صحابہؓ صحابیات ؓ اور کرامات۔۔۔ شمس جیلانی

یہ کلیہ ہے جوکہ بہت مشہور ہےکہ “جہاں کہ صحابہ کرام ؓاور صحابیاؓت کی حد ختم ہوتی ہے وہیں سے اولیا ئے عظامؒ کی حد شروع ہوتی ہے“ جبکہ اولیائے کرامؒ کی توبے انتہا کرامات کتابوں میں موجود ہیں تو صحابہؓ اور صحا بیاتؓ کی اس طرح کرامات کیوں نہیں ملتیں؟مجھ سے یہ سوال میرے ایک دوست نے دریافت کیا؟ تومیں نے جواب دیا کہ جب چودھویں کا چانداپنے عروج پر ہو اور چمک رہا ہو، توستاروں کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے یہ ہی معاملہ صحابیوں ؓ اور صحابیاتؓ کے ساتھ بھی ہے چونکہ حضور ﷺ اس وقت ان ؓ میں موجود تھے انﷺ کے سامنے ان ؓکی روشنی ماند ہونا ہی تھی۔ دوسرے بعد میں جو معاملہ حضور ﷺ کے ساتھ ہوا وہ بھی ایک وجہ ہوسکتا ہے کہ ایک دور ایسا بھی آیا بھی آیاکہ لوگ یہ باور کرا نے پر اتر آئے کہ حضور ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن ہے لہذا انہیں کوئی معجزہ نہ دکھانے ضرورت تھی نہ انہوں نے دکھایا جوکہ قطعی غلط بات تھی؟۔ کیونکہ حضور ﷺ کی پہلی دعوت ہی اک معجزے سے شروع ہوئی تھی۔جس کی وجہ سے ابو لہب نے کہا تھا کہ “ کیا تم ﷺ نے ہمیں یہ جادو دکھانے کے لئیے بلا یا تھا“ تمام مور خین اس پر متفق ہیں کہ اس کا اشارہ اس کھانے طرف تھا جو کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک چھوٹے سے برتن میں دودھ اور کھانے کی شکل میں لا ئے تھے اور وہ چالیس مہمانوں کا پیٹ بھرنے کے بعد بھی بچ رہا تھا؟ اس کے بعد جو سلسلہ معجزات شروع ہوا تو قدم قدم پر جا رہی رہاجس کی تفصیل بڑی طویل ہے۔ جو اس چھوٹے سے مضمون میں نہیں سما سکتی؟ یہ ہی معاملہ صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ کے ساتھ بھی ہوا کہ ان میں سے بہت سو ں سے کرامات سر زد ہوئیں مگر ان کا ذکر عام طور پر نہیں ملتا۔ البتہ اکا دکا تاریخ میں نظر آئے گا وہ بھی بہت تلاش کرنے سے اگر کسی کا مطالع دقیق ہوا تو۔ مثال کے طور پر پہلا واقعہ حضرت ابو سعید خذریؓ کا ہے کہ آپ کو حضور ﷺ نے کسی سریہ میں بھیجا وہاں کے قیام دوران وہاں کے کسی باشندے کو بچھونے کاٹ لیا توانہوں ؓ نے کچھ پڑھ کر دم کیا تو وہ ٹھیک ہوگیا اور اس نے کچھ بکریاں انہیں ؓ انعام میں دیں وہ واقعہ انہوں ؓنے واپس آکر حضور ﷺ کو سنایا تو حضور ﷺ نے پوچھا کہ تم نے کیا پڑھا تھا تو انہوں نے فرمایا، سورہ فاتحہ حضورﷺ بہت خوش ہوئے اور فرمایا اس میں سے میرا حصہ بھی دو؟انہیں کا ایک دوسرا واقعہ جو بہت مشہور ہے کہ وہ بحرین کی سرکوبی کے لئیے بھیجے گئے توانہوں نے ایرانی فوجوں کو وہاں سےنکال دیا اور وہ مجبور ہوگئے کہ ایک چھوٹے سے جزیرے منامہ نامی میں جمع ہو جا ئیں اور وہاں سے کسی طرح ایران چلے جائیں۔ وہ جا تے ہوئے کشتیوں کا پل بھی ساتھ لے گئے۔ اس وقت انہوں ؓ نے ان کے تعاقب میں اپنے گھوڑے کو سمندر میں ڈالدیا اور سواروں کو حکم دیا کہ میرا اتباع کرو! تاریخ ِ اسلام میں یہ پہلا موقعہ تھا سمندر میں گھوڑے دوڑانے کا۔ اس کے بعد دوسرا موقعہ حضرت سعد ؓبن ابی وقاص کے دور میں ہوا کہ جب وہ ایران کی مہم پر تھے انہوں (رض) ایرانیوں کے تعاقب میں اپنا گھوڑا سمندر میں ڈالدیا اور اپنے ہر اول دستے کو حکم دیا کہ میرے پیچھے آؤ۔ جبکہ وہ تیسرا واقعہ تھا جو کہ جو حضرت نوفلؓ کے دور میں افریقہ میں پیش آیا جس میں نہ انہوں (رض) نے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سمندر پارکیا نہ اوروں کی طرح اپنے ساتھیوں کو حکم دیا، بلکہ یہ فرمایا کہ“ اے اللہ مجھے پتہ ہوتا کہ اس سے آگے بھی تیری زمین ہے تو میں اس کو بھی فتح کر لیتا“ اس کے بہت عرصہ بعد حضرت طارقؒ کی قیادت میں سمندر کو کشتی کے ذریعہ پار کرکے اسلامی فوج اسپین گئی اور ساحل پر پہنچ کر ان کے حکم پر کشتیاں جلانے کا واقعہ پیش آیا؟جبکہ اسی واقعہ کو مورخین نے علامہ اقبال ؒ کے شعر سے منسوب کیا ہے کہ۔ بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے ۔البتہ حضرت نوفلؓ کے دور میں ان کے ساتھیوں نے یہ ضرور دیکھا کہ افریقہ کا جنگل جو کہ درندوں سے بھرا ہو ا تھا تو انہوں نے حکم دیا کہ منادی کردو کہ محمدﷺکے کچھ صحابیؓ بھی ہم میں شامل ہیں لہذا تم جنگل کا یہ حصہ خالی کردو اور دنیا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ درندے اپنے گلے میں اپنے بچوں کو لٹکائے نقل مکانی کر رہے ہیں دوسرا اہم واقعہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت ابو عبیدہ الجراح کو تین سو مجاہدین کا ایک دستہ لیکر سمندر کے کنارے کنارے چلنے کا حکم دیاجب ان کے پاس راشن ختم ہوگیا تو سب نے مل کر دعا کی اورسمندر نے ایک اتنا بڑا سمندری مردہ جانور سا حل پر پھینک دیا جوکہ اتنا بڑا تھا کہ اس کی آنکھ میں آدمی بیٹھ سکتا تھا؟ جب لوگ حکم کے منتظر ہوئے تو انہوں نے فرمایا میرا منہ کیا دیکھ رہے بسم اللہ کرکے کھاؤ۔ سب نے کھا یا اسے سکھا لیا اور اسے ساتھ لیکر مدینہ منورہ پہنچے تو یہ مسئلہ انہوں نے حضور ﷺ کے سامنے پیش کیا۔تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر اس میں سے کچھ بچا ہے تو مجھے بھی دو؟
ان کے علاوہ میں نے ان سب کی سوانح حیات لکھی ہیں ۔لہذا چاروں خلفا ئے راشد بشمول حضرت امام حسینؑ یہ سب صاحب ِ کشف و کرامات تھے تفصیل وہاں پڑھ لیں مگر مختصراً میں یہاں کچھ واقعات بتائے دیتا ہوں۔کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھو ں درِ خیبر فتح ہونا کیا کرامت نہ تھی جو دروازہ بعد میں چالیس آدمیوں سے نہیں اٹھا؟اِن میں سے ایک کے منبر پر بیٹھ کر میدان جنگ کی راہ نمائی کرنا کیا کرامت نہ تھی، اور دوسرے کے منبر سے ہی فتح کی خبر دینا کیا کرامت نہ تھی، تیسرے کی حضور ﷺ کی شام کو روزہ اپنے ساتھ کھولنے کی دعوت پر جان دیدینا کرامت نہ تھی؟ حضرت امام حسین ؓ کا کربلا میں تشریف لے جانا کیا کشف اور کرامت پر مشتمل نہ تھا۔ اس کی تفصیلاگر جاننا چاہیں تو تاریخ اسلام میں اور ان کی سوانح حیات میں جوکہ کسی کی بھی غیر جانبدار مورخ کی لکھی ہوئی ہو اس میں تلاش کریں مل جا ئیں گی؟ البتہ صحابیاتؓ میں سے حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ لاتعداد کرامات منسوب ہیں جو امت جانتی ہے جنہیں میرے خیال میں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے بھی اولیا ء ؒاللہ جوکہ زیادہ تر ان ؓ کی اولاد میں سے تھے اتنے صاحب ِ کمال تھے تو ان کے بارے میں کیا کہنا؟ البتہ ان ؓ کے علاوہ صرف ایک کا صحابیات ؓ میں ذکر ملتا ہے وہ ہیں حضرت شفاء بنت عبد اللہ بن الشمس ؓ جوکہ بنی مخزوم سے تعلق رکھتی تھیں اور انہوں نے کب ہجرت کی اس کی تفصیل نہیں ملتی مگر اس پر سب مورخ متفق ہیں کہ وہ پڑھی لکھی خاتون تھیں اور جلیل القدر صحابیات ؓمیں شامل تھیں ان کو چونٹی کاٹے کا کو ئی عمل آتا تھا جس کے لیئے بہت مشہور بھی تھیں۔جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو حضورﷺ سے پوچھا کہ میں اپنا یہ عمل جاری رکھوں؟ یا ترک کردوں؟تو حضور ﷺ نے فرمایا پہلے مجھے پڑھ کر سنا ؤ پھر میں ﷺ فیصلہ کرونگا۔انہوں نے سنایا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے تم جا ری رکھو؟ اور جب حضرت حفصہؓ ام المونین بنیں تو حضرت شفا ء کو حضور ﷺ نے ان کو پڑھانے پر مامور فرمایا تو حکم دیا ﷺکہ ان کو بھی وہ عمل سکھادو۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.