حضور ﷺ نے بار بار فرمایا کہ اسلام دین ِ معاملات ہے۔ اتنی بار حضور ﷺ کو امت کو یہ یاد دلانے کی ضرورت اس لیئے پیش آئی کہ دنیا کے باقی مذاہب جو ہیں وہ صرف پوجا پاٹ اور عبادت تک محدود ہیں جس مذہب میں جو بھی طریقہ رائج ہے۔ جبکہ دیِن اسلام نے زندگی گزارنے کا ہر شعبہ میں طریقہ بیان کر کے ہمیں پھرخبردار کیاہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے حضورﷺ کے ذریعہ سے کہ اے نبی ﷺ میرے بندوں سے کہدو کہ اگر تم میرے پاس گناہ پہاڑ جتنے بھی لیکر آؤ گے اورتوبہ کروگے تو میں معاف کردونگا لیکن؟ اگر بندوں میں سے کسی کو کسی طرح کابھی نقصان پہنچایا تو میں معاف نہیں کرونگا تمہیں اسی سے قیامت کےدن معافی مانگنی پڑیگی جبکہ وہ میرے سامنے آکر اپنے اوپرمظا لم کی روداد مجھے سنا ئے گا۔ جب کسی بندے کے نیک اعمال ختم ہوجا ئیں گے توفرشتے مجھ سے آکر پوچھیں گے کہ اب ہم کیا کریں؟ تب میں حکم دونگا کہ اس کے گناہ بھی اس پراتنے ہی لاد دو اس نے جتنے کیئے ہیں۔ اس دن سب سے بڑا مفلس وہی ہوگا جو کسی کا حق مارے گا؟ چونکہ میں نے یہ مفہوم حدیث کا پیش کیا ہے اسے سن کر بہت سے لوگ کند ھے جھٹک کر کہدیں گے کہ یہ تو حدیث ہے غلط بھی ہوسکتی ہے؟ پہلا جواب تو یہ ہے کہ اگر یہ سچی ہوئی تو پھر تم کیاکروگے؟کیونکہ حشر کا میدان دار الجزاء ہے دار السزا ہے وہ دار عمل نہیں ہے؟ نہ ہی یہ ممکن ہے کہ جو وہاں سے اللہ سبحانہ تعالیٰ سے اجازت لے کرآ سکو اور دنیا میں واپس آکر ، نیک عمل کرکے جان چھڑالو۔جبکہ وہ قرآن میں فر ما چکا ہے۔ نبی ﷺکا اتباع میرا اتباع ہے؟ نبی ﷺ کے اسوہ حسنہ میں تمارے لیئے نمونہ ہے اور یہ بھی کہ یہ اپنی طرف سے کچھ نہیں فرماتے یہ وہی فرماتے جو ہم ان کو وحی کرتے ہیں۔ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ بڑا رحیم ہے بڑا معاف کرنے والا ہے معاف کردے گا۔ یایوم حشر برپا ہی نہیں ہوگا حساب کتاب ہوگا ہی نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس پر ایمان نہیں ہے کسی کا اور وہ ایسا سوچتا ہے۔ اور شایدیہ سمجھ کر سوچتا ہو کہ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے ،وہ بھی نبیﷺکے ذریعہ ہی آیا ہے کہ ً جوبندہ میرے بارے میں جیسا گمان رکھے میں اس کے لیئے ویسا ہی ہوں؟ اول تو اس سوچ کے لیئے حدیث کی طرف پھر لوٹ کر آنا ہو گا؟ دوسرے اس میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے جوکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اندر رکھا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ چور تھانے دار کے پاس جانے سے پہلے کبھی اچھا گمان لے کر نہیں جاتا وہ جب ہی خوشی خوشی جاتا ہے جبکہ وہ ساہوکار ہو؟ورنہ ہتھکڑی لگا کر لے جایا جاتا ہے؟ اگر وہ ساہو کار ہے پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے؟ پھر اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ڈھیروں رحمت حقدار ہے اور پھر وہاں بھی وہی حدیث کا سہارا لینا پڑیگا۔ کہ میری رحمت کے سوا صرف اپنے اعمال کی بنا پرجنت میں کوئی نہیں جا ئیگا۔ صحابہ کرام ؓ نے حضور ﷺ سے سوال کیا حضورﷺ کیاآپ بھی تو انہوں ﷺ نے فرمایا ہاں! میں ﷺبھی مگر مجھے اس کی رحمت نے ڈھانپ رکھا ہے۔؟ پھراسلام میں داخل ہونے کے لیئے ایمان لانا لازمی ہے تاکہ رحمت کے حقدار بنیں جس کا قرآن میں بار بار ذکر ہے مگر ایمان کیسے لا ؤگے جیسے کہ حضورﷺ نے بتایا؟ کہ رحمت کے لئیے مومن ہونا لازمی ہے؟ میں نے اس بحث میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے بغیر حدیث کے کہیں کام نہیں چلے گا نہ کوئی ایمان لا سکتا ہے، نہ نماز پڑھ سکتا؟اس لیئے کہ قرآن میں حکم نماز پڑھنے کا ہے مگر کیسے؟ یہ حضور ﷺ نے بتایا روزہ رکھنے کا حکم قر آن میں ہے لیکن کیسے رکھو گے، یہ بھی حضور ﷺ نے بتایا۔ زکات دینے کا حکم ہے مگر کتنی دوگے کسے دو گے اورکیسے دوگے ترجیح کس کو دوگے۔ حج کرنے کاحکم قرآن میں ہے مگر کیسے کروگے؟ ویسے ہی جیسے کے حضوﷺ نے کر کے دکھایا؟ اور فرمایا تھا جسے حج کے ارکان سیکھنے ہیں وہ مجھ سے آج سیکھ لے؟ اب آپ کے بات سمجھ میں آگئی ہوگی کی قرآن او رصاحبﷺ قر آن دونوں کو ماننے میں ہی عافیت ہے اور اسی کانام اسلام ہے۔ جس پر نبی ﷺ کا ٹھپہ نہ لگا ہو اہو وہ رب تعالیٰ کے یہاں قابل قبول نہیں ہے؟ اس کے برعکس حضورﷺ کے اسوہ حسنہ پر چلتے ہوئی جو کام بھی کروگے وہ سب کا عبادت ہے اور سب کا ثواب ملے گا؟ یادرکھو اسلام پوراےکا پورا دین میں داخل ہونے کا نام ہے کچھ چھوڑو کچھ لیلو یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ پہلے حتیٰ المقدور کوشش کرو اور مجبور ہوجا ؤ؟
اب آجا ئیے معاملات پر؟اس کی خلاف ورزی سےبچنے ، اپنے حق لینے اور دوسرے کے دینے کے لیئے اپنے اور سب کے حقوق جاننا ضروری ہے جب یہ جانتے ہی نہیں ہو تو کیسے انصاف کر سکو گے؟ پھر تو ہوگا یہ ہی کہ نماز پانچوں وقت کی اور ملاوٹ ہر چیز میں۔ مثلا ً دو ھ میں پانی اور ہلدی میں پسی ہوئی اینٹ اور رشوت دینا تاکہ دامن پر بظاہر نہ آئے چھینٹ؟ (باقی آئندہ)