانے میں
پٹک دیتا ہے انکو فرش پر پھر پڑے وہ دھول کھاتے ہیں

198
پاکستان کے شب وروز۔۔۔ شمس جیلانی

کہتے ہیں کہ چلنا پھرنااب نام تلک ہے
پر چلتا وہ صبح سے لیکر شام تلک ہے
دن رات کی ہردم تو ، تو میں میں ہے
وہ بھی لاٹھی ڈنڈا اور کہرام تلک ہے

199
خدا یاد آیا ۔۔۔۔ شمس جیلانی

ایک سال تک پیہم یہ راز سمجھا یا
خدا کاشکر ہےان کو خدا ہے یاد آیا
خبر پڑھی دسمبر چاریوم ِالہ منا ئنگے
سمجھ میں آیا تو نکتہ پردیر میں آیا

200
آنکھ اوٹ پہاڑ اوٹ۔۔۔ شمس جیلانی

جب تک تو ہے اس کے سامنے، تو کب اس سے دور ہے
ہردم انعامات کا رہتا تجھ پر اے عاقل جاری ظہور ہے
ہر لمحہ اس کے سامنے اور معیت میں بھی ہے شمس
آنکھ اوٹ پہاڑ اوٹ بس یونہیں ایک قصہ مشہور ہے

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in qitaat. Bookmark the permalink.