یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے۔۔۔ شمس جیلانی

آج کا عنوان حضرت علامہ ؒ اقبال مرحوم کے ایک شعر کا مصرع اولیٰ ہے۔ جبکہ اس کا مصرثانی ہے“ لو گ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا“جوکہ اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ مسلمان ہونا آسان کام نہیں ہے؟اس کا ثبوت دیکھنا ہوتو اس آئینے میں دیکھئے کہ حضرت عمر ؓ جیسے زیرک انسان کو اسلام قبول کرنے میں چھ سال لگے جن میں سے چند سال انہوں نے اس بات پر غورو خوص کرنے پر لگا ئے کہ اسلام قبول کرنے بعد معاشرے میں میرا مقام کیا ہوگا؟ جبکہ وہ اس سے بہت پہلے اسلام کی حقاینیت کے قائل ہوچکے تھے جس پر اس احقر نے ان کی سوانح حیات میں تفصیل سے بات کی ہے؟ جبکہ ان کے معاملے میں حضور ﷺ کی دعا بھی شامل تھی۔ ان کے برعکس حضرت ابوبکر اور حضرت علی ؓ نے ایمان لانے میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں کی؟ یہ فرق اس وجہ سے تھا کہ انہوں نے حضورﷺ کو قریب سے دیکھا ہوا تھا؟ مگر حضرت عمر(رض) اور حضورﷺ میں اتنی قربت نہیں رہی تھی اس لیئے ان کو فیصلہ کرنے میں دیر لگی۔دوسرے یہاں فارسی کا وہ شعر بھی سامنے آجاتا ہے کہ“ خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد“ جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے پانچوں انگلیا ں یکساں نہیں بنائی ہیں۔ لیکن جب ہم مسلمان بنے ہیں تواِن دونوں مصروں کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی؟ مگر آج ہے کہ ہم بس اتنا ہی جانتے ہیں وہ بھی سنی سنائی بات ہے کہ جب ہم پیدا ہوئے تو ہمارے اجداد میں سے کسی نے اور اگر وہ پڑھے لکھے نہیں تھے تو مسجدکے ملا جی نے ہمارے ایک کان میں اذان اور دوسرے میں اقامت کہہ دی اور ہم مسلمان ہو گئے؟ جب کہ ہم اس کے معنی وغیرہ سے بھی آشانہ نہ تھے لہذا یہ کلیہ ہے کہ جب کوئی چیزآسانی سے مل جاتی ہے تو اس کی قدر بھی اتنی ہی کم ہوتی ہے جوکہ ہے؟ جبکہ ہمارے کلمہ پڑھنے کا مرحلہ چار سال کے بعد آیا اگر کسی پڑھے لکھے گھرانے میں پیدا ہوئے تو؟ ورنہ رواج کے مطابق ساتوں کلمے بہ یک وقت مولوی صاحب نے نکاح سے پہلے پڑھائے ہونگے؟ جبکہ لڑکیوں کے تو کلمہ پڑھنے کا نمبر کبھی آتا ہی نہیں تھا۔ کہ جان کنی کے وقت آس پاس بیٹھی ہوئی خواتین کو یاد آجائے تو اور بات ہے ؟اوروہ بیچاری ایسی صورت میں منکر نکیروں کو کیا جواب دےگی اور جن کی تربیت اس طرح ہوئی ہو ان سے امید رکھنا کہ وہ اچھے مسلمان پیدا کر سکیں گی خیال ِ خام ہے۔
جبکہ علامہ اقبال ؒ جس دور کی بات کر رہے ہیں یہ وہ دور تھا کہ مسلمانوں کی تعداد مکہ معظمہ میں انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔انہیں اپنے دفاع میں بھی تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اسوقت کسی کااسلام قبو ل کرنا خود کو ہلاکت میں ڈالنا تھا سب سے پہلے جن لوگوں نے خود کو ہلاکت میں ڈالاوہ ایک یمنی مہاجر وہاں اپنے گم شدہ بھائی کو تلاش کرنے آئے تھے اور وہیں وہ رہ پڑے تھے۔ چونکہ عرب معاشر ے میں کسی کی پناہ میں آئے بغیر زندہ رہنا ناممکن تھا ، اس لیئے انہوں نے ابو خذیفہ بن مغیرہ کی پنا حاصل کرلی اور انہوں نے ہی اپنی کنیز سمیہ سے ان کی شادی کردی؟ جن کانام حضرت یاسر(ڑض) او حضرت سمیہ ؓ تاریخ میں مشہور ہے۔ اور وجہ شہرت ان دونوں کی شہادت ہےجو کہ تاریخ ِ مکـہ میں اپنی قسم کی پہلی شہادت تھی؟ ۔ چونکہ ان کے پناہ دہندہ ابو حذیفہ بن مغیرہ کا انتقال ہوچکا تھا لہذا اب وہ بغیر پناہ کے رہ گئے تھے؟ اس لیئے انہیں سخت اذیتیں دنیا آسان تھا۔ جوکہ حضور ﷺ کی موجودگی میں دی گئیں اور حضور ﷺ چونکہ ہر حالت میں وحی کے پابندتھے اور مسلمانوں کو ابھی لڑنے کی اجازت نہیں ملی تھی لہذا وہ ﷺبھی اس سے زیادہ کچھ نہ کرسکے کہ ان کو جنت کی خوشخبری سے سرفراز فرمادیں اور انہیں شہید ہوتا ہوا دیکھیں۔انہیں جس بے رحمی سے ہلاک کیا گیا اس کی کچھ مورخین نے تفصیل لکھی ہے جو کہ ایسی ہے کہ انسان کے رونگٹے کھڑی کردیتی ہے چونکہ مجھے لندن، اور کنیڈا دونوں کے قوانین کا خیال رکھنا ہے کہ وہ اس کی اجازت نہیں دیتے لہذا میں تفصیل میں نہیں جارہا ہوں۔آپ اس عبارت سے نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں؟ کہ انہیں کس قسم کی اذتیں دی گئیں ہونگی؟اور اس کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں کہ اس شعر کے معنی کیا ہیں؟ کہ اس وقت ایمان لانا صرف کلمہ پڑھنے کا نام نہیں تھا۔ کیونکہ مسلمان ہونے کے لئیے ابتدا ء کلمہ طیبہ تھا تو انتہا شہادت تھی۔جس کا کوئی پیدائشی مسلمان اندازہ بھی نہیں کرسکتا، ان کو یقیناً یہ شعر عجبیب لگے گا؟ مگر اس کو قرآن کی روشنی میں دیکھیں اور اس ۤآیت کو دیکھیں کہ“ مسلمانوں نے اپی جان کا سودا اللہ تعالیٰ سے جنت کے عیوض کرلیا ہے “ تو اس کے معنی با ٓسانی سمجھ میں آجا ئیں گے؟کہ ابتدائی دور میں مسلمانوں کو کن کن مشکلات سے گزرنا پڑا؟ جب ان کی زندگی مکہ معظمہ میں تنگ کردی تو بعض مسلمانوں کو پہلے حبشہ ہجرت کرنا پڑی لیکن کچھ لوگ ایک افواہ سن کر مکہ معظمہ واپس آگئے کہ حضور ﷺ اور اہلِ مکّہ میں کوئی معاہدہ طے پاگیا ہے؟ یہاں پہنچے تو پتلا چلا کہ خبر غلط تھی۔ اب نہ گھر تھا اور نہ کوئی ٹھکانہ ۔حضور ﷺ خود بنو ہاشم کے چند لوگوں کے ساتھ شعب ابی طالب میں ایک طرح سے محصور تھے۔ مختصر روداد یہ ہے کہ درایں اثنا یثرب والوں نے پناہ دیدی اور ان لوگوں کو ایک مرتبہ پھر ہجرت کے مرحلے سے گزرنا پڑا؟ آخر کار صبر رنگ لایاپھر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اہلِ مدینہ کے دلوں میں اسلام کی محبت ڈالدی اورتمام مشکلات دور فرماتا چلا گیا اور اس طرح اسلام کی نشاط اول کا دور شروع ہوگیا! وہ مکہ فتح ہوگیا جس کے باشندوں نے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کردی تھی اور قریش کے غزوہ بدر میں بہت سے سردار مارے گئے۔؟پھر اس آیت کی تفسیر سامنے آگئی کہ“ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.