ہرایک کو دعا دینے کے لئیے ہاتھ نہ اٹھا ؤ۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

نہ جانے ہمارے یہاں یہ تصور کہاں سے آیا کہ کسی فقیرکو کسی شاہ صاحب کو حتیٰ کہ روحانی دوکاندارسے بھی جاکر کہوکے وہ دعاکردیں اور پھراس دعا سے لوگ امید بھی ر کھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ معاف کر دیگا یا ان کے کہے سے وہ کام کردے گا؟ چاہیں وہ چور بازاری کر رہا ہوں، زخیرہ اندوزی کر رہا ہو یا دکھا وے کی عبادت کر رہا جس کے بارے میں حضورﷺ نے فرمادیا کہ “ یہ ہم میں سے نہیں ہے یادوسری حدیث میں یہ فرما دیا کہ“ ریاکاری کی نماز نہیں،ریاکاری کا روزہ،روزہ نہیں، ریاکاریکی خیرات، خیرات نہیں ًیہ تصور قطعی غلط ہے اور جو واقعی اہلِ اللہ ہیں وہ ہرایک کے لئیے ہاتھ بھی نہیں اٹھاتے بلکہ کوئی اور پتہ بتا دیتے ہیں کہ وہاں چلے جاؤ تمہارا کام ہوجائیگا یہ اکثر زیادہ تر تو تنزیہ ہوتا ہے یا ان کو کشف سے کچھ معلوم جاتا ہے؟ اس لیئے اللہ والے ہر آنے والے کے لئے ہاتھ نہیں اٹھاتے اور نہ انہیں اٹھا نا چاہیئے؟ اگر اٹھائیں بھی تو دعا یہ ہونا چاہیئے کہ اے اللہ تو اس کو ہدایت دے اور توبہ کی توفیق عطا فرما تاکہ اسکا دل پلٹ جائے اور وہ نیک بندوں میں شامل ہوجا ئے؟ یہ میں اس لیئے عرض کر رہا ہوں کہ اگلا مہینہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے جو کہ عبادت کا مہینہ ہے تمام برائیاں چھوڑ کرخود کو گناہوں سے توبہ کرکے پاک کر لینے کا مہینہ ہے۔یہاں حضور ﷺکی ایک حدیث ہے کہ وہ ہلاک ہوا جس کے سامنے میراﷺ نام آیا اور اس نے درود نہیں پڑھی، دوسرے وہ جس نے رمضان کا آخری عشرہ بھی گزار دیا اور اللہ سبحانہ تعالیٰ سے مغفرت نہیں کرالی؟ اور تیسرا وہ جس کو ماں باپ یا دونوں میں سے کوئی ایک نصیب ہو اور اسے نے اپنی مغفرت کی دعا نہیں کرالی۔ اب یہ ا ن کی ذمہ داری ہے کہ جو ان کے پاس دعا کے لیئے آئیں تو کہیں بیٹا رمضان کا مہینہ بخشش کا مہینہ ہے اس کی رحمت جوش میں آئی ہوئی میں دعا جب کرونگا کہ تم صدق دل سے تو بہ کرلو! اور اللہ سے اس پر استقامت کی توفیق کی در خواست کرو تاکہ ثابت قدم رہ سکو؟ پھر دعا کے لیئے ہاتھ اٹھاؤ؟ تب تمہارے ساتھ میں ہاتھ اٹھاؤنگا ورنہ نہیں کوئی اوردر دیکھو؟ کیونکہ ملت ابراہیمی میں تو یہ رواج تھا جو سورہ مریم میں بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے مگر آخر میں دوسری جگہ قرآن میں ہی امت محمدﷺیہ کے لئے حضور ﷺکو بھی جوکہ رحمت اللعالمین ہیں حکم دیدیا گیا تھاکے آپ ﷺکافروں کے لیئے دعا ئے مغفرت نہ فرمائیں؟لہذا امت دعائے ہدایت تو کرسکتی ہے مگر دعائے مغفرت نہیں کرسکتی ہے؟ ہاں اگر آپ کسی غیر مسلم کو مشرف بہ اسلام کرلیتے ہیں تو آپ اس کے لیئے جو چاہے دعاکر سکتے ہیں۔ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں اس حد تک احتیاط رکھی ہے کہ قر آن میں ایک دوسری آیت میں شفاعت کرنے والوں کو بھی خبر دار فرمایا ہے کہ “وہ بات بھی معقول کہیں “ اس سے بات واضح ہوگئی ہے کہ جنکو شفاعت کرنے کی اجازت ہو گی وہ مشروط ہوگی کہ بات معقول بھی فرما ئیں؟ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص کا نامہ اعمال سادھا ہو اور وہ پیر صاحب کی خدمت میں یا والدین کی خدمت میں حاضر ہوکر دعا کرالیں۔ اور گناہ ان کے معاف ہوجا ئیں اور رمضان گزرتے ہی وہ اس سے بدتر ہوجا ئیں جو کہ پہلے حالت تھی؟ جبکہ رمضان کا مقصد اللہ سبحانہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ تم متقی ہوجاؤ؟ اس کے لیئے اللہ نے وہ ماحول پیدا کردیا ہے اور ہمیں حکم بھی دیا ہے کہ اس سے فائدہ اٹھا ؤ جو کہ ایک آیت میں ہے کہ تبلیغ حکمت کے ساتھ یعنی لوہے کو جب بھی اللہ کی طرف موڑنے کی کوشش کرو کہ وہ اسلام کے لئے نرم ہوچکا ہو۔ انشا اللہ تبلیغی ذہن رکھنے والے لوگ کوشش کر کے دیکھیں کامیابی ہوگی؟ ورنہ یہ مہینہ بھی پہلے مہینوں کی طرح گزر جا ئے گا اور حاصل کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں اس مہینے سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)ہ

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.