اسلام میں پوری طرح داخل ہوجا ؤ۔۔۔ شمس جیلانی

یہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 208 ہے جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اسلام میں پوری پوری طرح داخل ہوجا ؤ؟ جس طرح کوئی بھی باپ بیٹے سے مطالبہ کرتا ہے، کوئی بھی حاکم ہر محکوم سے مطالبہ کرتا ہے کہ اطاعت کرنا ہے تو پوری طرح میری کرو۔ اسی طرح اس آیت میں اللہ سبھانہ تعالیٰ جو خالق ِکا ئینات ہے مالکِ کائینات بھی ہے وہ ہر اس شخص سے مطالبہ کرتا ہے کہ یا میری راہ پر چلو، یا شیطان کی راہ پر چلو جو کہ گمراہ کرنے والااور جہنم کی طرف لے جانے والا ہے جبکہ ایک دوسری سورہ بقر کی ہی آیت میں وہ فرماتا ہے کہ میں اندھیرے سے روشنی کی طرف بلاتا ہوں اور شیطان جہنم کی طرف بلا تا ہے میں نے دونو ں راستے واضح کردیئے ہیں اب یہ بندے کی مرضی ہے کہ وہ کس طرف جانا چاہتا ہے اس طرف چلا جا ئے، کیونکہ اسلام میں جبر نہیں ہے؟اپنی اور بھلائی اور برائی وہ خود سوچے سمجھےاورسیکھے۔اس آیت کی تفسیر میں چلے جائیں تو پوری وضاحت مل جا ئیگی کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کیا چاہتا ہے ؟اور اس میں سارے فریق انتہائی شدت پسندی پر عامل ہیں ، جبکہ صحیح راستہ میا نہ روی ہے۔ جس کو حضور ﷺ نےفرمایا کہ جو میرا راستہ ہے۔ مگر ہم اس پر چونکہ عمل ہی نہیں کرتے ہیں اسی وجہ سے ہم نہ ادھر میں ہیں۔ اور نہ ادھر ہیں، میں مگر کہلاتے پھر بھی خود کو مسلمان ہیں جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ سچے دل سے ہر مومن کو اپنا یہا ں پر پوری وفادار دیکھنا چاہتا ہے کہ جان چلی تو کوئی بات نہیں۔ جب کہ ایک آیت بھی موجود ہے کہ اگر کفاروں کے مطالبے پر کوئی جان بچانے کے لئے غلط بات بھی کہنے پر مجبور ہو جا ئے تو کہہ سکتا جبکہ اس آیت کا مکہ کے ابتدائی دور میں نزول ہوچکا تھا۔اور ایک ہی خاندان کے تین افراد ابو جہل کی قید میں تھے اور تینوں سے ایک ہی مطالبہ کر رہا تھا اور وہ تھے بھی تینوں ماں بیٹے او والد؟ جن کے نام حضرت عمار سمیہ اور یاسررضوان اللہ علیہم اجمعین تھے۔ ان میں سے ماں اور والد نے تو شہید ہونا پسند فرمالیا مگر وہ الفاظ ادا کرنا پسند نہیں کئے؟ مگر حضرت یاسر (رض) نے وہ کہہ کر جان چھڑالی اور حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے حضور ﷺ نے پوچھا کہ جب تم یہ کہہ رہے تو تمہارے دل کی حالت کیا تھی؟ تو انکا جواب تھا کہ وہ ایمان کی حالت میں تھا۔ نہ ان ؓسے انہوں ﷺ قسم اٹھوائی نہ تجدید ایمان کرائی اور ان کو معاف کردیا؟ کیونکہ اسوقت کے مسلمان جھوٹ نہیں بولا کرتے تھے۔ دوسرے اگر جھوٹ کوئی بو لتا بھی تو اللہ سبحانہ بذریعہ وحی حضور ﷺ کومطلع فرما دیتے تھے؟ حضورﷺ نے بجائےان پر ناراض ہونے کہ بجائے الٹا کچھ دنو ں کے بعد ان کو جنتی ہونے کی بشارت دیدی کہ “ تم شہید ہو گے اور اس طرح ہوا کہ جب مدینہ منورہ کی مسجد بن رہی تھی اور حضور ﷺ بھی بہ نفس ِ نفیس مدد فرما رہے تھے تو کچھ لوگوں نے ان پر اینٹیں زیادہ لادیں تو انہوں آکر شکایت فر مائی کہ حضور ﷺ یہ مجھے زیادہ وزن لاد کر مراڈالیں گے؟ تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ“ تم ان کے ہاتھوں نہیں مرو گے، بلکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہوگے جبکہ وہ حق پر ہونگے“ اور ایسا ہی ہوا جبکہ وہ انتہائی ضعیف تھے ہوچکے تھے ان میں تلوار اٹھانے کی طاقت بھی نہ تھی مگر وہ بہادری سے لڑتے ہوئے جنگ صفین میں شہید ہوئے؟ اس کے بر عکس ایک واقعہ غزوہ بدر میں صحابہ کرام کو پیش آیاکہ دو آدمی جو کنوئیں پر وہاں پانی لینے آئے تھے پکڑلیئے انہوں نے پہلے توسچ بولا کہ ہم پانی لینے آئیں ہیں اور ابو سفیان کے آدمی نہیں ہیں۔ حضور ﷺ نماز ادا فرما رہے تھے انہوں ؓنے انہیں جھوٹا سمجھا اور ان کو مارا پیٹا تو انہوں نے خود کو ابو سفیان کا آدمی تسلیم کرلیا۔حضور ﷺ نے سلام پھیرا تو فرمایا کہ ان کو چھوڑدو انہوں نے جب سچ کہا تو تم نے ان کو جھوٹا سمجھا اور جب جھوٹ بولا تو ان کو سچا مان لیا؟ اس کے بعد حضور ﷺ کا وصال کیا ہوا کہ لوگ حضور ﷺ سے دور ہوتے چلےگئے۔ حضور ﷺ زمانے میں صرف چند اسکالر تھے جن کو فتویٰ دینے کی اجازت تھی۔ لیکن جب حضرت عمر ؓ نے اپنے دور میں تراویح با جماعت ہر مسجد میں شروع کرادی تو ان کو حفاظ کی ضرورت پیش آئی اور انہوں نے با قاعدہ وظیفہ اور تنخواہیں حفاظ کو دینا شروع کیں اب نہ حفاظ کا معیار وہ رہا جو کہ صفہ پر بیٹھ کر تعلیم پانے والوں معیار تھا؟ مساجد کے اماموں کو فتوے جاری کرنے کا موقعہ مل گیا دوسری طرف عمالِ حکومت اب وہ نہیں رہے بلکہ ان کا معیار بھی وہ نہیں تھا جو حضور ﷺ زمانےمیں نتیجہ یہ ہوا کہ عوام کو شکایات پیدا ہونے لگیں اور قیادت حفاظ کے ہاتھوں میں آگئ۔ اور انہوں نے اپنے ماننے والوں کے ذریعہ مدینہ منورہ کا گہراؤ کرنا شروع کردیا اور شدت پسندی کایہ عالم ہو گیا کہ وہ صرف اپنے آپ کو ہی مسلمان سمجھتے تھے، اپنے علاوہ اور کسی کو نہیں۔ اس کے بعد مسلمان فرقوں میں بٹتے چلے گئے۔وہی سلسلہ آج تک جاری ہے کبھی تیز ہوجاتا ہے کبھی سست پڑجاتا ہے۔ اس کی وجہ سے دشمناں اسلام عناصر کو موقع مل گیاکہ وہ مسلمانو ں کو مسلمانوں کے ہی خلاف استعمال کریں جو ابھی تک کہیں نہ کہیں جنگ کی شکل میں جاری ہے۔ اس کا حل یہ ہی ہے کہ لوگ حضور ﷺ نقش قدم پر واپس آجا ئیں۔ اس علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس سلسلہ ایک قول حضرت امام ؒ مالک کا مشہور ہے کہ اسلام کی نشاتہ ِ ثانیہ تو ہوگی مگر اسی طرح جس طرح کہ یہ آیا تھا۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.