عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ ہے۔۔۔۔شمس جیلانی

اللہ کو یہ بھی سخت ناپسند ہے کہ بندہ اللہ کا کہلائے اور عزت انسانوں سے چاہے؟ اگر تمام دنیا مل کر بھی عزت دینا چا ہے اور کسی کو اللہ عزت نہ دینا چا ہے تو وہ عزت نہیں حاصل کرسکتا؟تو اس کوشش کا کیا فائدہ کے لوگ غیر اللہ کی خوشامد میں لگے رہتے ہیں؟ سورہ مریم کی آیت نمبر 96 دیکھ جا ئیے وہاں جا کر آپ کو اللہ سبحانہ تعالیٰ کا پورا طریقہ کار مل جائے گا کہ کس طرح وہ اپنے بندو ں کو عزت عطا فرماتا ہے اور کس طر ح ذلت ۔ اس آیت کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ بے شک جو ایمان لائے ہیں اور نیک کام کیئے ہیں ان کے لئیے اللہ رحمٰن محبت پیدا کردیگا (96)اس کی تفسیر میں ابن کثیر ؒ کئی احادیث لائے ہیں فرمان ہے کہ” توحید جن بندوں کے اندررچی ہوئی ہے اور ان کے اعمال میںاس کا نور ہوتا ہے ضروری بات ہے کہ (ان کے لئے ہم اپنے بندوں کے دلوں میں محبت پیداکردیں)۔ چناچہ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ جب کسی بندے سے محبت کرنے لگتا ہے توحضرت جبرئیل ؑ کو بلا کر فرماتا ہے کہ میں اس بندے سے محبت کرنے لگا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ۔اللہ کا یہ امین فرشتہ بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہے پھر آسمانوں میں ندا کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں انسان سے محبت کرنے لگا تم بھی اس سے محبت کرنے لگو لہذا کل فرشتے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر اس کی مقبولیت زمین پر اتاری جاتی ہے۔جب کسی بندے سے اللہ ناراض ہوتا ہے توحضرت جبرئیل ؑ کو بلاتا ہے فرماتا ہے کہ میں اس سے ناخوش ہوں تو بھی اس سے عداوت رکھ (تب) حضرت جبرئیل بھی اس کے دشمن بن جاتے ہیں پھر آسمانوں پر ندا کردیتے ہیں کہ فلاں بندہ دشمن ِالہٰی ہے تم بھی اس سے بیزار رہنا لہذا آسمان والے اس سے بگڑ بیٹھتے ہیں پھر وہی غضب اور ناراضگی زمین پر پھیلتی ہے(بخاری اور مسلم وغیرہ)
پھر آگے چلکر وہ مسند احمد سے ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ جو بندہ اپنے مولا کی مرضی کا طالب ہوجاتا ہے اور اس کی خوشی کے کاموں میں مشغول ہوجاتا ہے تو اللہ عز جل جبرئیل سے فرماتا ہے فلاں بندہ مجھے خوش کرنے کی کوشش کر رہا میں اس سے خوش ہوگیا ہوں میں نے اپنی رحمتیں اس پر نازل کرنا شروع کردیں۔اسی مفہوم کی دو احادیث ابن کثیر نے ؒ اور بھی بیان کی ہیں جن کو میں طوالت کی بنا پر نہیں دہرارہا ہوں۔ اس اس پر انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ“ پس مطلب اس آیت کا یہ ہوا کہ نیک عمل کرنے والے بندے سے اللہ خود محبت کرنے لگتا ہے اور زمین پر بھی ان کی مقبولیت اتاری جاتی ہے۔ نیک بندے بھی ان سے محبت کرنے لگتے ہیں ان کاذکر ِ مرنے کے بعد بھی باقی رہتا ہے جبکہ حضرت حرم بن حیانؒ کہتے ہیں کہ جو بندہ سچے اور مخلص دل سے اللہ طرف جھکتا ہے اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوں کو اس کی طرف جھکا دیتا ہے۔ جبکہ حضرت عثمان بن عفان ؓ فرماتے ہیں کہ بندہ جو بھلائی یا برائی کرتا ہے وہی چادر اللہ سبحانہ تعالیٰ اس کو اوڑھا دیتے ہیں۔ یہیں ابن کثیر(رح) ایک حکایت اور بھی لائے ہیں جو کہ حضرت حسن بصریؒ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے سوچا کہ وہ دن و رات اللہ سبحانہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارے گا تاکہ لوگوں میں مقبول ہوجا ئے؟ وہ مسجد میں سب سے پہلے پہنچتا اور سب سے بعد میں جاتا،اسی طرح اسے سات ماہ گزرگئے مگر ہرایک کو کہتے سنا کہ ریاکار ہے اس کے بعد اس نے ریاکاری کے خیال سے تو بہ کی اور اس نے کہامیں آئندہ ہر کام صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے کرونگا؟ تھوڑے ہی دنوں کے بعدلوگ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص پر رحم فرمائے کہ وہ واقعی اللہ والا ہوگیا ہے اور پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی؟ ان تمام باتوں سے یہ بات ظاہر ہوتی کہ عزت اور ذلت اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے،نہ فرشتوں کے ہاتھ میں ہے نہ ستاروں کی رہین منت ہے نہ ہی کسی ملک کے صدر یا بادشاہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں اردوکا یہ محاورہ بھی غلط ہوجاتا ہے کہ “ انسان چار آدمیوں سے بھاری ہوتا ہے چار پیسوں سے نہیں؟ جبکہ حققت یہ ہے کہ مومن صرف اللہ کی رضا سے عزت دار ہوتا ہے اور جب بھی سوچ میں فرق آجائے تو اللہ سبحانہ اپنی توجہ بھی واپس لے لیتا ہے، حتیٰ کہ وہ کچھ بھی نہیں رہتا؟لہذااگر عزت چاہتے ہو تو بھلے کام کرواور وہ بھی خالص اللہ سبحانہ تعالیٰ کے لئے سب کچھ خود بخود مل جا ئے گا۔رہی ریاکاری یاکسی اور مقصد کے لئے اچھے کام؟ اس کے بارے میں حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ریاکاری کا روزہ، روزہ نہیں، ریاکاری کی نماز، نمازنہیں،ریاکاری کی خیرات، خیرات نہیں۔ماضی میں مومنین خصوصاً ہندو پاکستان میں تو بہت سے پسندیدہ بنے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بڑی مقبولیت عطا فرمائی خصوصاً پاکستان میں اور جب انہوں نے وعدہ خلافی کی تو سب کچھ اللہ تعالیٰ نے واپس لے لیا۔لیکن حال میں مثال یہ ہے کہ عمران خان کوجنہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ پہلے بے انتہا مقبولیت اور عزت وعظمت عطا فرمائی اور جب وہ وعدے پورے نہیں کر سکے تواس نے سب کچھ وآپس لے لیا؟ لہذا ان کی جگہ جو بھی ان کی جگہ آئے وہ یہ سوچ سمجھ کر آئے کہ یہ کرسی یعنی پاکستان کی وزارت عظمیٰ کانٹوں سیج بھی بن سکتی ہے پھانسی کا پھندہ بھی بن سکتی ہے جبکہ دارا اور ذوالقرنین بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ اسے بنا سکتا ہے کیونکہ عزت اور ذلت صرف اور صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ ان سے خوش رہتا ہے جو لوگ اس کی خوشنودی کا کام کرتے ہیں؟ ان سے نہیں وہ جو اپنی جیبیں بھرتے رہتے ہیں۔ یا ریاکاری کے لئے بھلائی کرتے ہیں کہ ان کو لوگ کو حاتم طائی ثانی کہیں؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہر مومن کوغیر اللہ کی خوشنودی سے کام کرنے سے بچائے جس سے سوائے ذلت اوررسوائی کے کچھ نہیں ملتا؟ (آمین)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.