ہم نے گزشتہ کالم میں یہ ثابت کر نے کی کوشش کی تھی کہ جب تک ہم اپنے حقوق اللہ اور اللہ بندوں پر نہیں جانتے، ہم انصاف کیسے کریں گے؟اللہ سبحانہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ انسان پر اس کے اپنے نفس کاحق ہے؟ بہت سے مذاہب نفس کشی یعنی نفس مارنا بہت بڑی عبادت سمجھتے ہیں؟ حالانکہ ایسا نہیں ہے جنہوں نے اور قوموں کو دیکھ کر رہبانیت اختیار کی یا کرنا چاہی تو حضورﷺ نے فرمایا کہ میں جو دین لایا ہوں وہ میرا دین ہے جس پر میں عمل کر کے بھی دکھادیا ہے جوکہ اللہ سبحانہ کو پسند ہے میں کھانا بھی کھاتا؟ ہوں فرض روز بھی رکھتا ہوں، نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں؟ چونکہ اسلام میں ہر چیز کی ملکیت اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہے۔ وہ بندے کے پاس امانت کے طور پر ہے اور ہر اچھے امین کی ذمہ داری ہے کہ وہ امانت کی حفاظت اچھی طرح کرے؟اگر نہیں کرسکتا ہے تو مالک کو واپس کردے؟ جومذہب جانوروں کی فریاد سنتا ہے یہ کیسے ممکن کے اپنے اعضا ء کو بھول جا ئے اور خود کو کنوئیں میں الٹا لٹکادے؟ جس طرح جسم کی حفاظت نہ کرنا حرام ہے جیسے کہ خود کشی کرنا حرام ہے ایسے ہی ہر وہ فعل حرام ہے جس کے نتیجہ میں موت واقع ہونے کا احتمال ہو؟
کہ کہاں کہ اپنے جسم کی طرف سے لا پروائی برتی جائے؟
اس کے بعد سب سے زیادہ حقوق دنیاوی خالقوں کے ہیں؟ وہ ہیں والدین اور والدین میں ترجیح والدہ کو
ہے؟ حضور ﷺ کے پاس ایک شخص اس نے آکر پوچھا کہ سب سے زیادہ حق کس کا ہے تو فرمایا تیری ماں کا ،پھر اس نے پوچھا تو فرمایا تیری ماں کا ،اس کے بعد تیسری مرتبہ اس نے پوچھا تو فرمایا تیری ماں کا۔ چوتھی مرتبہ فرمایا تیرے باپ کا اس کے بعد قریبی رشتے داروں کا۔ مگر اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ والد کا حق ہی نہیں ہے وہ بھی ایک دوسری حدیث میں موجود ہے کہ حضور ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اس نے پوچھا کہ حضور ﷺ میرے والد تنگی میں ہیں فرمایا اس کے ہاتھ نہ روکنا تو بھی اسی کا ہی ہے تیرا مال بھی اسی کا ہے۔یاد رہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے فوراً ہی بعد ہمیشہ قرآن شریف میں والدین کے حقوق کا ذکر فرمایا ہے کہ ان کے حقوق ادا کرو؟۔ پھر باپ کے مرنے کے بعد اس کے دوستوں کا حق ہے۔ ماں کی سہلیوں کے حقوق ہیں والد کے دوستوں کے ہیں،اگر کوئی انہوں نے منت مانی ہے وہ ادا کرنا ہےیا قرضہ چھوڑ جا ئیں وہ ادا کرنا ہے؟ والدین کے لیئے تو یہا تک قرآن نے منع فرمایاہے کہ اگر وہ بوڑھے ہوجا ئیں تو انہیں اف تک بھی مت کہو۔ چاہیں وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں؟ البتہ وہ مذ کے ہب بارے میں کو خلاف ورزی اولاد سے کرانا چا ہیں تو مت مانو!ایک حدیث میں تو یہاں تک آیا ہے کہ والدین کے ساتھ بد اخلاقی کا مظاہرہ اگر اولاد کریگی تو اس کی سزا اللہ سبحانہ تعالیٰ یہیں دیدیگا قیامت تک کے لئیے نہیں اٹھا کر رکھے گا۔ لہذا ان کے سلسلہ میں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے؟اگر کوئی اولاد زند گی بھر فرماں بردار ی کرے مگر باپ کے مرنے کے بعداس کا قرض نہ ادا کیا تو وہ نا فرمانو ں میں شمار ہوگی۔ اگر والدین کی پوری زندگی خدمت کی لیکن مرنے کے بعد ان کے دوستوں کا خیال نہ رکھا تو بھی وہ نا فرمانوں میں شمار ہوگی؟ لیکن دوسری طرف یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ والدین خود اپنے حقوق کے ساتھ اپنے فرائض کا خیال رکھ رہے ہیں ؟یا حریص قسم کے ہیں کہ بیٹا بچا بچا کر ان کے پاس غیر ملکوں سے کماکر بھج رہا ہے ،یہ سمجھ کر کہ میری رقم جمع ہورہی ہے۔ جو مکان بن رہا ہے وہ میرا ہے اور جب اس نے واپس آنے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا کچھ بھی نہیں ہے۔ ان تمام رشتوں میں سب سے اہم یہ حکم ہے جو کہ قرآن کی ایک آیت میں ہے اور ہر جمعہ کو نمازی سنتے بھی ہیں جس کو حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز نے شامل کرادیا تھا اور آج تک چلا آرہا کہ ًاللہ تعالیٰ عدل و احسان کے ساتھ زندگی گزارنے کا حکم دیتا ہے اورکسی کو کسی کے حقوق کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا ۔جبکہ وہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھے؟ اسی قسم کی خلاف ورزی کے مقدمے عدالتوں تک جاتے ہیں؟ اکثر عدالتوں میں ماں اور بیٹے آمنے سامنے کھڑے ہوں بیٹا اور باپ آمنے سامنے کھڑے ہوتے اور یہ سب بھول جا تے ہیں کے ہمیں اللہ کے سامنے جانا ہے؟ باپ کے بعد بڑے بھائی کے بھی وہی حقوق ہیں جو باپ کے تھے اسے بھی اپنے چھوٹے یتیم اور غیر یتیم بھا ئیوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا چا ہیئے جو اپنی اولاد کے ساتھ کر تے ہیں۔ کسی بھی حالت میں ترازو پلڑا اپنی طرف نہ جھکے بلکہ جتنا بھی ہوسکے اس کا جھکاؤ سامنے والے کی طرف ہونا چا ہیئے۔ عربی میں احسان کے معنی ہر معاملہ کو بہ حسن وخوبی نبٹانا ۔ چا ہیں وہ اپنے ہوں یا غیر ہوں؟(باقی اگلی اشاعت میں پڑھئے)