اے کاش۔۔۔۔؟ شمس جیلانی

میرے سامنے سے جب بھی متحدہ ہندوستان کے مسلمانو کی تاریخ گذرتی ہے تو ایک نہیں بہت سے اے کاش! میرے سامنے آجاتے ہیں اور میں پریشان ہوجاتا ہوں کہ اتنے چھؤٹے سے مضمون میں، کس کس واقعہ کو جگہ دوں اور ان کے ساتھ اے کاش!استعمال کروں ؟وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے ہمیشہ بغیر کچھ سوچے ہر قیادت پر اعتماد کیا جو بھی ابھری ، بغیر فرد کی صلاحیت کو پرکھے کہ یہ شخص ہمارا یہ خواب ضرور پورا کرے گا، جیسا کہ نعرہ لگا رہا ہے؟ ان میں سے آخری جو ہیں وہ عزت مآب عمران خان ہیں۔انہوں نے کبھی یہ دیکھا ہی نہیں کہ مدینہ کی ریاست کیسی تھی اور نعرہ لگا دیا کہ میں مدینہ جیسی ریاست بناؤنگا؟جو چیز کسی نے دیکھی ہی نہیں وہ کوئی کیسے بنا سکتا ہے؟ سوائے اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات ِ پاک کے، کہ وہی صرف “بدیع السموات “ ہیں۔ انکے اندر یہ صلاحیت ہے کہ ہر وہ چیز بنا ئی جو کہ اس سے پہلے کہیں نہیں تھی صرف ایک لفظ “کن “فرما کر سب کچھ بنادیا۔ سوائے انسان کےچونکہ اس کو انہیں بہت ہی معزز بنا ناتھا فرشتوں سے بھی زیادہ معزز! اس لئیےکہ انہیں اسے فرشتوں سے اسے سجدہ کرانا تھا۔ لہذا انسان کو اس نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ان ہی میں سے ایک کو کامل ترین انسان بنایا یعنی نبی آخر الزماں محمد مصطفیٰ ﷺ کو پیدا کیا اور انہیں پر اپنا دین مکممل کرکے بظاہر انہیں کے ہاتھوں نافذ کرایا جو کہ اسے کرانا مقصود تھا؟ اب جس شخص کو بھی اس پر کام کرنا ہو اس کے لئیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ پہلے قرآن پڑھے، پھر جسﷺ نے اسے دنیا کو اپنے اوپر نافذ کرکے دکھا یا اس ﷺ کی سیرت کا ایک ایک لفظ پڑھے یہاں تک کہ وہ اس کو ازبر ہوجا ئے تب کہیں جا کر وہ مدینہ جیسی ریاست بنا نے کے خواب کو پورا کرسکتا ہے۔جو اس عمل سے گز را ہی نہ ہو وہ دعویٰ تو کرسکتا ہے؟مگر بے دھڑک عمل اس پر کیسے کرسکتا ہے؟ ورنہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو یہ پریشانی لاحق نہ ہوتی کہ جیسا کہ انہیں شیخ السلام حضرت مولانا شبیر ؒ احمد عثمانی سے دستور ساز اسمبلی میں سوال کرنا پڑا تھاکہ مولانا آپ مجھے بتا ئیں تو سہی میں کونسا اسلام نافذ کرو ں؟ اوروہ بعد از خرابی ِ بسیار اپنی اس کوشش کو اس اسمبلی سے بمشکل پاس کرانے میں کامیاب ہوئے جس پر 51 جید علما ئے وقت کے دستخط ہیں کہ“ یہ سا اسلام ہم سب کو چاہیئے ہے“اور جس کو قرداد مقا صد کے نام سے بمشکل مولانا پاس کراسکے۔ جب کہ وہ نافذ پوری طرح چو ہتر سال میں بھی نہیں ہوسکا؟ ہاں! جنرل ضیاء الحق نے اپنے مقاصد کے لئیے ضرور ایک مرتبہ اسے شیلف سے اتار اور اس کی گرد جھاڑ کر استعمال کیا! جبکہ بعد میں آنے والوں نے اسے پھر سرد خانے میں رکھدیا؟ یہ ہے وہ مختصر سی تاریخ جو اس مملکت خداد کی ہے جو اللہ کے نام پر اور اس کے دین کے نام کو بلند کرنے کے نام پر بنی تھی۔ یہ ہی کمزوری جناب عمران خان کے ساتھ بھی ہے کہ انہوں نے نہ تو پورا قر آن اس طرح پڑھا ہوا ہے جیسا کہ اسے پڑھے جانے اور سمجھنے کا حق ہے؟ نہ صاحبﷺ ِ قر آن کی سوانح اس طرح پڑھی ہے جس طرح اسے پڑھے جانے کا اس کا حق ہے۔ جنﷺ کی قرآن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ یہ فرما کر تعریف کر رہا ہے کہ “ ان ﷺکا خلق عظیم ہے “ اور یہ بھی امت کوبتا رہا ہے کہ تمہارے لیئے تمہارے نبی ﷺکے اسوہ حسنہ ﷺ میں نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیئے جو باکثرت اللہ کو یاد کرتا ہواور روز قیامت پر یقین رکھتا ہو (سورہ الاحزاب آیت نمبر 21)؟اب آپ خود سوچئے کہ جوشخص اقتدار میں آنے کے بعد کہیں جاکرمدینہ منورہ کی گلیوں سے گزرا ہو؟ جبکہ وہاں موجودہ حکمرانوں نے اس شہر کو جدید اور ماڈرن شکل دیدی ہو،وہ اس مدینہ کا تصور کیسے کر سکتا ہے جس نے حضور ﷺ کا دور نہ دیکھا ہو؟ یہ ہے وہ مسئلہ جو کہ ہر ایک حکمراں کے آڑے آتا ہے رہا ہے اور آنا چا ہیئے؟ اور وہ ہمیشہ پریشان رہا ہے کہ اس ملک کو کیا شکل دے؟ جو دنیا میں کہیں موجود ہی نہیں ہے۔ اگرہے تو ان کتابوں میں ہے جوکہ اس نے پڑھی ہی نہیں ہیں؟کبھی وہ اس سمت کا رخ کرتا ہے تو کوئی گریبان پکڑ لیتا ہے کہ یہ ایسے ہے ایسے نہیں ہے۔؟اور وہ اپنی ناواقفیت کی وجہ سے وہ راستہ بدل دیتا تھا۔ تو دوسرا دوسرے راستے کے سامنے آجاتا تھا؟ یکہ یہ راستہ یوں نہیں یوں ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ عمران خان بھی اپنے تین سالہ دورِ حکمرانی میں طےنہیں کرسکے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے؟پھر انتظامیہ کی شکل میں انہیں جو چھلنی ملی ہے وہ ہے جس میں چھید ہی چھید ہیں اس میں کچھ رکتا ہی نہیں ہے۔ پھر پورے ملک میں جن کی تعداد بائیس کروڑ ہے ایک فرد بھی صحابہ کرامؓ اور صحابیات منوراتؓ جیسا نہیں ہے؟ تومدینہ منورہ جیسی ریاست چلانے کے لیئے مشینری کہاں سے آئے گی؟ یہ ہیں وہ مسائل جو عمران خان کو در پیش ہیں۔ اگر دنیا میں کوئی سقراط موجود ہے تو اس کا حل بتا ئے۔ جبکہ یہ بھی کہاوت ہے اکیلے چنا بھاڑ نہیں پھوڑسکتا؟ اسی طرح آج کل جو زبان وہاں استعمال ہورہی گوکہ وہ خودجواب نہی دیتے ؟مگر ان کے ساتھی اسی زبان میں جواب دیں تو لوگ اعتراض کرتے ہیں۔ کہ مدینہ کی ریاست کا آئین برائی کے بدلے میں بھلائی کرنا تھا برائی نہیں۔ اسلامی ستر پوشی کی وہ تعریف کریں تو خواتین ناراض ہوتی ہیں نہ کریں تو اللہ ناراض ہوتا ہے ؟ جبکہ دنیا کے مسلمانوں کی صورت ِ حال یہ ہے کہ کعبہ میرے پیچھے ہے تو کلیسہ میرے آگے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.