اللہ کی ویسی قدر کرو جسکا وہ حقدار ہے تاکہ وہ عزت دے۔۔۔ شمس جیلانی

آج کا عنوان حضور ﷺکے اس فرما ن کا اردو ترجمہ و مفہوم ہے۔ جس میں حضور ﷺنے فرمایا کہ “وہ ہم میں سے نہیں جو اپنے بڑوں کی عزت نہ کرے اور جو چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے نہ پیش آئے؟ اس حدیث کی رو سے حضور ﷺ نے جو ایسا نہ کرے اس کو ایک طرح سے خارج از ا سلام قرار دیدیا ہے۔ جو کہ بہت ہی بڑی سزا ہے۔آپ نے اکثر ترقی پسند مسلمانوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ اچھے کام تو وہ بھی کرسکتا ہے اور کرتا ہے! جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتا مگر ایسا ہوتا نہیں ہےکیونکہ اچھے اور برے کی تمیز دین ہی سکھاتا ہے ورنہ جمہوریت میں اکثریت جو پاس کردے وہ قانون ہے ؟ اس لیئے یہ ایک ایسی منطق ہے جس کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے کوئی مثال بھی نہیں ہے؟ جو کہ جب کمیونزم کی تحریک اپنے عروج پرتھی اور نظریہ ضرورت کے تحت ایجاد ہوئی تھی۔ اب معدوم ہوگئی ہے آجکل اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ جتنا دین کمزور ہوتا گیا اخلاقی معیار بھی روز بروز گرتا چلا گیا۔ میں نے وہ دور بھی دیکھا ہے کہ اگر کسی کا کوئی جانور گم ہوجا ئے تو لوگ گاؤں، گاؤں جاکر اس کے ما لک کو تلاش کر کے پہنچا کر آتے تھے اور اس کا کوئی معاوضہ نہ طلب کرتے تھے نہ ہی قبول کرتے تھے۔؟جبکہ اب مرغی باہر نکل جا ئے تو لوگ کاٹ کر کھانا ایک شغل سمجھتے ہیں جوکہ بہت بڑا گناہ ہے اور قیامت کے دن وہ چیز اپنے کندھے پر وہ لادھ کر لا رہا ہوگا جو اس نے قبضہ کی ہوگی یا بزور ِ طاقت چھینی ہوگی۔ سوائے اسلام کے دوسرے دین جو ہیں وہ اتنی تفصیل میں نہیں جاتے۔ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت تک محدود ہیں؟ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو ہر ایک فرد کے حقوق متعین کرکے افراد کو بتلا تا ہے کہ تمہارے حقوق کیا ہیں تاکہ نہ تم کسی کے ساتھ زیادتی کرونہ کوئی تمہارے ساتھ زیادتی کرے؟۔اتنی گہرائی تک دنیا کا کوئی مذہب نہیں گیا ؟اس کی وجہ یہ ہے کسی اور مذاہب نے اپنے دین کے مکمل ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کیا۔ جیسے جیسے ضرورت محسوس ہوتی گئی رسم و رواج ہی قانون کا درجہ پاتے گئے۔ انہیں سے کام چلتا رہا۔ اسلام کے بعد مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق کیونکہ معاشرہ اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے تھا مکہّ معظمہ میں دی جانے والی اذان اب پوری دنیا میں سنی جاتی ہے جوکہ اسلام کا مرکز ہے۔چونکہ قر آن میں یہ حکم آیا تھاکہ تم میں سے ایک جماعت ہونا چا ہیئے جو لوگوں کو دین پہنچائے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے دنیا سے تشریف لے جانے پہلے حج الودا ع پر حجاج کے بہت بڑے مجمع میں اعلان فرمادیا کہ جو یہاں موجود ہیں وہ انہیں دین کا پیغام پہنچا دیں جو کہ اس وقت یہاں موجود نہیں اور وہ انہیں پہنچا دیں جو ان کے بعد آئیں اور بعد میں آنے والے اپنے بعد کے آنے والوں کو پہنچا دیں؟۔ اس طرح قیامت تک کے لئیے ایک نیٹ ورک یا محکمہ قائم فرمادیا گیا جو کہ وجود میں آنے کے بعد سے کسی نہ شکل میں آج تک قائم ہے؟ اس معاشرے نے جیسے لوگ پیدا کیئے دنیا کی تاریخ پڑھ جا ئیے سوائے اسلام کے اور کسی مذہب میں نہیں پائے جاتے۔ نہ ہی دنیا کا کوئی مذہب ایسا جذبہ ایثار پیش کر سکا ہے۔ جبکہ پہلا اصول اسلام کا جوہے وہ یہ ہے دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینا ہے؟۔ایک غیر مسلم کو کلمہ پڑھتے ہی وہ تمام حقوق حاصل ہوجاتے تھے۔ جو کہ انہیں حاصل تھے جو بانیوں میں سے تھے اور ریاستِ مدینہ چلا رہے تھے سوائے حضورﷺ کے۔ بلکہ بعض چیزوں میں وہ بانیوں سے بھی زیادہ اہمیت کے حامل ہوجاتے تھے مثلا کلمہ پڑھتے ہی نو مسلم کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے تھے۔ اور اس کا نیا کھاتا نئے سرے سے لکھا جاتا تھا۔ اور جو کہیں سے بھی ہجرت کرکے وہاں آنا چاہتے تھے۔وہا ں کے مقامی باشندے اپنی حضور ﷺ کے حکم پر نصف جائداد اسے دیدیتے تھے۔ یہ ہی نہیں جب حضور ﷺ فرما تے کہ یہ تمہارے بھائی کھیتی باڑی نہیں جانتے ہیں اپنے باغ اپنی زمین پر کام بھی تم خود ہی کرو اور جب فصل تیار ہوجا ئے تو انہیں آدھی دیدیا کرو اور وہ ایسا ہی کرتے رہے! یہ تھی وہ اسلامی مواخا ۃ جو مسلمانوں کے درمیان رائج تھی۔ یہ میں قصہ کہانی کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ جبکہ حضور ﷺ کےاسوہ حسنہ کا ایک حصہ قلم بند کررہا ہوں جنکی مثالوں سے تاریخ بھری ہوئی آپ حضور ﷺ کی اور انکے صحابہ ؓ کرام کسی بھی سیرت میں پڑھ لیں قدم قدم پر آپ کو ایسی مثالیں ملیں گی؟ یہ اور بات ہے کہ آج ویسے مسلمان نا پید ہیں ؟۔ میں نے آپ کو یہ رخ مدینہ منورہ کی ریاست اسلامی ریاست کا دکھایا کہ آجکل پاکستان میں اس پر باتیں بہت ہورہی ہیں کام کم؟۔ یہ سب کیوں تھا؟یہ یوں تھاکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی بزرگی ہر مسلمان مانتا تھا۔لیکن اب فرق یہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول ﷺ کو تو مانتا ہے،مگر ان کی بات نہیں مانتا ہے اگر بات مانتا ہوتا تو عمل بھی ویسا ہی ہوتا جیسا کہ اس وقت کے مسلمانوں کا تھا پھر وہ اللہ کے حکم کے مطابق حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتا کیونکہ قرآن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کا بار بار حکم آیا ہے کہ میرے رسول ﷺ کا اتباع میرا اتبا ع ہے۔ اور میرے رسول ﷺ کے کردارمیں تمہارے لیئے بہترین نمونہ ہے۔ امت یہ آج جو کچھ بھگت رہی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ کلمہ ضرور پڑھتی ہے قرآن شریف بھی پڑھتی ہے لیکن جو اس میں لکھا ہوا ہے اس پر عمل نہیں کرتی ہے۔ اس طرح ہم اللہ کی بہت باتیں نہیں مانتے اور اس کا وہ حق ادا نہیں کرتے جس کا وہ ہمارا خالق اور مالک ہونے کی وجہ سے حقدار ہے؟ حضورﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ فرماتا ہے کہ مسلمان عزت کے حصول کے لئیے غیروں میں گھستے پھرتے جبکہ عزت اور ذلت میرے ہاتھ میں جسے چاہوں عطا کروں۔ وہ جس کو عطا کرنا چاہتا ہے تو فرشتوں میں اعلان کردیتا ہے کہ فلاں کو میں نے عزت دی؟اس اعلان کے ساتھ ہی تمام مخلوق کےدلوں عزت گھر کرتی چلی جاتی نہ اسے دیگیں چڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ نہ تصویریں اخبار ٹی۔، وی والوں کو پیسے دیکر چلوانے کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ حقوق ادا کر رہا ہوتا ہے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ اسے نواز رہا ہوتا ہے۔ رہے اللہ کے حقو ق کہ وہ کیا ہیں؟۔ یہ نہیں کہ مالِ حرام سے ان گنت دستر خوان قائم کردیئے جائیں بلکہ یہ ہیں کہ ایک لمحہ کے بھی اس کےدل میں مالِ حرام کے حصول کا تصور بھی نہ آ نے پائے جو اللہ سبحانہ کردیئے حرام کردیئے ہیں۔ چاہیں اس کے نتیجہ میں باپ ناراض ہوجا ئے ماں ناراض ہوجا ئے۔ بیوی بچے ناراض ہوجا ئیں۔ غرضیکہ پوری دنیا ناراض ہوجائے تو ہوجا ئے مگر اللہ ناراض نہ ہونے پا ئے ؟یہ ہے اس کی چاہت کا حق آپ ادا کرکے دیکھیں۔پھر دیکھیں کہ پردہ غیب سے کیا کیا ظہور میں آتا ہے؟ اللہ تعالیٰ اس نقطہ کے سمجھنے کی ہمیں سب توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ قر آن میں یہ بھی فرماتا ہے جو کوئی جو کچھ کر تا ہے وہ اپنے لئیے ہی کرتا ہے میرے اوپر احسان نہیں کرتا ہے جب کہ ہم سمجھتے ہیں کہ عبادت کرکے ہم اللہ پر احسان کرتے ہیں۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.