ہم سورہ العصر پر آج یہ تیسرا کالم لکھ رہے تھے۔۔ شمس جیلانی

اب یہ آنے والی نسلوں کا کام کے ہے کہ اس پر مزید کام کریں؟اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ تو ہمارے درمیان اب حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں جو سورہ فاتحہ کی تفسیر اتنی بڑی کرسکیں کہ وہ اسی اونٹوں پر لادی جا سکے نہ ہی کوئی اتنا بڑا ہم میں دعویٰ کرنے والا اسکالر حضرت علی کرم اللہ جیسا موجود ہے جو کہے کہ مجھ جیسا کو ئی عالم اس طرف قرآن کاموجود ہے مگر کوئی زحمت نہیں کرتا کہ وہ میرے پاس آکر علم حاصل کرے؟اس کی جگہ میں ؓ ہوتا تو میں درمیان حائل سمندر بھی ہوتا تو اسے پار کرکے جاتا اور علم حاصل کرتا اور اسے پھیلاتا؟۔ البتہ حضرت امام شافعی ؒ کایہ فرمان ابھی تک باقی ہے کہ اگر اللہ صرف یہ ہی ایک سورت نازل فرمادیتا تو کافی تھی اور ہم اگر اس کو غور اور فکرسے پڑھتے تو یہ ہی صورت ہمارے سب کے لئے کافی تھی۔اس سورہ میں حق کی وصیت کرنے اور صبر کی بھی بڑی تلقین ہے؟ جس میں ہم اب بھی بہت پیچھے ہیں؟ اورسب نئی نسل سے امیدیں وابستہ کئیے بیٹھے ہیں کہ دیکھیں وہ کیا کرتی ہے۔ جس کی ہمارے اجداد تو پیش گوئی کر ہی گئے ہیں جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بہت سی جگہ یہ فرماکر بھی پشین گوئی کی ہے کہ ہم نے تمہاری سہولت کے لئیے یہ ایجاد کیا اور وہ ایجاد کیا اور ابھی بہت کچھ نئی چیزیں ایجاد ہونا ہیں جو تم نہیں جانتے؟ یا ان کے علاوہ اور بہت سی چیزیں ہیں جو تم نہیں جانتے؟ ان کی دریافت جبھی ممکن ہے کہ نئی نسل فرقے واریت سے باہر نکل کر حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ پر واپس جا ئے اور وہ اس پر دل لگاکر انتھک کام کرے اور اللہ مہربان ہوکر خود ایسا راستہ نئی نسل کو دکھا دے جس کی ضرورت ہے؟ وہ اگر اس سے آئن اسٹین جیسے منکرکی رہنمائی کر سکتا ہے تو وہ دوسروں کی بھی کرسکتا ہے بشرط ِ کہ کوئی محنت اور غو ر کرنے والا ہو؟ مثلا ً اسی سورۃ میں صبر پر بہت زور دیا گیا ہے جس کے معنی عربی میں اپنی جگہ وہی ہیں جو اس قادرالکلام نے اپنے نبی ﷺ کو عطا فرما ئے تھے۔ لیکن جب ہم اس کا اردو میں ترجمہ کرتے ہیں توہم خود بے صبر ی کی عادت ہونے کی بنا پر بے صبری کا مظاہرہ کر جاتے ہیں، کام بنے توکیسے بنے اگر تھوڑی سی تلاش کی جا ئے تو انگریزی میں اس کے متبادل ٹالرینس ہے؟چونکہ حضور ﷺ نے ان میں سے ہر ایک پر عمل کر کے دکھایا ہے؟ جس سے ہم اگر تھوڑا سا بھی واقف ہوتے تو اسے ہم انتہائی قوت ِ برداشت بھی کہہ سکتے ہیں جو انہوں ﷺنے اپنی مکی زندگی میں اسے اپنے عمل سے ثابت بھی کیا اور ایکبار نہیں بار بار ثابت فرمایا؟ کہ اپنے ساتھی شہید ہوتے رہے چونکہ قتال کا حکم نہیں تھا لہذا انہوﷺ نے اپنے ساتھیوں کو قتل ہوتے ہوئے ملاحظہ فر ماتے برداشت فرمایااور ان کو صبر کی تلقین فرماتے رہے جب تک کہ قتال کا حکم نہیں آگیا؟ جو اللہ اپنے منکروں پر اتنا مہربان ہے جیسا کہ میں نے آئین اسٹین بارے میں بتا یا!کہ اگر ہم توبہ کر کے اس کی راہ میں کوشش کرنا شروع کر دیں تو کامیابی غیر ممکن نہیں؟ بقول علامہ ؒ اقبال کے تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں جلوہ طور تو موجود ہے موسیٰ ہی نہیں
ابھی یہ ایک مسئلہ ختم نہیں ہوا تھا کہ ایک بہن نے ایک مسئلہ کالے جادو کا اور چھیڑ دیا۔ جس میں عاملوں اور کاملوں کی چاندی ہو گئی جسے دیکھئے ہر گھر میں کالا جادو چل رہا رہا ہے۔ اس امت کوکیا ہوگیا ہے۔ کہ جس کی اخوت کی مثال تمام دنیا میں پیش کی جاتی تھی؟ اب یہ عالم ہے کہ میاں بیوی میں لڑائی ہے۔ ساس اور بہو میں لڑا ئی ہے۔ دیور اور بھابھیوں میں لڑائی ہے۔ حالانکہ کہ ہمارے نبی ﷺ تو تمام دنیا کی تو خیر خواہی کے جوکہ مشہور اور جس طرف سے بھی گزر ہوا اس طر ف سے رحمتیں برساتے گزرتے تھے۔ انہوں نے مومین اور مومنات کو صرف ایک ہی تلقین فرما ئی تھی جو تم اپنے لیئے چاہو وہی اپنے بھائی کے لئے بھی چاہو؟ یہاں انہوںﷺ یہ نہیں فرمایا کہ اپنی ساس کو ماں کی طرح نہ چاہو؟ یا ساس بہو کو بیٹی کی طرح نہ چاہے۔ یا نند بھابھی کو بہن کی طرح نہ چاہے یا بھابھی نند کو بہن کی طرح کو نہ چاہے؟ یہ کالا پیلا جادو صرف ہم میں آپس عدل کی کمی ہونے کی وجہ سے آیا ہے۔ اس پہ توہم پرستی نے عاملوں کی پورے معاشرے پر دھاوا بولدیا ہے۔ اس طرح یہ ایک نیٹ ورک کی شکل اختیار کر گیا ہے جو ہر گھر میں ان کی ایجنٹ خواتین گھومتی پھر تی ہیں ان کا جو کمیشن بنتا ہے وہ کام کرتا ہے؟۔ ذرا حسد کی عینک اتار کے اپنے قریبی رشتہ داروں سے پیار کر کے تو دیکھو جن پر خرچ کرنے دہرا ثواب ہے۔ ایک خرچ کرنے کا اللہ کی راہ میں اور دوسرا اپنو ں پر خرچ کر نے کا؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.