ہم گزشتہ مضمون میں یہاں تک پہنچے تھے کہ بہت سے جوڑے جو میاں بیوی کے رشتے سے جڑے ہوئے ہیں مگر ان میں سے بھی اکثر کویہ معلوم نہیں کہ ان کے ایک دوسرے پر حقوق کیا ہیں؟حالانکہ شوہر کو خطبہ نکاح کے دوران نکاح خواں وہ سب کچھ بتا دیتے ہیں جو کہ قرآن میں آیتوں کی صورت میں آیا ہے کہ شوہر کے اوپرذمہ داری یہ ہے کہ وہ خود اپنا نان اور نفقہ کماکر لا ئے جیسا خود کھائے وہی بال بچوں کو بھی کھلائے، مگر رزق ِحلال ہونا چا ہیئے؟ تو سب سے زیادہ ثواب با ل بچوں پر خرچ کرنے کا ہے ان کا پیٹ بھر نے کے مقابلہ میں کو ئی اور مد چا ہیں وہ کتنی مقدس کیوں نہ ہووہ ان پر سبقت نہیں لے سکتی؟ ان کے بعد اللہ سبحانہ نے خرچ کرنے کی ایک ترتیب آیت نمبر177 سورہ بقرمیں دیدی ہے جس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ “ تمام بھلائی اس میں نہیں ہے کہ منہ تم نے مشرق کی طرف کرلیا یا مغرب کی طرف کرلیا بھلائی اس میں ہے بلکہ حقیقتاً بھلا شخص وہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر ،قیامت کے دن پر، فرشتوںّ پر نبیوںّ پر ایمان رکھتا ہو اور اللہ کی محبت میں اپنا مال خرچ کرتا ہو ،قرابتداروں پر، یتیموں پر مساکین پر۔ مسافروں پر اور سوال کرنے والوں اور غلاموں کی گردن چھڑانے پر، نماز کی پابندی کرے زکاۃ ادا کرے، جب وعدہ کرے تو پورا کرے تنگ د ستی اور لڑائی وقت صبر کرے۔ یہ ہی سچے لوگ ہیں اور یہ ہی پرہیز گار ہیں“ اس پر بطور شوہر خود عمل کرنا ہے کیونکہ وہ گھر کا بڑا ہے؟ باقی اسے دوسرے اہلِ خانہ کو تلقین بھی کرنا ہے یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس پر گھر میں عمل ہورہا ہے یانہیں؟ جبکہ بیوی کی صرف اتنی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شوہر کے بچوں کو پرورش کرے، دودھ تیس ماہ پلا ئے اور اس کے ناموس کی حفاطت کرے۔ اور صرف انہیں لوگوں کو گھر میں آنے کی اجازت دے جنہیں کہ اسکا شوہر پسند کرتا ہو۔ ان میں شوہر اگر کہیں بھی کوتا ہی کریگا تو وہ ذمہ دار ہونے کی وجہ گنا ہ گار ہوگا؟ باقی جو بیوی کے فرائض زوجگی ہیں وہ بخوبی ادا کرے؟ اگر اس کوئی ہنر آتا ہے اور اس سے کچھ کمارہی تو اس پر شوہر کا کوئی حق نہیں ہے نہ بال بچوں کا حق ہے؟یہ اس کی مرضی ہے کہ وہ جہاں چا ہے وہاں خرچ کرے۔ ہاں! اگر وہ اپنی مرضی سے گھر پر یا بچوں پر خرچ کریگی تو اس کا درجہ ایک محسنہ کا ہوگا اور اس کو اس پردہرا ثواب بھی ملے گا ایک راہ خدا میں خرچ کرنے کا اور دوسراصلہ رحمی کا یعنی اپنوں پر خرچ کرنے کا؟ جو کہ حضورﷺ نے اپنے ایک فیصلہ میں حکم صادر فرمایا ہے یہ معاملہ دو بہت بڑوں کے درمیان تھا وہ تھے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اور حضرت زینبؓ بن ابی ماویہ ۔ جس کا فیصلہ ہم گزشتہ ہفتہ اپنے مضمون نمبر (5)میں تحریر کرچکے ہیں۔ جن کو دلچسپی ہووہ وہاں جا کر پڑھ لیں؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے