اسلام دین معاملات ہے(5)۔ شمس جیلانی

گزشتہ مضمون میں ہم نے اس پربات ختم کی تھی کہ بچے وہی کچھ سیکھتے ہیں جو آپ کو کرتے دیکھتے ہیں آج کے دور میں آپ کی اپنی عافیت اسی میں ہے کہ آپ وہی کریں جو آپ بچوں کوسکھانا چاہتے ہیں ورنہ آپ کے بچے بھی وہی بن جا ئیں گے جہاں آپ رہ رہے ہونگے ?اس لیئے کہ ہم عصری کا دباؤ یعنیPeer presserکااثر ان کو بری طرح متاثر کرتا ہے گوکہ یہ مشکل کام ہے لیکن اگر آپ عاقبت پر یقین رکھتے ہیں تو خود بخود وہ آسان ہوجا ئیگا کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ آسانیاں پیدا کردیگا؟ اس لئیے کہ حضورﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ جس کے الفاظ کا مفہوم یہ ہے ایک کہ “ دور آئیگا کہ میری امت گمراہ ہو جا ئے گی اس وقت جو لوگ میرے یا میرے ان صحابہ ؓ کرام کے راستے پرچلیں گے جوآج میرے راستے پر ہیں توان کے لئیے اس راہ پر چلنا اتنا ہی مشکل ہوگا جیسے کہ کسی نے انگارہ مٹھی میں رکھ لیا ہو۔ مگر جو چلیں گے ان کے لئے اس کا ثواب سو حج کرنے کے برابر ہوگا۔اس دور میں اسوہﷺ حسنہ پر عمل کرنے والوں کے لیئےاتنی نویدیں ہیں کہ ان کی حد نہیں ہے مگر اس عمل کر کے وہ رتبے لینے والے اس دنیا میں اب ملتے نہیں ہیں اگر کہیں ہیں تو وہ دال میں نمک برابر ہیں اسی لئےشاید علامہ اقبال ؒ کو ایک صدی پہلے کہنا جواب شکوہ میں یہ کہنا پڑاکہ“ جلوہ طور تو موجود ہے موسیٰ ہی نہیں “آئیے دعا کر یں کہ ہمیں اللہ سبحانہ تعالیٰ اسوہ حسنہ ﷺ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)اب ہم چلتے ہیں بیوی اور بچوں کے حقوق کی طرف جو کہ صدقوں میں ثواب کے اعتبار سے سب سے اول ہے۔ یہ سب ہی جانتے ہیں کہ کما کے لانا اور بیوی بچوں کو کھلانا پلانا روٹی کپڑا دینا یہ سب کچھ اسلام میں شوہروں کے ذمہ ہے؟اور اسکا سب سے زیادہ ثواب ہے۔ اس سلسلہ میں ایک صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ ایک دینار جہاد پر کوئی خرچ کرے،اور ایک دینار کسی غلام آزاد کرانے پر خرچ کرےاورایک دینار کسی مسکیں دیا جا ئے اور ایک دینار اپنے اہل و عیال کے نان اور نفقہ پر خرچ کیا! تو سب سے زیادہ ثواب اپنے اوپر، اپنے بچوں کے اوپرخرچ کرنے کاثواب سب سے زیادہو گا بشرط ِ وہ حلال ذرائع سے کمایاہو اگر حرام ہے تو کچھ بھی نہیں اگر مال حلال اور اپنی شہرت کے لئیے خرچ کیا گیا تو بھی کوئی ثواب نہیں ہے۔ چونکہ شہرت شرک خفی میں آتی ہے اللہ سبحانہ کسی قسم کا شرک برداشت نہیں کرتا جس طرح آپ اپنے سے کم تر لوگوں کواپنے کسی کام میں شریک نہیں کر تے ؟وہ تو مالک ہے وہ کیسے گوارہ کرسکتا ہے کہ اسی کی مخلوق میں سے کوئی اس کا شریک کہلائے؟ہم نے اوپر ایک لفظ مسکین استعمال کیا ہے۔ جس کے معنی اردو میں کچھ اور ہیں جبکہ عربی کچھ اوراسی صدقے معنی ہیں۔ ہم اردو میں جو بھیک مانگتا پھرے اسے مسکیں کہتے ہیں مگر عربی میں مسکین کے معنی یہ ہیں کہ وہ کما تورہا ہے با روز گار بھی ہےمگر اس کے جائز اخراجات پورے نہیں ہوتے وہ بھی مسکین ہے ؟ اس کی مدد معلوم کر کے کرنا چا ہیئے کیونکہ وہ ہاتھ پھیلا کر مانگتا نہیں ہے۔ دوسری غلط فہمی یہاں یہ ہے کہ بیوی کی آمدنی پر شوہر کا حق ہے جوکہ آجکل خواتین کی ملازمت کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا؟ یہ قطعی غلط ہے۔ وہ اگر اپنی مرضی سے اپنی پوری آمدنی بچوں اور شوہر پر خرچ کردے تو وہ محسنہ کا درجہحاصل کرلے گی۔ اور جو وہ خرچ کریگی اس کا ثواب دگنا ہوگا۔ ایک اللہ کی راہ میں دینے کا ثواب تودوسرا صلہ رحمی یعنی اپنوں کو دینے کا ثواب۔یہ ایک ایسا انکشاف ہے جس سےکے بہت کم لوگ واقف ہیں حتیٰ کہ بہت سی مخیر خواتین بھی واقف نہیں ہیں؟ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضور ﷺ نے ایک روز اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بڑی تعریف کی اور بے انتہا اس ثواب بتایا جو کہ ہے۔ تو حضرت عبد اللہ بن مسعودکی نے بیگم صاحبہؓ حضرت زینب بنت ابی معاویہ کو بہت دکھ ہوا کہ میرے پاس بچوں اور شوہر سے کچھ بچتا ہی نہیں ہے میں کہاں سے لاؤں جو اللہ کی راہ میں دوں؟ انہوں نے گھرواپس آکر اپنے شوہر سے ذکر کیا حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ تم آج سے مجھے ایک کوڑی بھی مت دو اور سب راہِ خدا میں دیدیا کرو میرا اوراور میرے بچوں کا اللہ مالک ہے؟ انہوں ؓ نے فرمایا کہ نہیں پہلے آپ حضور ﷺ ے معلوم کر کے آئیں ان کا جو حکم ہوگا اسی پر میں عمل کرونگی۔ انہوں نے کہا کہ تم خود جاؤمیں نہیں جاؤ نگا؟ کیونکہ بیگم صاحبہ کے سامنے وہ منظر تھا کہ ان کی مدد بند کرکے خیرات کرنے کے بعدانہیں ان کے اپنے بچے فاقوں سے مر تے نظر آرہے تھے؟ جبکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ توکل میں بہت آگے تھے؟ وہ دن بھر حضور ﷺکی میں حاضر رہتے ان سےعلم حاصل کرتے اور دن رات وہ لوگوں میں بانٹتے رہتے جبکہ کسی سےوہ کو ئی نذرانہ وغیرہ قبول نہیں کرتے تھے اور وہ اسی روش پر تا حیات قائم رہے جواس سے ثابت ہے کہ حضرت عثمان(رض) نے اپنے دور ِ خلافت میں انہیں ایک بہت بڑی رقم بھجوادی جبکہ وہ شدید بیمار تھے؟ وہ انہوں نے یہ فرماکر واپس کر دی کہ تم یہ سمجھتے ہوکہ میں اپنے پیچھے لڑکیا ں چھوڑے جا رہا ہوں میرا کوئی لڑکانہیں ہے میں نے انہیںسورہ کہف سکھادی ہے جس کو یہ سورت یاد ہووہ وہ کبھی بھوکا نہیں مرتا؟ جبکہ ان کی بیگم صاحبہ کی سوچ یہ تھی چونکہ وہ کئی ہنر جانتی تھیں جس سے گھر کا خرچ چلتا تھا اب کیا ہوگا؟ وہ حضو رﷺ کے پاس تشریف لے گئیں حضور ﷺ زنان خانے میں تھے ایک انصار کی خاتون بھی یہ ہی مسئلہ پوچھنے آئی تھیں اور پہلے سے وہاں بیٹھی تھیں کہ اتنے میں حضرت بلال ؓ باہر تشریف لے آئے تو انہوں ان کے آنے کی وجہ پوچھی توانہوں نے کہا کہ آپ حضور ﷺسے ہمیں یہ معلوم کر کے لادیں کہ یہ معاملہ ہم درپیش ہے۔ وہ تشریف لے گئے اور انہوں واپس آکر یہ جواب دیا کہ دہرا ثواب ہوگا ایک اللہ کی راہ میں دینے کا اور دوسرا صلہ رحمی یعنی اپنوں کو دینے کا؟ اور وہ مظمعن ہوکر گھر چلی گئیں۔ آئیے دعا کر یں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسا ہی بنا دے کہ ہر معاملہ میں ہم حضورﷺ کے نقش پا پر چلیں۔ آمین ثمہ آمین (باقی ٓئندہ )

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles, Islam is a religion of affairs. Bookmark the permalink.