مالک ِ اوصاف و کائینات وہی ہے۔۔۔ شمس جیلانی

مگر اس کا مسلمان ادراک رکھتے ہوئے قطعی خیال نہیں رکھتے اور اپنے حدود زیادہ تر پار کر جا تے ہیں اور انہیں خبر بھی نہیں ہوتی؟ حالانکہ انہیں یہ کہنا چاہیئے کہ میں نے کچھ نہیں کیا یہ سب کچھ اسی کی عنایت ہے۔ مگر وہ یہ کہہ بیٹھتا ہے کہ یہ میں نے کیا ہے؟ پھر اس کی بعد میں اس کی سزا بھی بھگتنا پڑتی ہے۔ یہ عمل ازل سے جاری ہے اور ابد رہے تک جاری رہےگا؟ مگر انسان اپنی شیخی بیان کر نے سے بعض نہیں آتا؟ حالیہ واقعہ کرونا کو دیکھ لیجئے پاکستانیوں نے اپنی شامت خود بلا ئی جبکہ دنیااس عجوبے پر حیرت زدہ رہ گئی تھی کہ جب کرونا امریکہ جیسے ملک کے قابو سے باہر تھا، مگر پاکستان جیسے نا خواندہ ملک کو اس نے بہت کم نقصان پہنچایا؟ لہذا پوری دنیا امنڈ پڑی یہ معلوم کرنے کے لیے کہ آخر وہ کیا وجہ ہے کہ یہ وبا تمہارے یہاں بہت کم پھیلی اور تمہارے عوام اور خواص اس سے محفوظ رہے ،بہت ہی کم متاثر ہوئے؟ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پوری قوم سجدے میں گر جاتی اور اجتمائی تو بہ کرکے نماز شکرانہ ادا کرتی اور پوچھنے والوں کو جواب یہ دیتی کہ ہمارے عقیدے کے مطابق ہم پر یہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کافضل ہے کیونکہ ہم اس کے ماننے والے ہیں لہذا اس نے اپنے بندوں کو اس وبا سے اسطرح محفوظ رکھااور یہ ہی اس کی سنت ہے کہ جب بھی کہیں لوگوں کی بد اعمالیوں کی بنا پر عذاب آیا تو اس نے ہمیشہ اپنے بندوں کو بچالیا؟ دیکھنا چا ہیں تو دنیا کی تاریخ دیکھ لیجئے۔ جہاں اس نے نوح ؑ کی امت میں سے اپنے ماننے والوں کو بچا لیا، وہیں حضرت یونس ؑ کی امت کو معاف کردیا کہ انہوں نے عذاب کے آثار دیکھ کرتوبہ کر لی اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نےعذاب ٹالدیا۔لیکن اس کے برعکس پاکستانیوں نے عذاب دیکھ کر کہا کہ یہ تو وبا ہے جوکہ اکثر آتی رہتی ہے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ نہیں سوچا کہ وبا کسی ایک شہر میں یا علاقے میں آتی ہے پوری دنیا میں بہ یک وقت نہیں آتی اگر وہ پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لے تو عذاب ہوتا ہے؟ حکمرانوں نے تو یہ کہا کہ ہم نے انتظام بہت اچھا کیا تھا،ہماری نوکر شاہی جسے ہم بروکریسی کہتے ہیں بہت ہوشیار ہے۔ہمارے لوگوں میں قوت ِمدافعت بہت اچھی ہےانکا (امیون سسٹم) بہت اچھا ہے۔ اس وجہ سے ہم متاثر نہیں ہوئے۔ اس پر پاکستانیوں کی واہ واہ تونہیں ہو سکی کہ وہ جانتے تھے کہ یہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں کیونکہ ان کے ذرائع جاسوسی ان سے کہیں آگے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہنس دیئے اور چلے گئے دل میں یہ کہہ کر کہ ان کو خوش فہمی میں ہی مبتلا رہنے دو؟ جبکہ وہاں کے علماء اور بھی آگے نکل گئے حالانکہ انہوں نے قوم ِ عاد اور ثمود کے قصے قرآن میں پڑھے بھی تھے کہ وہ عذاب سے بھرے بادلوں کو بارش بر سانے والے بادل سمجھے تھے اور خوشیاں منانے لگے تھے ؟ انہوں نے قوم کو بجا ئے ڈرانے کے خوشخبری دیدی کہ یہ تو ا بتلا ہے جو کہ افراد یا قوموں کی ترقیِ درجات کے لیےآتا ہے؟ انہوں نے یا تو سوچا ہی نہیں اور اگر سوچا تو شاید قوم کو بتایا ہی نہیں کہ ان قوموں اور ان افراد پر جوکہ اللہ کے متقی بندے ہوں ان پر ابتلا آتی ہے انکے درجات بڑھانے کے لیئے۔ ان پر نہیں جو نافر مان ہوں؟ اس کے بجا ئے اگر اس پر وہ یہ کہتے جوکہ بندگی کا تقاضہ تھا کہ ہم اور ہمارے عوام اللہ کو مانتے ہیں جو کہ واحد ہے۔ لہذا ہم نے اس کی اس تنبیہ (Warning )پرتوبہ کی اور اپنی روش کو درست کرلیا اب ہم نے سارے غلط کام چھوڑ کر توبہ کرلی ہے۔ تو نتائج دنیا دیکھتی کہ کچھ اور ہی مرتب ہوتے اور ان میں سے نہ جانے کتنے اپنی مزید تحقیق کےنتیجہ میں ایمان لے آتے اور پاکستانی مزید انعامات کے حقدار ہوتے مگر انہوں نے اپنے فرض سے روگردانی کی اور تبلیغ کاایک موقعہ جوکہ اللہ سبھانہ تعالیٰ انہیں نیکی کمانے کے لیے دیا تھا اسےکھودیا۔ جبکہ تنبیہ (Warning ) کےبعد اس نے اپنے قانون کے مطابق ایک سخت قسم کرونا کی بھیجدی اور پاکستانیوں کی ساری شیخی دھری کی دھری رہ گئی؟ اب پریشان پھر رہے ہیں کہ کیا کریں اور کیسے اپنی ڈینگوں کا بھرم رکھیں؟ کیونکہ انجام تو یہ ہونا ہی تھا جو ہوا۔ اسے سمجھنا ہے تو سورہ بنی اسرا ئیل کی آیت نمبر11 پڑھ لیجئے۔جس میں انسان کی اللہ سبحانہ تعالیٰ نے خود بطورِ خالق تعریف یہ فرمائی ہے کہ انسان بڑا جلد باز ہے۔ ایک اور دوسری آیت میں نادان بھی کہا ہے کہ انسان نادان ہے۔ کیا یہ دونوں ان پر لاگو نہیں ہوتیں؟ جواب آپ پر چھوڑ تا ہوں؟ اس مسئلہ پر تو اللہ سبحانہ تعالیٰ کا فر مان مان کر وہ اپنے رسم و رواج کےمطابق مطمعن ہو گئے ہوں گے۔ لیکن اپنی روش کے مطابق اس کی باتیں مان کر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے ہونگے۔ اگر انکا اللہ پر عقیدہ پختہ ہوتا تو وہ ایک شکر گزار قوم کی طرح توبہ اور نوافل شکرانا ادا کرتے اور وہ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 7کے مطابق نواز ے جاتے ۔مگر اب وہ اس آیت کاوہ حصہ بھگت رہے ہیں جو کہ یہ ہے کہ “ اگر کفر کرو گے تو میرا عذاب بھی شدید ہے“ مگر مشکل یہ ہے کہ جس طرح وہ تعزیرات پاکستان پر عمل نہ کرنے کے عادی ہیں، اسی طرح تعزیرات خداوندی پر بھی عمل کرنے کے لیئے تیار نہیں ہیں؟ ایسے لوگوں کو خود قرآن کیا کہتا انہیں وہ کس زمرہ میں شامل کر تا ہے۔ وہ قرآن میں جا کر پڑھ لیں تو صورت حال واضح ہوجائیگی اور کسی مولوی سے پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی کہ یہ ابتلا ہے یا عذاب۔ یا پھر قر آن میں جاکر ہی پچھلی قوموں کے قصے پڑھ لیں تو ان پر سب کچھ عیاں ہوجائے گا کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ سے زیادہ سچی کس کی بات ہوسکتی ہے؟ رہی تبلیغ کی بات وہ تو اب مسلمان اپنے فرائض بندگی میں شامل ہی نہیں سمجھتے۔ کیونکہ اس کے لیئے اپنا کردار ویسا بنانا پڑتا ہے جیسا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ مومنوں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو پہلے کبھی تھا بھی اور حضور ﷺ کے حکم کی تعمیل میں تبلیغ کرنے کے لیے وہ ساری دنیا میں پھیل بھی گئے تھے۔اور انہیں دیکھ کر دنیا متاثر بھی تھی اور ان دیکھے خدا پر ایمان بھی لائی تھی۔ اب مسلمانوں کے عمل دیکھ کر وہ مذبذب ہوجا تے ہیں کیونکہ وہ کردار اب ماننے والوں میں پوری طرح کہیں بھی رائج نہیں ہے۔ آئیے دعا کریں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں ہدایت عطا فر مائے( آمین)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.