ورنہ وہی مثال صادق نہ آجائے کہ ع نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔ یہ ملک بنا تھا خدا کے نام پر اس یقین دہانی کے ساتھ کہ وہاں اللہ تعالیٰ کا نظام قائم کیا جا ئے گا اور اللہ کا نام وہاں بلند کیا جائے گا اورہم بلند کریں گے۔ لیکن اس سلسلہ میں ہوا کچھ بھی نہیں صرف دستور میں حاکمیت اعلیٰ بمشکل تمام اللہ سبحانہ تعالیٰ کے لکھدی گئی جولکھی چلی آر ہی ہے مگر عملی طور پر شروع سے ہی حکمرانی کسی اور کی ہی رہی ،اس لیئے کسی نے اگر کچھ کرنا چاہا تو وہ یاتو نہیں کرسکا ،یا اسے کرنے نہیں دیا گیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مملکت خداد نصف تیتر ہے اور نصف بٹیر ہے۔ اگر اسی کونام بلند کرنا کہتے ہیں تو وہ ہوچکا ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس کی دیوار پر موٹا موٹا کلمہ طیبہ لکھا ہوا مگر اندرجو ہورہا وہ یہ ہے کہ اس کے برعکس اسلام کی دھجیاں اڑ ائی جا رہی ہیں ایک غیر مسلم ممبر پرلیمنٹ نے شراب پر بندش کابل کچھ دنو ں پہلے پیش کردیا تو مسلم اکثریت ہونے کے باوجود وہ رد ہوگیا کہ اسے اکثریت نہیں ملی؟ اندر سارے وقت ہوتا کیا رہتا ہے وہ ہے مخالفت برائے مخالفت۔ جو مغربی جمہوریت کی جان ہو تو ہو؟ اس کی اسلام میں کوئی گنجا ئش نہیں ہے پھر یہ کہ یہاں سچ کا ساتھ دینا ہے، جھوٹ کی مخالفت کرنا ہے؟ حاکمیت اعلیٰ اللہ کی ہونے کے باوجود کیسے قائم ہو؟ اس لیئے ابھی تک وہ د س سا ل پورے نہیں ہوئے جس کے اندر تمام غیر اسلامی قوانین کو اسلام کاجامہ پہنایا جانا تھا؟۔ ایک سے ایک ظالم حکمرا ں آتے رہے اور لوگ انکا ساتھ دیتے رہے جبکہ حکم مسلمانوں کو مظلوم کاساتھ دینے کا ہے عربی میں ظالم کے معنی صرف وہی نہیں ہیں کہ جوکسی پر تشدد کرتا ہو وہ ظالم ہے، بلکہ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ جو کسی کا حق ادا نہ کرتا ہو یا کسی کاحق دبا لے تو وہ بھی ظالم ہے۔ جبکہ وہاں سب سے بڑا ظلم یہ ہورہا ہے کہ کمزور بندے بیچارے تو کسی گنتی می ہیں نہیں ہیں۔ وہاں اللہ سبحانہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کیا جارہا ہے؟ بہت سے دانشور جو اس وقت پیدا نہیں ہو ئے تھے وہ کہتے ہیں کہ پاکستان مسلمانوں کی مالی ترقی کے لیئے بنا تھا؟ تو پھر باقی مسلمانوں نے ووٹ کیوں دئیے انہیں کیا فائیدہ تھا جبکہ وہ تواپنی اپنی جگہ خوشحال تھے۔ لیکن ہم نے اس کے برعکس اپنے کانوں سے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ہما ری کوئی بات نہیں ہم جی لیں گے؟ مگر ہمارے بھائی اس سے فائیدہ اٹھا ئیں گے؟ہمیں تو ان کی اندر انصارؓان مدینہ کی روح نظر آئی تھی ممکن ہے کہ ہمارا چشمہ غلط ہو یا ہم نے غلط سنا ہو؟۔ پھرہر آنے والے نے ہمیشہ آتے ہی یہ کیوں کہا؟کہ ہم یہاں اللہ کا نظام قائم کریں گے یہ اور بات ہے کہ کیا کسی نے کچھ نہیں؟ جب یہ نعرہ پرانا ہوگیا تو موجودہ حکمراں نیا نعرہ لائے کہ ہم اسے مدینے جیسی ریاست بنا ئیں گے۔ بنا وہ بھی نہیں سکے؟ کہ بقول سیدہ سلام اللہ علیہا کہ “اسلام اپنے اوپر ووسروں کو ترجیح دینے کا نام ہے “ جبکہ وہ صفت وہاں اب پائی ہی نہیں جاتی ہے؟ یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک کی سمت ابھی تک متعین نہیں ہوسکی کہ اس کو جاناکس طرف ہے۔ وہ کب ہوگی یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے اصل میں جس نے یہ ملک نہ صرف بنایا ہے بلکہ اس کو نوازتا بھی آرہا ہے۔مسند احمد میں حدیث ہے جس کے راوی حضرت بشیر بن نعمان ؓ ہیں کہ میں اہل ِ طائف میں سے پہلا شخص تھا جو حضورﷺ کی خدمت حاضر ہو ا، جب میں پہاڑ کے دوسری طرف پہنچا تو میں نے حضور ﷺ سلام کیا حضور ﷺ نے خندہ پیشانی سے مجھے جواب دیا اور آسمان کی طرف منہ کرلیا! میں سمجھا کہ شاید آسمان پر کوئی نئی بات رونما ہوئی ہے جبھی تو منہ آسمان کی طرف کیا ہے۔ انہوں ﷺ نے منہ دوبارہ میری طرف کیا اور فرمایا کہ“ میرے بعد ظالم با دشاہ آئیں گے۔لوگ ان کا ساتھ دیں گے؟ نہ وہ میرے ہونگے نہ میں انکا ہونگا۔ البتہ جو ان سے نفرت کریں گے وہ میرے ہونگے اور میں ان کا ہونگا“ اس حدیث کو حضرت ابن ِ کثیر ؒ سورہ الکہف کی آیت نمبر46 کی تفسیر میں لا ئے ہیں۔ اس چوہتر سال میں ایک سے ایک ظالم حکمراں پاکستان پر مسلط ہوتا رہااورلوگو ں نے ہر آنے والے کو لبیک کہا کسی نے مخالفت نہیں کی حتیٰ کہ ساری امیدیں اللہ کو چھوڑ کر اسی سے لگا لیں؟۔ ایک تو ایسا آیاکہ برسوں تک وہ بجا ئے بیٹھنے کے بستر پر لیٹ کر حکومت کرتا رہا جس کانام تھا غلام محمد یعنی حضور ﷺ کا غلام جبکہ اسے حضور ﷺ کی غلامی چھو کر بھی نہیں گزری تھی حالانکہ وہ ایک بزرگ کا مرید بھی تھا مگر بات شروع کرتا تھا گالی سے جبکہ اسلام اور گالی دو علیٰحدہ چیزیں ہیں؟۔ چونکہ ہم نے ابھی آپ کو ایک حدیث سنائی ہے جس پر ہمارا توایمان کامل ہے کیونکہ اس کے بغیر ہم کیا کوئی بڑے سے بڑا عالم چل ہی نہیں سکتا نہ وہ نماز پڑھ سکتا ہے،نہ روزہ رکھ سکتا ہے،نہ زکات ادا کرسکتا ہے اور نہ حج کرسکتا ہے تو باقی بچا کیا؟ جبکہ آجکل بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جو کہتے پھرتے ہیں کہ حدیثوں کا پتہ نہیں کہ صحیح بھی ہیں یا نہیں ہیں؟ جس مقصد کے لیئے ایک دو صدی پہلے یہ پرو پیگنڈہ شروع ہوا تھا اس کا ایک ہی مقصد تھا کہ حضور ﷺ کی اہمیت کچھ موقعہ پرست گھٹانا چاہتے تھے۔کیوں؟ اس کی کہانی بہت لمبی ہے۔؟جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضورﷺ کی عظمت ہمیشہ بڑھاناچاہی چونکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہے اس لیئے اس واہیات پروپیگنڈے سے اکثریت متاثر نہیں ہو ئی اور کہنے والے جھوٹے ثابت ہوئے جبکہ ان کی اصلیت اب سامنے آگئی ہے؟۔ کیونکہ قرآن کے پہلے مفسر تو حضورﷺ ہی ہیں انہیں کے ذریعہ قرآن بھی پہنچا اور انہیں کے ذریعہ احادیث بھی پہنچی جنکی حقانیت روز بروز ثابت ہوتی جارہی ہے اور ہوتی رہے گی جب تک علم بڑھتا رہے گا۔ اگر آپ اسلام کی تاریخ دیکھ جا ئیں تو دیکھیں گے جب بھی کوئی نبی)
(ع) آیا تو ہمیشہ کتابیں ہر ایک ساتھ نہیں آئیں، لیکن دین کا پیغام انہوں ؑ نے بھی پہنچایا ۔ چونکہ حضور ﷺ نبی آخر الزما ں تھے ان کے بعد کو ئی نبی(ع) نہیں آنا تھا۔ ان کو تمام اوصاف میں درجہ اکملیت اللہ سبحانہ تعالیٰ نے پہنچایا لہذا وحی کے سلسلہ میں بھی ہر قسم کی وحی سے نوازا تو ویہیں ان کو تمام معجزات سے بھی نوا زا جو کہ پہلے آنے والئے نبیوں ؑ کو مختلف تعداد میں عطا کیئے اور معراج میں تو وہاں بلاکر ہر چیز جنت، دوزخ وغیر سب کچھ دکھا دیاتا کہ کہیں کوئی کمی نہ رہ جا ئے۔اور وہ قیامت دن سب پہ گواہی دے سکیں؟ اور منصب شفاعت پر اللہ کی طرف فائز ہوں اور شفاعت بھی کرسکیں۔ یہ بات یونہیں بیچ میں آگئی میں بات کر رہا تھا پاکستان کی کہ اللہ نے اسے کسی نمعلوم مقصد کے لیئے بنا یا ہے اسی لیئے وہ اسے نوازتا جارہا ہے۔اور یہ ضروری نہیں ہے کہ جو قوم وہاں بس رہی ہے وہ صرف اسی سے کام لے ۔اس نے اس سلسلہ میں بہت سی آیتوں میں یہ مغمون بیان کیا ہے کہ تم اگر اپنے فرائض انجام نہیں دوگے تو میں تمہاری جگہ ایسے لوگوں کو لے آؤنگا جو تمہاری طرح نہیں ہونگے بلکہ میرے مطیع اور فرمانبردار ہوں گے۔ یہ بات سورہ محمد ﷺ کی آیت38 میں نازل فرمائی ہے وہاں پڑھ لیجئے۔ اللہ ہمیں اور وہاں کے لوگوں کو ہدایت عطا فرما ئے (آمین)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے