اللہ سے ڈرو اور صدیقین میں شامل ہوجا ؤ۔۔۔ شمس جیلانی

اللہ سبحانہ تعالیٰ نے سورہ توبہ کی آیت نمبر 119 میں حکم دیا ہے کہ “اللہ سے ڈرو اور صدیقین میں شامل ہو جا ؤ “ اس سے اچھا موقع ملے یا نہ ملے اور یہ بھی حکم ہے کہ نیک کام میں دیر نہیں کرنا چا ہیئے لہذا ہمارا مشورہ ہے کہ سب کو اس حکم کی تعمیل فوراً شروع کردینا چاہیئے کہ جلسے جلوس کا مہینہ ہے،مجالس ہورہی ہیں آسانی بھی ہے۔ مجھےخوف آرہا ہے کہ اگر یہ ہی لیل ونہار رہے تو نئی نسل ایک قدم اور کہیں آگے نہ بڑھ جا ئے کہ انہوں نے اپنے مستقبل کے معاملات جیسے کہ انہیں کیا بننا ہے، یااپنی شادی بیاہ وغیرہ کہاں کرنا ہے اپنے ہاتھ میں لے لئیے ہیں؟ اورصرف بزرگوں کواپنے کئے پرٹھپہ لگا نے کام دیدیا ہے۔ اسی طرح وہ مستقبل میں اچھے مسلمان بننے یا رہنے کا مسئلہ بھی اپنے ہاتھ میں نہ لے لیں؟ یہ سوچ کر کے کہ کسی نسل کی بگڑی ہو ئی عادتیں بڑی مشکل سے جاتی ہیں؟ اگر میں یہ کہوں تو حق بجانب ہوں کہ یہ صدیقو ں ؑ کا مہینہ ہے انؑ کا مہینہ ہے جنہوں نے اسلام کی صداقت ثابت کر نے کے لئے اپنی جا نیں دیدیں ؟مگر ایک منکر عاقبت کے ہاتھ میں ہاتھ دیناپسند نہ کیا جیسا کہ حضرت امام حسین کے شہادت سے پہلے شمر کے ساتھ مکالمے سے ثابت ہے کہ اس نے کہا کہ ً‘ آپ کے لئیے سب کچھ حاضر ہے آپ یزید کے ہاتھ پر بیعت کیو ں نہیں کرلیتے؟ حضرت امام حسین ؑنے فرما یا کہ‘ میں ایک ایسے آدمی کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ کیسے دیدوں جو کہ آخرت پر یقین نہیں رکھتا؟ اور اس طرح انہوں نے دنیا کو دو قرآنی لفظ تقو اللہ اور کونو من الصادیقین کے عملی معنی دکھا دیئے اور مثا ل پیش کردی کہ ہماری وہ خصو صیت کیا تھی؟ جوکہ ہم میں سے ایک خاتون، یعنی خاتون جنت سلام اللہ علیہاکو خاتون ِ جنت اور انؑ کے دونوں شہزادوں حضرت حسنؑ اور حسین ؑکو سرداران ِ جنت قرار دیا گیا۔ نیزامت کے خواص و عوام کو پانچوں وقت کی نمازوں میں ہی نہیں بلکہ ہر نماز کی ہر رکعت میں چاہیں وہ فرض ہو یا نفل، “ہم جیسا ہونے کی دعا کرنے کے لیئے سورہ فاتحہ میں ان الفاظ کی تلاوت کاحکم دیا گیا جس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہً“یا اللہ ہمیں ان کے راستے پر چلا جن پر تیری نعمتیں نازل ہوئی ان پر نہیں جن پر تیرا غضب نازل ہوا ً“ آج ہم جو دنیا کے سامنے اپنی موجودہ شکل میں اسلام کے جتنے برانڈ پیش کر رہے ہیں کیا ان میں کسی فرقے میں وہ کردار موجود ہے کہ کسی منکر قیامت کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے کوئی انکار کردے جبکہ یہ مرض آجکل عام ہوگیا ہے پھیلتا جارہا ہے جسکا ثبوت یہ ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں بھی پورا اسلام نافذ نہیں ہے۔ اس لئیے کہ اسلام نہ ہی حکمرانوں کو پسند ہے۔ اور نہ ہی عوام کو پسند ہے؟ وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا کا واحد نظام ہے جو اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دینے کی ترغیب دیتا ہے، مظلوموں کی کھال کھینچنے کی نہیں ہے۔؟اسلام میں ایسے لوگوں کی گنجا ئش نہیں ہے جوکہ کچھ اسلامی قوانین مانتے ہوں اور کچھ نہیں۔؟کیونکہ اسلام کی شرط ِ اول یہ ہے کہ پورے کہ پورے اسلام میں داخل ہوجا ؤ؟ جوکہ مسلمانوں کی اکثریت میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ وہ جوان میں کوالٹی یکھنا چا ہتا ہے۔ وہ خدا خوفی اور صداقت ہے؟ لیکن آجکل کے مسلمانوں کی اکثریت کیا ہے؟ وہ ہے عوامی زبان میں ً ڈھل مل یقین ً ایسا یوں ہوا کہ ہم نے کوالٹی کا خیال ہی نہیں رکھا تعداد کا خیال رکھا۔ اصل میں اس کی اصل وجہ خود مسلمانوں کی اسلام سے لا علمی یاکم علمی ہے۔ کیونکہ 95فیصد لوگ آج اس بنا پر مسلمان ہیں کے ان کے باپ دادامسلمان تھے؟ جنہیں اپنے ہی فرائض نہیں معلوم کہ بطور والدین ان کے فرائض کیا ہیں؟تو اولاد کے فرائض وہ کیا وہ ادا کرتے؟ یہ ہی کرسکتے تھے کہ بچے کی پیدائش پر اگر ان کو اذان آتی ہو ئی تو انہوں نے خود ایک کان میں اذان اور دوسرے میں اقامت کہہ دی اور بچہ مسلمان ہوگیا؟ اگر اذان ان کو نہیں آتی ہوتی تو مسجد کے مولوی صاحب کو بلا کے بچے کے کان میں دلوادی؟ جبکہ اسلام نے بچے کواچھانام دینا، حلال روزی پر پرورش کرنا اور اچھی تربیت دینا اسلامی اخلاق سکھانا والدین کی ذمہ داری رکھا اور اسکا بڑا ثواب بھی رکھا۔ ان میں سے سچ بولنا سب سے پہلی شرط تھی؟ اگر والدین خود ہی سچ نہ بولتے ہوں؟تو بچوں سے سچ بولنے کی امید کیسے کرسکتے ہیں۔؟ جبکہ حضور ﷺ کا ارشاد ِ گرامی ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان میں سارے دنیا کی برائیاں اور عیب ہوسکتے ہیں مگر جھوٹا مسلمان نہیں ہوسکتا۔پھر اس سے ملحقہ برائیوں کی طویل فہرست ہے کہ مثلا ً بد عہد ہم میں سے نہیں۔ خیانت کرنے والا ہم میں سے نہیں وغیرہ، وغیرہ۔ اس پر ظلم یہ کہ والدین کی ترجیحات میں اچھا مسلمان بنا نا آجکل شامل نہیں ہے؟ کیونکہ اچھا مسلمان بننے کے لئے اچھا انسان ہونا ضروری ہے؟ اور اچھا انسان کماؤ پوت آج کے دور میں ہر گز نہیں بن سکتا۔ کیونکہ نہ وہ رشوت لے گا نہ لینے دیگا،نہ بد عنوانی کریگا نہ کرنے دے گا۔؟جبکہ اسلام کے اصولوں میں سب سے اہم اصول یہ ہی ہیں جو کہ ہمارا آج کا عنوان ہے کہ اللہ سے ڈرو اور صدیقین میں شامل ہوجا آ۔ جبکہ ہم اس سے بہت دور ہوچکے ہیں۔ حالانکہ ہم ہمیشہ یورپین ملکو ں کی نقالی کر نا پسند کرتے ہیں مگر صرف فیشن میں؟ ان کی بھی اچھی باتیں ہم اختیار نہیں کرتے ہیں، مثلاً انصاف اور قانون کی بالا دستی؟جو کہ کبھی ہم میں تھی مگر آجکل جوکہ ان میں سب سے زیادہ ہیں۔ پوری دنیا اخلاق کے اعتبار سے تنزلی کی طرف جا رہی ہے۔ پھر بھی کچھ ملک اچھائی میں اپنی انتہا پر پہنچ چکے ہیں۔ جیسے جاپان کہ وہاں اگر کوئی شخص کوئی چیز بھول جا ئے یا اس کی کوئی چیز راستے میں گرجا ئے تو کوئی اٹھاتا نہیں ہے اور وہ مالک کو وہیں پڑی ملتی ہے۔وہ الٹے پیرو ں واپس جاتا ہے اوراپنی چیز پڑی پاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے اس پر تحقیق کی ضرورت ہے اسلامی ممالک میں چونکہ حکم یہ ہے کہ جہاں علم ملے وہاں سے حاصل کرو؟۔ اُس کے لیئے اسلامی ملک کمیشن بنا کر اس پر تحقیقات کرائیں کہ یہ معجزاتی لوگ کیسے بنے؟ جبکہ یہ خوبی کبھی مسلمان ممالک میں ہوا کرتی تھی؟ کہیں انہوں نے اور قدروں کی طرح اسمگل تو نہیں کرلی؟جبکہ وہاں وجہ یہ تھی کہ چوری کرنے پرہاتھ کاٹ دیا جاتا تھا۔ مگر اب اللہ کے نام پر بنے مسلمان ملک پاکستان کی حالت یہ ہے کہ وہاں اچکے خواتین کے پرس زبردستی چھین کر بھاگ جاتے ہیں اور وہیں موجود لوگ ان کے اس کار خیر میں مداخلت کرنا اس لیئے مناسب نہیں سمجھتے کہ اول تو جان کو خطرہ ہے۔دوسرے عدالتوں میں مقدموں کو نبٹانے میں سالوں لگ جاتے ہیں لہذا لوگ عافیت اسی میں سمجھتے ہیں کہ جدھر کوئی واردات ہورہی ہو اس طرف سے منہ پھیر لو؟ اور وہاں کے لوگوں کی یہ ادایہاں سے جانے والوں کو شرمندہ کردیتی ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں رہے والو ں نے اسپر قابو کیسے پایا ہوا ہے؟ یہ بڑھی ہوئی اخلاقی قدروں کی وجہ سے نہیں ہے؟ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے انہوں نے ایسے طریقہ کار ایجاد کر لیئے ہیں کہ ہر قسم کے چور کو خود احتیاط کرنا پڑتی۔ کیونکہ یہاں یہ رواج نہیں ہے کہ جو ایک دفعہ ملازمت میں آگیا وہ بوڑھا ہوکر یا ریٹائرڈ ہوکر جا ئے گا۔ بلکہ انہوں نے ہائر اور فائر کا اتنا کم فاصلہ رکھا ہوا کہ لوگ خود ڈرتے ہیں اور احتیاط کرتے ہیں کیونکہ فائر یعنی برطرف ہونے میں دیر نہیں لگتی ہے۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.