اپنے اعمالِ صالح خود ضائع کرنے والے لوگ؟۔۔۔ شمس جیلانی

یں نے اس مرتبہ جان کر یہ مضمون آپ کے سامنے پیش کیا ہے کہ اپنے اپنے حلال مالوں سے بھی سب ہوشیار رہیں کہ اگلا مہینہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے جس میں ہر ایک کچھ نہ خرچ کرنا چاہتا ہے۔ جس کاثواب بشرطِ خلوص جہاں بے حساب ہے وہیں دینے والے کی ذراسی غلطی پر کچھ بھی نہیں رہتاہے۔ اور قیامت کے دن اس کا حال ایک آیت کے مطابق یہ ہوگا جیسے کہ ً پیاسے کو دورسے ریت کا سراب پانی سے بھرا تالاب نظر آتا ہے۔ جبکہ پاس جائیے تو اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی۔ ہمارے یہاں مانگنے والے رمضان کو کمانے کا موسم کہتے ہیں۔ جہاں فقیروں کی چاندی ہوتی ہے وہیں پیشہ ور فنڈریزرس کی بھی چاندی ہوتی ہے اور وہ لوگ دور دور سے کرائے پر بڑے بڑے معاوضے پربلا ئے جاتے ہیں جو جتنی بڑی شہرت کے مالک اپنے اس فن میں ہوتے ہیں؟ اور وہ لوگ ایسے سبز باغ دکھاتے ہیں کہ حاضرین اور خاص طور سے بہنیں اپنے ہوش و ہواس کھوبیٹھتی ہیں مال اور زیورات دیتے وقت اس بارے میں اپنے شوہروں تک سے پوچھنے کی زحمت نہیں کرتیں جوکہ آگے چل گھریلو تلخیوں کا باعث ہوتے ہیں؟
سورہ الکہف کی آیت نمبر102 میں اللہ سبحانہ تعالیٰ سخت بیزاری سے ارشاد فرما رہا ہے کہ ” کیا گمراہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ میرے ہی غلاموں سے مدد لیکر وہ جنت میں پہنچ جا ئیں گے؟ میں نے ان کے اور ان کے لئیے معبودوں کے لیئے دائمی جہنم بناکر تیار کرکھی ہے؟ متعدد حدیثوں میں یہ مضمون آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ صرف میرا طریقہ صراط ِمستقیم ہے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ایک آیت اس کے بارے میں نازل فرما کر اس پر مہر ثبت کردی ہے کہ تمہارے لیئے تمہارے نبی ﷺ کے اسووہ حسنہ میں نمونہ ہے؟ لہذا طے شدہ بات یہ ہے کہ جو کام اللہ کے حکم اور اس کے نبی ﷺ کے بتا ئے ہوئے طریقہ پر انجام دیا جا ئیگا وہی قیامت کے دن قابل ِ قبول ہوگا۔ جبکہ نبی ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ شیطان اس سے مایوس ہوچکا ہے کہ میری امت بتوں کی عبادت کرے گی لہذا اس نے دوسرے نمونے تیار کر رکھے ہیں جو کہ زیادہ تر ریا کاری یعنی دکھاوے پرمشتمل ہیں؟اور اس کی راہ میں خرچ کرنے والے یہ قیاس کررہے ہونگے کے ہم نے بہت بڑی رقم دیکر بہت بڑا ثواب کمایا ہے لیکن وہا ں جب نامہ اعمال کھلے گا تو سوائے صفر کے کچھ نہیں ہوگا؟ فرشتے کہیں گے کہ باری تعالیٰ یہ تو ہر وقت تیری عبادت میں مصروف رہا،تیری راہ میں خرچ کرتا رہا، تو جواب میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرما ئے گا کہ اس نے اس میں میرے غلاموں کو بھی شریک کرلیا تھا کہ وہ آج کے دن میرے یہاں سفارش کریں گے اور میں شراکت پسند نہیں کرتا لہذا میں نے سب انہیں کے کھاتے میں ڈالدیا ہے ان میں سے کچھ بھی مجھے قبول نہیں تھا؟یہ غلطی بہت پکے مسلمانوں سے بھی اتنی ہوجاتی ہے! کہ انہیں خود کو معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں غلطی ہوئی کہ جو کچھ انہوں نے دیا اللہ تعالیٰ طرف سے رد ہوتا چلا گیا اور وہ جان بھی نہ سکے کہ حرام کے مال پر تو جہنم ہے ہی ہے ان کی حلال کی کمائی بھی محض اس وجہ سے ضائع ہوگئی کہ یا تو حضورﷺ کے بتا ئے ہوئے طریقہ پر نہیں کی اور یاریاکاری اور شرک کے باعث وہ مقبول ِ بارگاہ الہٰی نہیں ہوئی اور وہا ں جمع کچھ نہیں ہوا۔ مومن عقلمند وہ ہیں جو کہ حضور ﷺ کی ہدایت کے مطابق اس پر عمل کرتے ہیں کہ جو سیدھے ہاتھ سے اس طرح دیتے ہیں کہ ان کے اپنے الٹے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔ یہاں بہت سے لوگ یہ کہیں گے کہ اس امت کی بھول چوک تو معاف ہے اور اللہ بڑا رحیم ہے؟ یہ دلاسہ اکثر پیشہ ور فنڈ ریزر استعمال کرتے ہیں؟ جبکہ کسی کام کو جانتے ہوئے کرنا بھول چوک نہیں ہوتاہے؟ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ قر آن میں بار بار ذکر کرچکا ہے کہ میں کسی قسم کا شرک قبول نہیں کرتا، جو کام بھی کرو خالص میرے لیئے ہو،اس میں کوئی اور شریک نہ ہو؟ مزید احتیاط کا تقاضہ اور اس کا حل یہ ہے کہ فند ریزنگ کرنابھی ہے تو اعلان اس طرح ہوکہ ایک بھائی یا بہن نے اتنی رقم دی مگر وہ اپنانام ظاہر کرنا نہیں چاہتے؟ مگر کبھی کوئی کسی فنڈ ریزنگ میں جا ئے تو سیکڑوں نہیں ہزاروں میں ایسے صرف ایک دو اعلان ملیں گے؟ نینیانوے فیصد ناموں کا اعلان با قاعدہ ہوتا ہے اگر اعلان کرنے والا نہ بھی چاہے تو بھی اس کو مجبور کیا جاتا ہے کہ تمہیں اس کا ثواب ملے گا جتنے لوگ تمہارا اعلان سن کر مال دیں گے؟ اور وہ شرما حضوری میں اعلان کرنے کی اجازت دیدیتے ہیں کہ اتنا بڑا عالم جو کہہ رہاہے وہ غلط تھوڑی کہہ رہا ہوگا؟ یہاں ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ اگر کوئی زبردستی اعلان کر بھی دے اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے تو ایک شرط ہے جو آپ کی خیرات کو ابھی بھی بچا سکتی ہے کہ اعلان سننے کے بعد آپ کو خوشی محسوس نہ ہو؟ جو کہ انتہائی مشکل عمل ہے۔جب یہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے شرک کی سختی سے مذمت کی تو صحابہ کرامؓ جیسے لوگ کہنے لگے کہ ہم خودکواس سے خوشی کو بھی محسوس کرنے سے نہیں روک سکیں؟ تو حضور ﷺ نے جواب دیا کہ پھر اپنا ٹھکانہ جہنم بنالو؟ اب آخری بات کرکے میں بات ختم کرتا ہوں اور مسئلہ ہے رمضان شریف میں مانگنے والوں یعنی پیشہ ور فقیروں کی یلغار؟ ویسے بڑے شہروں تو وہ ہمیشہ رہتی ہے۔ اس موقعہ پر مہمان فقیر بھی بہت آجاتے ہیں۔ اور یہ ویسے تو ایک نیٹ ورک بن گیا جو پولیس سے ملکر بنتا ہے۔ اس میں“ ٹھیئے “بکتے ہیں جیسی جگہ ویسا کرایہ ٹھیکیدار لیتا ہے۔ ہے جب ہم کو یہ سب معلوم ہے پھر بھی انہیں دیتے ہیں بتائیے جانتے ہوئے اگر مال گٹر میں ڈال رہے ہیں تو وہ بھلا راہ خدا میں کیسے شمار ہوگا؟ صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے آپ دیتے ہیں اور حضور ﷺ نے فرمایا کہ“ دکھاوے کی عبادت کوئی عبادت نہیں روزہ روزہ نہیں، نماز، نماز نہیں خیرات نہیں ً“اس کا حل بھی وہی ہے کہ جولوگ زکات کے مستحق ہیں ان کو تو اللہ تعالیٰ نے خود مقرر فرمادیا ہے اور ترتیب بھی بتادی ہے۔ کہ نزدیکی عزیز پہلے۔ پھر یتیم۔ پھر مساکین اور اس بعد مسافر ان میں اور تو سب واضح ہے مگر مساکین کی توضیح ضروری ہے کیونکہ اردو میں مسکین ہر غریب کو کہا جاتا ہے۔ جبکہ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کو آپ جانتے ہیں یا آپ کے دور یا قریب کے رشتے دار ہیں آپ کو پتہ ہے کہ ان کی آمدنی اتنی نہیں ہے کہ ان کا با خوبی گزارا ہوجا ئے انہیں جتانا ضروری نہیں اسطرح دیجئے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے اور نہ ان کی مشہوری کریں اس طرح آپ کے پاس رقم بچے گی ہی نہیں کہ کسی مانگنے والے کو دینے کا سوال پیدا ہو۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سوالی آپ کے دروازے سے خالی ہاتھ واپس نہیں جانا چا ہیئے۔ یہ اس دور کا حکم تھا جب پیشہ ور سوالی نہیں بلکہ ڈھونڈے سے بھی سوالی نہیں ملتتے تھے۔ اب جبکہ پیشہ ور بھکاری موجود ہیں تو آپ یا میں یا کوئی اور کہاں تک احتیاط کریگا کہ کوئی خالی ہاتھ واپس نہ جائے ؟اسے کہنا ہی پڑیگا کہ بابا معاف کرو۔ مگر نرمی سے کہیئے بد تمیزی سے نہیں جو حکم ہے؟ ممکن ہے اس میں آپ کسی ضرورت مند کو نہ دھکار دیں۔ ہمارے یہاں ایک اور بھی چیز ہے جسے صدقہ کہتے ہیں یاد رکھئے صدقہ ہر اس خیرات کوکہتے ہیں جو آپ جتنا چاہیں اپنی آمدنی سے خرچ کریں مگر راہ خدا میں خرچ کرنے کے قائدے وہی رہیں گے کہ دکھاوا نہیں،،کسی اور کو خوش کرنا بھی نہ ہو۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.