یہ ہنگامے،ہنگامے اور ہنگامے۔ شمس جیلانی

مسلمان آجکل اسلام آباد سے دنیا کو اسلام کے بارے میں کیا سبق دے رہے ہیں؟ موجودہ صورت ِ حال دیکھ کر حضور ﷺ کو کتنا صدمہ ہوتا ہوگا۔ جبکہ دکھ بھی خود مسلمانوں کے ہاتھوں پہنچ رہا ہے؟ اور اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پہنچ رہا جہا ں کے باشندوں نے یہ کہہ کر یہ ملک بنا یا تھا کے ہم یہاں اسلامی نظا م نافذ کر کے دکھا ئیں گے اوردنیا میں تیرا نام بلند کریں گے؟ اوروں کو تو جانے دیجئے وہ اپنی قبر میں پڑے اپنےکئے کی سزا بھگت رہے ہوں گے ؟ مگر موجودہ حکمراں تو اس وعدے پر آئے تھے کہ ہم اس ملک میں میدینہ منورہ جیسی ریاست بنا ئیں گے؟ اگر اس پہ عمل نہیں کر سکتے تھے تو گمراہ کن وعدے کیئے کیوں ؟۔ کیا موصوف یہ آیتیں بھول گئے تھے کہ روز قیامت اللہ سبحانہ وعدوں کا حساب لےگا۔ اور کیا سورہ الصف کی یہ آیتیں بھی بھول گئے تھےکہ “مسلمانو ں وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو اللہ تعالیٰ کو یہ بات سخت ناپسند ہے“ یہاں سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود وعدہ خلافی کر کے بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ کا کوئی پسندیدہ حکمراں رہ سکتا ہے؟ اور جہا ں اس کی بالا دستی نہ ہو وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلا سکتی ہے؟ جواب پھر آپ پر چھوڑتا ہوں؟
جبکہ حضور ﷺنے فرمایا کہ ہر دین کا ایک ممتاز اخلاق ہوتا ہمارے دین کا ممتاز اخلاق، اخلاق ہے۔ دوسری جگہ یہ فرمایا کہ “ میں دنیا میں مکرم ِ اخلاق بنا کر بھیجا گیا ہوں“ پھر دوسرے مذاہب کی کتابوں میں حضورﷺ کے امتیوں کے جو اوصاف صدیوں سے بیان ہوتے چلے آرہے تھے وہ یہ تھے کہ وہ بازاروں میں لڑیں گے جھگڑیں نہیں نہ ہی جاہلوں کی طرح آپس میں گالی گلوچ کیا کریں گے؟کیا آج کی امت ِ محمدیہ ﷺ کے بارے میں ہم یہ دعوے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس معیار پر پورے اتر تے ہیں جبکہ اسلام اور ہادی ِ ﷺاسلام نے زندگی کا کوئی شعبہ ہمیں ہدایت دیئے بغیر نہیں چھوڑا جبکہ اور مذاہب،صرف مذہب ہیں دین نہیں ہیں اور سورہ حجرات میں جو ہمیں معاشرتی آداب سکھا ئے گئے ہیں ان میں کہیں بھی یہ گنجا ئش نہیں نکلتی ہے جو کہ ہم آج کل کر رہے ہیں۔ چلئیے اسے جانے تو دیجئے حضور ﷺ نے جو اپنا وداعی خطبہ ہمیں عطا فرمایا تھا اس میں دی گئیں ہدایات کیا ہم نے پوری کیں؟ جبکہ ہر ایک اپنے باپ کی وصیت کا تواحترام کیا ہی کرتا ہے۔ جبکہ نبی ﷺ کے ارشادات پر کان دھرنا اس لیئے بھی بہت زیادہ ضروری ہے کہ وہﷺ نہ صرف امت کے باپ ہیں بلکہ شارع اسلام بھی ہیں اور ان کی زبان مبارک سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون ہے۔ اور یہ تنبیہ بھی ہے کہ “ وہ مومن ہی نہیں جو اللہ و رسول ﷺ کو اپنی جان سے بھی زیادہ نہ چاہے “ سوچیئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمراں، حزب اختلاف، اور باشندے کس منہ سے حضور ﷺ کے سامنے شفاعت کے لیئے جا ئیں گے۔ وہاں کیایہ جواب دے سکیں گے کہ حزب اختلاف کا تو کام ہی یہ ہی ہے کہ اگر حکومتی رکن نے گالی دی وہ جواب میں بوتل مار دیں چاہیں وہ کوئی خاتون ہی کیوں نہ ہو؟ جبکہ الوداعی خطبہ میں پڑھیں تو اس میں حضورﷺ نے وصیت فرما ئی ہے کہ تم غلاموں اور خواتین کا خیال رکھنا یہ دونوں کمزور طبقے ہیں اورمیں تمہارے درمیان انہیں چھوڑے جارہا ہوں؟ آجکل جو کچھ بھی روزانہ پارلیمنٹ میں ہورہا یا پاکستان میں ہورہاہے اس میں امت جو کر رہی ہے کیا انہوں نے ان باتوں کا خیال رکھا ہوا ہے؟ جواب پھرآپ پر چھوڑتا ہوں بتا ئیے تو سہی کہ آپ کہا ں سے اس کی سند لائیں گےکیا برطانیہ سے، جو جمہوریت کی ماں ہے، اس کی پارلیمان میں کبھی ایسا ہوا؟ یا مدینہ کی مجلس شوریٰ میں ایسا ہوا ہو؟ اور کیا کہیں ہوا ہے تو کیا حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالی دستور میں لکھا ہو نے کے باوجود آپ اس پر جمہوری روایات کو تر جیح دینے کے بعد بھی مسلمان کہلا سکتے ہیں؟ جبکہ ساری ذمہ داری اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حاکم اعلیٰ پر وہاں آئے گی اور وہاں ہر ایک یہ کہہ کر چھٹ جا ئے گا کہ ہم نے جو کام کیا وہ ان قوانین اور قوائد کےتحت کیا جو کہ نافذ العمل تھے؟ قانون نافذ کرنا ہماری ذمہ داری تھے بنانا نہیں۔ جو قوانین وہاں موجود تھے ہم انہیں کو نافذ کرتے رہے؟؟ جبکہ پاکستانی دستور کے مطابق تو یہ ہونا چاہیئے تھا کہ تمام اسلامی قوانین اب تک نافذ ہوچکے ہوتے؟ فیصلے چھوٹی عدالتوں سے لیکر بڑی سے بڑی عدالت تک کے وہاں سلامی نافذ ہورہے ہوتے؟ صدر مملکت اسلام آباد کی جامعہ مسجد میں جمعہ اور عیدین کا خطبہ دے رہے ہوتے ،صوبائی دار الحکومت میں وہاں کے گورنر خطبہ دے رہے ہوتے اور اسی طرح ہر ضلعی صدر مقام میں جو بڑا ہوتا وہ وہاں کی جامع مسجد میں خطبہ دے رہا ہوتا۔ یہ نہیں وہ اپنی سکوریٹی کے نام پر ساتھ پردوں میں چھپے چھپے پھر تے، بجا یئے عوام کے درمیان رہنے کے جیسے کہ مدینہ کی ریاست میں رہاکرتے تھے۔ اس میں لنگڑے لولے عذر پیش کرنے کاکوئی جواز ہی نہیں ہوتا کہ ایساکرنے سے سکوریٹی کا مسئلہ پیدا ہوگا ہے؟آخروہ عوامی اجتما عات میں ابھی بھی مہمانوں ساتھ رسمِ دنیا نبھانے کے لئیے تشریف اکثر لے تو جاتے ہیں؟ اسی طرح مساجد میں بھی ایک دو صفیں سکوریٹی والوں کی ہو تیں اور وہ اس کے درمیان ہوتے؟ تو دنیا کے ساتھ عاقبت بھی سنور جاتی؟ اس صورت میں اسلام کو اتنا نقصان نہئیں پہنچتا جتنا مسلمان جھوٹے وعدے کر کے اب تک پہنچاتے رہے ہیں۔ جبکہ حضور ﷺ کا حتمی ارشاد ِ گرامی ہے کہ “ مسلمان سب کچھ ہوسکتا مگر جھوٹا مسلمان نہیں ہوسکتا“ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان صدیقین میں شامل ہوجا ئیں جن میں شامل ہونےکے لیئے ہم پانچوں وقت ہر رکعت میں اللہ سبحانہ تعالیٰ سورہ فاتحہ میں دعا کرتے ہیں؟ اور جہاں اس کے رسول ﷺ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں دیکھنا چاہتا ہے۔( آمین)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.