چند آیات جو کہ ہرفرقے کے قائدین کے لئے رہنما ہیں۔۔۔ شمس جیلانی

یہاں ہم وہ چند آیتیں پیش کر رہے ہیں جو کہ ہر فرقے کے تبلیغ کرنے والو ں کے لئے راہنما ہیں جن کی طرف ایک آیت میں ہم نے کئی بار اشارہ کیا ہے جو اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں اپنے نبی ﷺ کو مخاطب فرما تے ہوئے تعلیم فرمارہا ہے کہ جب بھی تبلیغ کرو تو ہمیشہ حکمت کے ساتھ کرو؟ مگر ان باتوں سے ہماری اکثیریت واقف نہیں ہے۔ نہ ہی وہ وقت کا خیال کرتی ہے اور نہ ہی موقع اور محل کا خیال رکھتی ہے،نتیجہ وہ نہیں حاصل ہوپا رہا ہے جو اتنا سرمایہ اتنی محنت اور مال تبلغ پر خرچ کرنے کے بعدہونا چاہیئے؟ اب یہاں سورہ الاسراء کی آیت (52) نمبر میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جو ہدایت فرمائی اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے مسلمانوں اپنی محفلوں میں گفتگو اچھے طریقہ سے کیا کرو؟ جس کا ہم عام طور پر پہلےتو محفلوں میں خیال ہی نہیں رکھتے!جہاں ہم بات کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ ہم وہاں بھول جاتے ہیں کہ آپس میں ہم میں شیطان اس وقت فساد پھیلا رہا ہوتا ہے اور شیطان مسلمانوں کاکھلا دشمن ہے۔ ہماری گفتگو اکثر ایسی ہوتی ہے جوکہ اچھے اثرات مرتب نہیں کرتی؟ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جسکی وجہ سے بات کا اثر نہیں ہوتا کہ کہنے والا خود سامعین کو اس پر عامل نظر نہیں آتا۔ دوسری بات وہاں دوسرے لوگوں کی برائی اور غیبت اور ہنسی مذاق کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ کسی کی غیبت کو بیان کرنے سے اگر کوئی شخص وہاں محفل کو ہنسادیتا ہے تو دوسری طرف بیجا مذاق کی وجہ سے اس کی اپنی شخصیت کو بری طرح گھٹا دیتا ہے۔ نتیجہ آپ خود مرتب کرسکتے ہیں کہ یہ باتیں کسی مخالف فرد یافرقے تک پہنونچیں گی۔ تووہاں سے نہلے پر دہلے کے مترادف جو جواب ہوگا وہ اس سے کڑا ہو گا اور اگر ایک دوسرے کی برائیاں اور ایک دوسرے کی عزت ا سی طرح اچھلتی رہے گی تو باہمی تعلقات پر آگ پر تیل چھڑکنے کاکام دے گی؟ اور کبھی مسلمان آپس میں متحد نہیں ہوسکیں گے؟ اس کے برعکس مسلمانوں کا خیر خواہ کوئی ایک بھی فرد وہاں موجود ہوا؟جو کہ اس محفل سے یہاں ہوکر آیا ہو اور یہاں آکر یہ کہہ دے کہ تم تو اس کے خلاف ایسا بول رہے ہو وہ تو تمہاری بڑی تعریفیں کررہا تھاتو اس پر گھڑوں پانی پڑ جا ئیگا کہ ایسی بات میں نے اپنی زبان سے نکالی کیوں؟ اس کا جواز یہ ہے کہ اسلام جہاں ہر فرد کو خوداپنے خلاف بھی سچی بات کہنے کا حکم دیتا ہے وہیں وہ دو دوسرے آدمیوں میں یادوفرقوں میں صلح کرانے کے لیئے جھوٹ بولنے تک کی اجازت بھی دیتا ہے۔ اس سے آپ کو اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نزدیک “اتحاد بین المسلمین“ کی کتنی زیادہ اہمیت ہے جو ہم چند ٹکوں یا دنیا کے چند فائدوں کے خاطر غلط باتیں کہہ کر برباد کر دیتے ہیں۔ ابلیس کے ٹارگیٹ تمام محافل تو ہیں ہی ہیں، جبکہ مسلم گھرانے یعنی میاں بیوی اس سے بھی زیادہ ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ ابلیس روزانہ اپنا اجلاس منعقد کرتا ہے اور اپنے کارندوں سے سوال کرتا ہے کہ تم نے امت مسلمہ کو لڑانے کے لیئےکیا کیا جتن کیئے ہیں ؟۔ وہ ان سے ان کے کارنامے سن کر ان کی پیٹھ ٹھونکتا ہے اور سب سے زیادہ ان شاگردوں کو شاباش دیتا ہے، جنہوں نے میا ں بیوی میں برائی کرائی ہو؟ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اگر کسی گھر میں برائی پیدا ہوجا ئے تو اس گھر کی ترقی تو بڑی بات ہے وہاں ذہنوں کاسکون تک ختم ہوجاتا ہے؟ اورجس گھر میں ذہنی سکون نہ ہو وہ گھر ہی تباہ اور برباد ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں مسلمانوںمیں کالا جادو عام ہے“ لوگو نے بڑی بڑی دکانیں کھول رکھی ہیں اور شیطان کے کارندے اس کام میں بری طرح مصروف ہیں ۔ جبکہ جادو کرنے والے اور کرانے والے دونوں ہی جہنمی ہیں یہ بھی عظیم فتنوں میں سے ایک فتنہ ہے۔اور حضور ﷺ نے ہر فتنے کو قتل سے بڑا جرم قرار دیا ہے۔ اور ہمیشہ اپنی حیات ِ مبارکہ میں امت کو سمجھا تے دیکھااور سنا ہے کہ “دیکھو آپس میں میرے بعد لڑنا مت اگر سرداروں کی تلواریں ایک بار میان سےنکل آئیں تو دوبارہ میان میں نہیں جا ئینگی؟ صحابہ کرام ؓ فرمایا کرتے تھے کہً حضور ﷺ ہم کیسے لڑسکتے ہیں کہ ً قرآن پاک ہمارے پاس ہے آپﷺ کی سیرت ہمارے پاس ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا کرتے کہً یہ دونوں چیزیں اسوقت تمہارےؓ گلے سے نیچے نہیں اتریں گے۔ وہ صورت حال اب آپ کے سامنے موجود ہے کہ جس قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے اسوہ کو امت کے لئیے نمونہ بتا یاہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اسے اپنے سامنے رکھتے ہیں اوراپنے لئے مشعل راہ بنا ئے ہوئے ہیں؟ ہم تو آجکل اس کو پڑھنا درکنار گھروں میں رکھنا بھی غیر ضروری سمجھتے ہیں؟ جبکہ حضور ﷺ کا فرمان یہ ہے کہ صراط المستقیم میرا اسوہ حسنہ ہے ا س کے دونوں طرف بہت سے دروازے ہیں جن پر پر دے پڑے ہوئے ہیں تم اس سیدھے چلے جاؤپردہ اٹھاکر بھی مت دیکھنا ورنہ گمراہ ہوجا ؤگے۔ حضرت امام زین العابدین ؑ کاقول ہے کہ ہم لوگ اپنے زمانے میں اسوہ ﷺ کو اس طرح پڑھتے تھے طرح جس لوگ قرآن شریف کو پڑھتے ہیں۔ اب قرآن بھی کسی کسی گھر میں مل جاتا ہے مگر زیادہ تر جذدان میں؟ مگر اسوہ ﷺ تو کسی گھر میں اب ملتا ہی نہیں ہے۔اور یہ تو بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ اس کا پڑھنا کیوں ضروری ہے؟۔وہ اس لئے ضروری ہے کہ قرآن اور صاحبﷺ ِ دونو ں ملکر اسلام کو مکمل دین بنا تے ہیں کیونکہ حضور ﷺ اس کو ہمیں اپنے اوراپنے ساتھیوں کے اوپر نافذ کراکر اور ہر طرح مکمل کرکے دکھاچکے ہں۔ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کے لئےان دونو ں کا مجموعہ قابل ِ قبول ہے جس کو قر آن دین میں اس نے دین ِ“ اسلام فرمایا ہے“۔ورنہ نہیں؟ اللہ ہم سب کو ان نکات کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما ئے۔ (آمین)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.