اسلام دین معاملات ہے(2)۔ شمس جیلانی

پچھلی اشاعت میں ہم یہ بتا چکے ہیں کہ اسلام دین ِ معاملہ ہے اور جب تک کوئی یہ نہ جانے کہ اس کے حقوق کیا ہیں اور دوسروں کے حقوق اس کے اوپر کیا ہیں وہ جان ہی نہیں سکتا کہ وہ کیا کرسکتا اور کیا نہیں کرسکتااور کہاں تک جا سکتا ہے؟ جب کہ وہ اپنے حدود جانتا نہیں توتعین کیسے کریگا؟ لہذاسب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہر ایک کےاپنے حدود کیا ہیں اور ذمہ داریاں کیا ہیں۔آئے سب سے پہلے با ت کرتے ہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ اور بندے کی ذمہ داریاں کیا ہیں بندے کی ذمہ داری ہے اللہ پر ایمان لانا پھر اللہ جنہیں بتا ئے ان پر ایمان لانا؟ اگر کوئی دنیا میں باپ کی بات نہ مانے اوروہ جو حکم دے اس پر عمل نہ کرے تواولاد نافر مان سمجھی جا ئیگی۔ ایسی صورت حال میں وہ اپنی اولاد کو عاق کر کے اس کو اپنی تمام وراثت سے محروم کردیتا ہے۔یہاں میں نے باپ بیٹے کا رشتہ مثال کے طورپر استعمال کیا ہے جبکہ یہااں جو معاملہ ہے وہ خالق اور مالک کا ہے باپ بیٹے کا نہیں ہے۔ جو ماں سے بھی ستر گنا زیادہ بندوں کو پیار کرتا ہے۔ اور نافرمانوں کے ساتھ بھی وہ سلوک نہیں کرتا جو ایسی صورت حال میں دنیا میں باپ کرتا ہے؟ اکثر بعض لوگ یہ دیکھ کر گمراہ ہوجاتے ہیں میں تو مومن ہوں میں اسے مانتا ہوں؟ جو اسے نہیں مانتے وہ زیادہ مزے میں ہیں؟اس نے وجہ بھی قرآن میں بتادی ہے لیکن قر آن پڑھتا کون ہے اور اسے سمجھتے کتنے ہیں یہ فر مادیا کہ تم ان کے کرو فر کو دیکھ کر متاثر مت ہونا، ان کا جو کچھ حصہ ہے میں چونکہ مصنف ہوں میں اسے یہیں دیدیتا ہوں؟ جب کہ میرے بندے جو ہیں ان کا وقتاً فوقاً امتحان لیتا رہتاہوں کہ آیا وہ وفادار بھی ہیں یا نہیں ۔ اگر وہ وفادار ثابت ہوتا ہے تو اس کے درجات بڑھاتا رہتا ہوں حتیٰ کہ اسے متقیوں کا اسے امام بنا دیتا ہوں جیسے کہ حضرت ابراہیم ؑجن کے بارے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اعلان فر مادیا کہ میں نے اسے ہر طرح سے آزمایا اوروہ اس پر پورا اترا تو کہاں اس کا ایک بچہ بھی نہیں تھا؟ اور وہ اور ان کی بیوی بوڑھے ہوچکے تھے جو قطعی نا امید ہو چکے تھے۔ میں نے اسے اسحاق ؑ ؑ، یعقوب ؑ عطا فرما ئے حتیٰ کہ میں نے نبوت ؑ اس کے خاندان کے لیئے مخصوص کردی اور جب اس پر انعا مات کا سلسلہ دنیا میں ختم کیا تو اس کی دعا کے مطابق اس کی اولاد میں سے آخری نبیﷺ خاتم المرسلین بنا دیا؟یہ سب کیا تھا؟ یہ انکی اللہ کے ساتھ وفادار ی تھی اور اسے میں نے وفاداری کا صلہ عطا فرمایا مجھےایسے لوگ چاہیئے تھے جو ان کا اتباع کریں ان کے لیئے دائمی طور پر فرمایا کہ جنت ملے گے ۔جو اس کے خلاف راستہ ختیار کریں گے ان کو دائمی طور پر جہنم ملے گی؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ ایسا کیوں ہے اس لیئے کہ وہ دونوں کا رب ہے اور پوری کا ئینات میں جو کچھ بھی ہے وہ اس کا رب اورا زق ہے رزق مہیا کرنا اس کی ذمہ داری ہے یوں سمجھ لیجئے کہ جنت کو بھی بھرنے کے لیئے اسکو لوگ چاہیئے اور جہنم کو بھر نے لیئے بھی اسے لوگ چا ہیئے؟ وہ اسے پیدا کرنا ہیں؟ قرآن کی ایک ہی آیت میں بتادیا ہے کہ جو میرے بندے ہیں ان کے لیئے کیا ہے اور جو شیطان کا اتباع کریں گے ان کے لیئے کیا ہے۔اس آیت میں اس نے دونوں کو راستے بھی دکھا دیئے ہیں؟ یہ اخیتار انہیں دیدیا ہے کہ زبردسی کوئی نہیں ہے؟ جو راستہ چاہیں اپنے لیئے اختیار کریں۔ اب یہ ذمہ ان کے اوپر ہے کہ وہ کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں؟ نتائج وہی ہونگی جو وہ خود اپنے لیئے منتخب کریں گے؟یہاں دنیاوی معاملہ نہیں ہے۔ ایک بہت بڑی مثال میں پیش کر رہاں ہوں جوکہ حضرت عمر ؓ نے بطور نصیحت حضرت سعد(رض) بن وقاص کو کی تھی جب ان کو وہ ایران جانے والی افواج کا سربراہ بنا کر بھیج رہے تھے ً سعد نمہیں یہ غرور کہیں نہ ہلاک کردے کہ تم محمد ﷺ کے ماموں ہو اللہ سبحانہ تعالیٰ سے کسی کا کوئی رشتہ نہیں ہے سوائے اتباع کے؟ اس میں بندے کے پورے فرائض ظاہر ہو رہے ہیں اگر اتباع کروگے تو پھل کھاؤگے اگر نہیں کروگے تو قرآن کی دوسری آیت بھی کہ جو کچھ کوئی کرتا ہے صرف اپنے لیئے کرتا ہے اللہ کا نہ کوئی فائدہ ہے نہ نقصان ہے۔ یہ تھیں اللہ کی وہ مہربانیا جو میں نے بیان کیں جو کہ ایک” کن “فرما کر پوری کائینات کو پیدا کرسکتا ہے۔ کیا اس کے لیئے یہ ممکن نہیں تھاکہ بہ جبر سب کو مسلمان پیدا کرتا؟تو پھر انصاف کیسے ہوگا کہ کون وفادار ہے کون نہیں؟ان بندوں کے لیئے جو انعامات کے دفتر ہیں جو کہ” صرف ایک شرط پر ہیں کہ فرماتا ہے کہ میری بات مان لیا کرو” یہ کہنے اور سنے میں بہت معمولی سی بات لگتی ہے؟ مگر اس کے معنی ایک شعرمیں علامہ اقبال ؒ نے بیان فرمادئیے ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے” یہ شہادت گہہ ا لفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا” اور ایسا ہی مسلمان ہونا چاہیئے جیسے کہ مدینہ کی ایک چھوٹی ریاست میں حضور ﷺ کے زمانے میں تھے؟ ہم صرف منہ سے کہتے ہیں وہ کم کہ کیوں ہیں اس لیئے کہ ہماری اکثر یت کو اسلام وراثت میں اجداد کے ورثے کے طور پر ملاہے۔ اگر ویسی ہی قر بانیاں دی ہوتیں تو اس کی ہمارے دلمیں قدر ہوتی ہمارے تمام مسلمان بھائی اپنے گریبان میں جھانک کے دیکھیں کہ ہم میں سے کتنے آج اس پرپورے اتر تے ہیں؟ پھر گنئے کہ ان کا تناسب کیا ہے۔ حضور ﷺ کی پشن گوئی ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گاا کہ ” میرے لوگ را ہ راست سے بھٹک جا ئیں گے اس وقت دین پر قائم رہنا ایسا ہوگا جیسے کہ کوئی انگارہ مٹھی میں لے لے۔ لیکن ساتھ ہی خوش خبری بھی عطا فرما ئی ہے کہ ان کو سو حجوں ثواب ہوگا اس حدیث کی روشنی میں ایک دفعہ اپنا اپنا جا ئزہ ہم لے لیں کہ ہم سے کتنے ہیں جو اس حدیث کا ثواب حاصل کرنے کی کوشش کر رہےاور ان کا تناسب کیا ہے۔ جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ سورہ الصف کی ابتدائی آیات میں فرمارہے ” مسلمانوں ایسی بات تم کہتے کیوں ہو جو کر نہیں سکتے ہو اللہ کو یہ بات سخت ناپسند ہے؟ٓ

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles, Islam is a religion of affairs. Bookmark the permalink.