وماتوفیقی اللہ باللہ۔۔۔ شمس جیلانی

ایک دن ہمارے بچوں نے اپنی ایک مشترکہ میٹنگ کے بعد جس کی قیادت ہماری بڑی صاحبزادی کر رہی تھیں نے ہمارے سامنے آکر ذکر کیا کہ ابا ّ میں یہاں اس لئیے آئی تھی کہ میں اپنے گھر پر آپ کی نوے سالہ سالگرہ منانا چاہتی تھی اور آپ کی اجازت مطلوب ہے۔ ان کے اباّ کہنے سے آپ سمجھ گئے ہونگے کہ ہم پاپا کریسی کے قائل نہیں ہیں اپنے آپ کو پاپا یا ڈیدی کہلوانا پسند نہیں کرتے لہذاہمارے بچے ابا کہتے ہیں اور ہمارے اور ان نکے درمیان بہت زیادہ بے تکلفی بھی ہے؟ اس سے آپ کو ہماری قسم سمجھنے میں آسانی ہوگئی ہوگی کہ ہم کس قسم کے مسلمان ہیں؟۔ ہم نے کہا بیٹا کیوں فضول خرچی کر رہی ہو اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اول تو فضول خرچی ہی ناپسند ہے کہ فضول خرچی کو قرآن میں کار ِ شیطانی قرار دیا ہے اور شیطان کو اللہ تعالی کا نا شکرا قرار دیا ہے؟ پھر جس طرح ہمارے یہاں ایسی تقریبات کو منایا جاتا ہے اس میں سوائے ممدوح کی جھوٹی تعریفوں کی وہاں سے اور کوئی سبق بھی حاصل نہیں ہوتا؟کہنے لگیں کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ اپنی زندگی کے تجربات شئیر کریں؟ ہم نے کہا اس سے تمہیں کیا فائدہ ہوگا کیونکہ ہمارا دور کوئی اور دور تھا اور تمہارا دور اس سے قطعی مختلف ہے؟ لہذا وہ تمہارے کسی کام نہیں آئیں گی؟ کیونکہ اس دورمیں بزرگو ں کو سمجھوتہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی اس لیئے کہ وہ مرتے دم تک با اختیار رہتے تھے اور سب کو بزرگوں کی بات ماننا پڑتی تھی اس کی وجہ اس وقت کا معاشرتی نظام تھا۔ جبکہ آج کا دور مختلف ہے آج کے بزرگو ں کو ہر وقت سمجھوتہ کرنے کے لئے نئی نسل سے تیار رہنا چاہیئے ورنہ بات نہیں بنے گی؟ کیوں؟ اس کے لئے میں اکثر آج کے بزرگو ں کے سامنے میر تقی کا یہ شعر بیان کرتا ہو ں کہ ع میر صاحب زمانہ نازک ہے دونوں ہاتھو ں سے تھامئے دستار؟ البتہ میرا مشورہ یہ ہے کہ مذہب کا سلسلہ نئی نسل میں بچپن سے جاری رکھا جا ئے؟ اس لیئے َ کہ اسی پر ہرایک کے حقوق کا دارومدار ہے ورنہ معاشرے سے اچھے اور برے کی تمیز اٹھ جا ئے گی؟ والدین کے اپنے مستقبل دار مدار بھی اسی پر ہے کہ بچے کتنے مذہبی ہیں؟ وہ اللہ اور رسولﷺاللہ کو کتنا مانتے ہیں؟ قدیم تاریخ میں دو مثالیں ایسی موجود ہیں کہ جنہوں نے اپنی اولاد کے لئے ہدایات چھوڑیں اور وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئیں کہ اس نے قرآن میں شامل کردیں؟ ان میں سے ایک حضرت یعقوب علیہ اسلام ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کواپنی ہدایات سے نوازا تھا جوکہ پیغمبرؑ تھے۔دوسری نصیحت حضرت لقمان ؒنے اپنی اولاد کوکی تھی جو کہ دانشور تھے۔ اب یہ دونوں قسمیں نا یاب ہیں کہ نبوت ؑ پر اللہ تعالیٰ نے مہر کردی ہے کہ اب کوئی آئندہ حضور ﷺ کے بعدنبیؑ نہیں آئے گا۔ اور نہ جانے کیوں اس نے دانشور پیدا کرنے بھی بند کردیئے؟ نبوت ؑ کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ آج کعبہ میں جو اذان دی جاتی ہے پوری دنیا میں سنی جاتی ہے؟ لہذا اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اب ہر قریہ میں نبیؑ بھیجنے کی ضرورت نہیں رہی اور یہ کام اس امت کے سپرد کردیا کہ تبلیغ بھی ہم ہی کریں اور حضور ﷺ کو قیامت تک کے لئیے نبی آخرالزماں ﷺ بنا دیا اور قرآن میں فرمادیا کہ تمہارے نبی ﷺ کی زندگی میں بہتریں نمونہ موجود ہے اور حضور ﷺ نے تمام اسلامی قوانین اور نبیوں ؑکے بر عکس عمل کر کے بھی دکھا دیئے۔ دونوں کی باتیں چونکہ حضرت یعقوب علیہ اسلام اور حضرت لقمان (رح) کی باتیں اللہ پسند آئیں اور اس نے شامل ِ قر آن کردیا لہذا اس کا اتباع اور اعادہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر میری ایک شرط ہے کہ وہاں میری کوئی تعریف نہیں ہوگی اور نہ میری کوئی تعریف کرے گا؟ صرف تعریف اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہوگی جو کہ بندو ں کو تو فیق عطا فرماتا ہے سورہ ہود کی آیت نمبر 88 میں” وما توفیقی اللہ باللہ کی تفسیر ” پڑھ لیجئے پوری بات سمجھ میں آجا ئےگی۔ پھر جس سے جو وہ کام لینا چاہتا ہے اسکو وہ صلاحتیں بھی عطا فرماتا ہے؟ تب کہیں جاکر بندہ کچھ کرنے کے قابل ہوتاہے۔ لہذااگر کسی کو کچھ حاصل ہوگیا ہے تو اس میں اس کا کمال کیاہے۔ تعریف صرف اس کی ہونا چاہیئے جو کہ صاحب ِ کمال ہے؟ اس نے کسی کو اچھی ماں اچھا باپ عطا فر ماد یا، والدین کو اچھے بچے عطا فرما دیئے اوراچھا حلقہ احباب عطافرمادیا ہر طرح وہی قابل ِ حمد و ثنا وہی ہے نہ کہ انسان جو اپنی مرضی سے ایک قدم بھی نہیں چل سکتا توہ کسی اور کو اس کا کریڈت دیکر بندہ شرک خفی کا مرتکب کیوں ہو؟ لہذا پہلے ایک میٹنگ آپس میں کرلو اور اس میں میری شرائط پر سب راضی ہوں تو فبہا کہ اس سے اچھی کیا بات ہوسکتی ہے کہ تم ایک متروک سنت کو پھر جاری کرنے والے بنوگے جس کا اسلا م میں بہت بڑا ثواب ہے؟ چونکہ ایک بھلائی رائج کرنے کا باعث ہوگے لہذا تمہارا جو بھی اتباع کر ے گا قیامت تک اسکے اس فعل کے ثواب کے مستحق ہوگے؟ اس پرمیں اللہ کا شکر ادا کرونگا جس نے مجھے تم جیسے سعادتمند بچے عطا فرما ئے؟کہنے لگیں تب تو ہم سب بہن بھائی ملکر آپ کی نوے سالہ سالگرہ منا ئیں کیونکہ ایسے مواقعے بار بار نہیں آتے لہذا دھوم دھام منا ئیں گے اور آپ کو شکایت کا موقعہ بھی نہیں دیں گے؟ کیونکہ آپ کی انفرادیت یہ ہے کہ آپ کا ہر آرٹیکل قر آن اور سنتوں کے حوالوں سے بھر ا ہوتا ہے اور ہماری تقریب آنے والی نسلوں کی رہنمائی کرے گی؟ ہم نے کہا پھر اس میں کوئی مضا ئقہ نہیں ہے۔ اور انہوں نے ایک ہال بک کرا ڈالا؟ جبکہ ہم تو ایسے موقعوں کی تاک میں رہتے ہمیں کہیں پیغا م پہنچانے کا موقعہ ملے اور ہم قوم کو پھر پٹری پر واپس لا سکیں اور سراط ِ مستقیم جو کہ نبی ﷺ کا راستہ ہے اور انہوں نے اس پر چل کر بھی دکھا یا ہے اور اس کے حق میں یہ فرمایا ہے کہ “صرف میرا راستہ سراط ِ مستقیم اور سیدھا ہے جبکہ اور جتنے راستے ہیں ان میں بہت دروازے ہیں جن پر پردے پڑے ہوئے ان میں سے کسی پر سے پردہ اٹھا کر جھانکنا بھی نہیں ورنہ گمراہ ہوجا ؤگے “ پھر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اسے یہاں تک پسند فرمادیا کہ آپ ﷺ کا اتباع میرا اتباع ہے اور یہ بھی قر آن میں فرمایا کہ امت کے لیئے تمہارے نبیﷺکے اسوہ حسنہﷺ میں بہتریں نمونہ ہے۔
جس کیلئے میں نے اپنی زندگی وقف کررکھی ہے۔ یہاں آنے کے بعد تیس سال سے میں نے حضور ﷺ کے حسنہ ﷺ کی ترویج اور اشاعت کے لیئےاپنی زندگی وقف کر رکھی یہ میرے بچوں کو بھی معلوم تھا کہ میرا اللہ تعالیٰ سے عہد یہ تھا کہ جب میں اپنے فرائض سے فارغ ہوجا ؤنگا توصرف خدمت خلق اور خدمت ِاسلام کرونگا لہذا میری بیوی جو پینسٹھ سال میرا ساتھ بہت اچھی طرح نباہ کر پانچ سال پہلے اللہ کو پیاری ہوچکی ہیں اور مجھے اپنے بچوں کا آج تک پوراتعاون حاصل ہے وہ میرے مشن میں میرا ساتھ دیتے رہے ہیں؟ اس کے لئیے میں شکر گزار ہوں اس کاجس کا شکر گزار ہونا چاہیئے؟کیونکہ فرد ہو قوم ہو جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں؟ سب مرہون منت ہیں اللہ سبحا نہ تعالیٰ کہ سب سے اول تو وہ جسے توفیق دیتا ہے تو وہ کسی کام کے لیئے کھڑا ہوتا ہے اگر وہ تو فیق ہی نہ دے تو کوئی شخص کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ ایک کہاوت مشہور کے اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑسکتا ۔ پھر لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دیتا ہے۔ اس طرح لوگ شامل ہوتے رہتے ہیں اور قافلہ بنتا رہتا ہے؟ یہ ہی میرے ساتھ بھی ہو اگر میں اپنے ساتھیو ں کی فہرست پیش کرو ں تو وہ بہت بڑی تعداد ہے اور ان سب شکر گزار ہوں۔ اللہ نے ان کے دل میں میرے لیئےمحبت ڈالی اور وہ جس پیشے سےوابسطہ تھے انہوں نے اپنی بہتریں صلا حییتوں سے میرا ہاتھ بٹایا۔ جس کے نتیجہ میں حالات حاضرہ پر اور سیرت پر پانچ چھ ہزار کالم میں لکھ سکا۔ حضور ﷺکی سیرت “روشنی ہرا سے “کے نام سے، خلفائے راشدین کی سیرت۔ حضرت امام حسن ؑ اور حسین کی سیرت۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی سیرت کل تئیس کتابیں۔ اور ڈھائی سو ویڈیو یو میں سے ٹیوب پر 137 سیرت مبارکہ پر حضور ﷺ عاشقین کے لئیے موجود ہیں جبکہ دوسرے میری ہی دوسرے بہت سے مو ضوعات پر موجود ہیں۔ کئی ویو سائڈ ہیں فیس بک ہے۔ مجھے امید ہے کہ جب تک میں انشااللہ زندہ ہوں یہ سب جاری رہیں گے اور میرے بعد بھی میری اولاد اور احباب اسے جاری رکھیں۔ رہی نصیحت اس کے حضور ﷺکا اسوہ حسنہ کافی ہے پڑھیں اور اس پرعمل کریں؟ اگر حضور ﷺ کی دو ہی احادیث مضبوطی سے پکڑلیں کہ “ جھوٹ مت بولو اور جو اپنے چاہو وہ اپنے بھائی کے لیئے چاہو۔ تو کافی ہے۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.